پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی
بھارتی حکومت کے مقابلے میں حکومت پاکستان کا رویہ خاصا نرم ہے ۔۔۔
QUETTA:
دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کی، بھارتی حکومت نے 25 اگست کو ہونے والے دو طرفہ مذاکرات ملتوی کردیے۔ بھارت میں عبدالباسط پر غداری کا مقدمہ بھی قائم کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب کے موقعے پر میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں جن اصولی فیصلوں پر اتفاق رائے ہوا تھا، ان پر عملدرآمد کا معاملہ التوا میں چلا گیا۔ امریکا نے دوطرفہ مذاکرات کے التوا پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔
بھارت نے پہلے کبھی ان ملاقاتوں پر اعتراض نہیں کیا تھا، ان میں سے کئی رہنمائوں کو پاکستان کے دورے کے ویزے مل چکے ہیں۔ کشمیری سابق گوریلا رہنما پاکستان میں اپنے دورے کے دوران جلسوں سے بھی خطاب کرچکے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے سوشل فورم میں یاسین ملک کی تقریر کی یادیں اب بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ یاسین ملک پاکستان کے اپنے دورے میں ایک نوجوان خاتون کے اسیر ہوئے اور یہ خاتون شادی کے بعد سری نگر منتقل ہوگئیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے سابقہ دورے میں اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملاقات نہیں کی تھی، ان کے خلاف آج کل غیر رسمی طور پر گردش کی جانے والی چارج شیٹ میں یہ الزام بھی سرفہرست ہے۔ بھارتی حکومت کے فیصلے کے بارے میں مختلف قسم کی توجیہات بیان کی جارہی ہیں۔ نئی دہلی میں مقیم سینئر صحافی جاوید نقوی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی کا فیصلہ بھارتی جنتا پارٹی کے اندرونی تضادات کا نتیجہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے بعض افسروں نے غیر رسمی ملاقاتوں میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت اس طرح کی ملاقاتوں پر احتجاج کرچکی تھی۔
اگر ہائی کمشنر کی ایسی سرگرمیاں جاری رہیں تو مزید سخت سفارتی اقدامات خارج از امکان نہیں ہیں۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنتا پارٹی نے اپنے منشور میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت دلانے والی شق 370 کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم گزشتہ دنوں جب پہلی دفعہ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے دورے پر سری نگر گئے تو انھوں نے ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اپنی تقریروں میں ذکر نہیں کیا تھا مگر سری نگر میں انھیں حریت کانفرنس کی اپیل پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مودی حکومت نے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔
وادی کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر گزشتہ سال کے اوائل سے کشیدگی کی صورتحال اور کنٹرول لائن پر خلاف ورزی کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں۔ گزشتہ سال ان جھڑپوں میں دونوں ممالک کے متعدد فوجی جاں بحق ہوئے تھے۔ ایک بھارتی فوجی کی گردن کاٹنے کی خبر نے کشیدگی کی شدت بڑھادی تھی، فائرنگ کی وارداتوں میں بہت سے سویلین بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ گزشتہ ایک ماہ میں کئی افراد اسی طرح کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے، فائرنگ کا یہ سلسلہ سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری سے سیاچن تک چلا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کے مقابلے میں حکومت پاکستان کا رویہ خاصا نرم ہے جب کہ سیالکوٹ کے علاقے میں بھارتی فوجی کی ایک کشتی الٹنے کی بنا پر ایک بھارتی فوجی پناہ کے لیے پاکستانی علاقے میں آگیا تھا تو اس کے ساتھ مہمان نوازی کا سلوک کیا گیا اور پھر یہ فوجی واہگہ کے راستے بھارت چلا گیا تھا۔ اس کشیدہ صورتحال کا بعض غیر جانبدار مبصرین پس منظر یوں بیان کرتے ہیں کہ بعض جہادی عناصر نے کنٹرول لائن پر اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں، وادی نیلم کے مکینوں نے اس طرح کی سرگرمیوں کے خلاف گزشتہ سال ہڑتال کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جہادی عناصر کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں تو پھر بھارتی فوج اندھا دھند شیلنگ کرتی ہے، بعض اوقات بھارتی توپوں کا استعمال تباہی مچاتا ہے، وادی نیلم کے بے گناہ افراد ان توپوں کے گولوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک کے معروف انگریزی اخبار کے مطابق اس ماہ کے وسط میں چکوال کے ایک خاندان کا نوجوان کشمیر کے جہاد میں شہید ہوگیا تھا۔
بھارت کی جانب سے دو طرفہ مذاکرات ختم کرنے کے بہت سے نقصانات ہوئے تھے، موجودہ حکومت بھارت سے تجارت کا حجم بڑھانے کی پالیسی کی امین ہے، بھارت کی موجودہ حکومت جو وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر کی نمایندگی کرتی ہے، تجارت کے ذریعے رشتے مستحکم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان کی حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے اصولی طور پر تیار ہے۔
وزیراعظم نواز شریف بھارت کو خصوصی درجہ دینے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ یہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے بھارت سے بجلی برآمد کرنے کی بھی خواہاں ہے۔ نواز شریف نے اپنے بھارت کے دورے کے دوران بڑے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتیں کی تھیں، ان ملاقاتوں کا مقصد مشترکہ منصوبے شروع کرنا تھا۔ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی اور پھر پاکستانی ٹیم بھارت جائے گی، کرکٹ میچ دیکھنے دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کریں گے، اس طرح تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل مستحکم ہوگا۔
مگر جب بھارتی حکومت دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کا عمل معطل کردے گی اور مزید سخت اقدامات کرے گی تو کشیدگی کی صورتحال تجارت پالیسی تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو پس پشت ڈال دے گی۔ بھارت کا یہ موقف ہے کہ کسی اور طاقت کو پاکستان اور بھارت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ امریکی حکومت کے دبائو پر دوبارہ مذاکرات کا عمل شروع ہوگا تو معاملات کی نوعیت پر فرق پڑجائے گا، اس لیے بھارتی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کی، بھارتی حکومت نے 25 اگست کو ہونے والے دو طرفہ مذاکرات ملتوی کردیے۔ بھارت میں عبدالباسط پر غداری کا مقدمہ بھی قائم کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب کے موقعے پر میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں جن اصولی فیصلوں پر اتفاق رائے ہوا تھا، ان پر عملدرآمد کا معاملہ التوا میں چلا گیا۔ امریکا نے دوطرفہ مذاکرات کے التوا پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ بھارت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔
بھارت نے پہلے کبھی ان ملاقاتوں پر اعتراض نہیں کیا تھا، ان میں سے کئی رہنمائوں کو پاکستان کے دورے کے ویزے مل چکے ہیں۔ کشمیری سابق گوریلا رہنما پاکستان میں اپنے دورے کے دوران جلسوں سے بھی خطاب کرچکے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے سوشل فورم میں یاسین ملک کی تقریر کی یادیں اب بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ یاسین ملک پاکستان کے اپنے دورے میں ایک نوجوان خاتون کے اسیر ہوئے اور یہ خاتون شادی کے بعد سری نگر منتقل ہوگئیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے سابقہ دورے میں اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پر حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملاقات نہیں کی تھی، ان کے خلاف آج کل غیر رسمی طور پر گردش کی جانے والی چارج شیٹ میں یہ الزام بھی سرفہرست ہے۔ بھارتی حکومت کے فیصلے کے بارے میں مختلف قسم کی توجیہات بیان کی جارہی ہیں۔ نئی دہلی میں مقیم سینئر صحافی جاوید نقوی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی کا فیصلہ بھارتی جنتا پارٹی کے اندرونی تضادات کا نتیجہ ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے بعض افسروں نے غیر رسمی ملاقاتوں میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت اس طرح کی ملاقاتوں پر احتجاج کرچکی تھی۔
اگر ہائی کمشنر کی ایسی سرگرمیاں جاری رہیں تو مزید سخت سفارتی اقدامات خارج از امکان نہیں ہیں۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنتا پارٹی نے اپنے منشور میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت دلانے والی شق 370 کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم گزشتہ دنوں جب پہلی دفعہ بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے دورے پر سری نگر گئے تو انھوں نے ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اپنی تقریروں میں ذکر نہیں کیا تھا مگر سری نگر میں انھیں حریت کانفرنس کی اپیل پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مودی حکومت نے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔
وادی کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر گزشتہ سال کے اوائل سے کشیدگی کی صورتحال اور کنٹرول لائن پر خلاف ورزی کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں۔ گزشتہ سال ان جھڑپوں میں دونوں ممالک کے متعدد فوجی جاں بحق ہوئے تھے۔ ایک بھارتی فوجی کی گردن کاٹنے کی خبر نے کشیدگی کی شدت بڑھادی تھی، فائرنگ کی وارداتوں میں بہت سے سویلین بھی جاں بحق ہوئے تھے۔ گزشتہ ایک ماہ میں کئی افراد اسی طرح کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے، فائرنگ کا یہ سلسلہ سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری سے سیاچن تک چلا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کے مقابلے میں حکومت پاکستان کا رویہ خاصا نرم ہے جب کہ سیالکوٹ کے علاقے میں بھارتی فوجی کی ایک کشتی الٹنے کی بنا پر ایک بھارتی فوجی پناہ کے لیے پاکستانی علاقے میں آگیا تھا تو اس کے ساتھ مہمان نوازی کا سلوک کیا گیا اور پھر یہ فوجی واہگہ کے راستے بھارت چلا گیا تھا۔ اس کشیدہ صورتحال کا بعض غیر جانبدار مبصرین پس منظر یوں بیان کرتے ہیں کہ بعض جہادی عناصر نے کنٹرول لائن پر اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں، وادی نیلم کے مکینوں نے اس طرح کی سرگرمیوں کے خلاف گزشتہ سال ہڑتال کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جہادی عناصر کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں تو پھر بھارتی فوج اندھا دھند شیلنگ کرتی ہے، بعض اوقات بھارتی توپوں کا استعمال تباہی مچاتا ہے، وادی نیلم کے بے گناہ افراد ان توپوں کے گولوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ملک کے معروف انگریزی اخبار کے مطابق اس ماہ کے وسط میں چکوال کے ایک خاندان کا نوجوان کشمیر کے جہاد میں شہید ہوگیا تھا۔
بھارت کی جانب سے دو طرفہ مذاکرات ختم کرنے کے بہت سے نقصانات ہوئے تھے، موجودہ حکومت بھارت سے تجارت کا حجم بڑھانے کی پالیسی کی امین ہے، بھارت کی موجودہ حکومت جو وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر کی نمایندگی کرتی ہے، تجارت کے ذریعے رشتے مستحکم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان کی حکومت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کے لیے اصولی طور پر تیار ہے۔
وزیراعظم نواز شریف بھارت کو خصوصی درجہ دینے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ یہ حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے بھارت سے بجلی برآمد کرنے کی بھی خواہاں ہے۔ نواز شریف نے اپنے بھارت کے دورے کے دوران بڑے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتیں کی تھیں، ان ملاقاتوں کا مقصد مشترکہ منصوبے شروع کرنا تھا۔ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی اور پھر پاکستانی ٹیم بھارت جائے گی، کرکٹ میچ دیکھنے دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کریں گے، اس طرح تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل مستحکم ہوگا۔
مگر جب بھارتی حکومت دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کا عمل معطل کردے گی اور مزید سخت اقدامات کرے گی تو کشیدگی کی صورتحال تجارت پالیسی تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو پس پشت ڈال دے گی۔ بھارت کا یہ موقف ہے کہ کسی اور طاقت کو پاکستان اور بھارت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے مگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ امریکی حکومت کے دبائو پر دوبارہ مذاکرات کا عمل شروع ہوگا تو معاملات کی نوعیت پر فرق پڑجائے گا، اس لیے بھارتی حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔