آگے سٹرک بند ہے
تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طورپر ایک جیسے ہیں، ضروریات ایک جیسی ہیں ہمت اور بہادری اور قربانی کے جذبے ایک جیسے ہیں
اگر سڑک کی تعمیر ہو رہی ہو تو سڑک کے درمیان میں ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے جس پر لکھا ہوا ہوتا ہے ''سڑک بند ہے'' مگر اس کا مطلب کبھی یہ نہیں ہوتا کہ سرے سے راستہ بند ہو گیا ہے اور اب آنے جانے والے حضرات اپنی گاڑی روک کر کھڑے ہو جائیں۔
اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ''یہ سامنے کی سڑک بند ہے'' چنانچہ جب گاڑیاں وہاں پہنچ کر بورڈ کو دیکھتی ہیں تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکتیں وہ دائیں بائیں گھو م کر اپنا راستہ نکال لیتی ہیں اور آگے جا کر دوبار ہ وہی سڑک پکڑ لیتی ہیں اور اگر کسی وجہ سے دائیں بائیں راستہ نہ ہو تب بھی گاڑیوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا و ہ اطراف کی سٹرکوں سے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں اور پھر کچھ دور آگے جا کر دوبارہ انھیں اصل سٹرک مل جاتی ہے اور اس پر وہ اپنا سفر جاری رکھتیں ہیں اور وہ منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔
اس طرح کچھ منٹوں کی تاخیر تو ضرور ہو سکتی ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کا سفر رک جائے یا وہ منزل پر پہنچنے میں ناکام رہیں۔ یہ ہی صورت زندگی کے سفر کی بھی ہے زندگی کی جدو جہد میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محسو س کرتا ہے کہ اس کا راستہ بند ہے مگر اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے کا راستہ بند ہے نہ کہ ہر طرف کا۔ جب بھی ایک راستہ بند ہو تو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوئے ہوں گے عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے سامنے ''سڑک بند ہے'' کا بورڈ دیکھ کر رک نہ جائے بلکہ دوسرے راستے تلاش کر کے اپنا سفر جاری رکھے۔ ہر بند سڑک کے پاس لازمی ایک کھلی سڑک بھی موجود ہوتی ہے۔
دنیا کے تمام خو شحال، ترقی یافتہ اور مستحکم ممالک جو آج ہم کو نظر آتے ہیں ہمیشہ سے ایسے نہ تھے بلکہ ہم سے بھی زیادہ بدترین حالات کا شکار تھے ان کے سامنے بھی ''سٹرک بند ہے'' کا بورڈ لگا ہوا تھا لیکن انھوں نے ہماری طرح بورڈ کے سامنے ہاتھ پہ ہاتھ دھر ے بیٹھنا منظور نہیں کیا بلکہ انھوں نے جدوجہد کر کے ہمت اور قربانیاں دے کر محنت کر کے دوسرا رستہ تلاش کیا اور اپنا سفر جاری رکھا اور وہ ترقی، خو شحالی، استحکام کی منزل پہ پہنچ ہی گئے۔
ہم سب ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور یہ عمل ساری عمر اسی طرح سے جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ ہم سب آغاز میں ایک کورا کاغذ ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ وقت اس پر تحریر لکھنا شروع کر دیتا ہے کہیں یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے کہیں سست کہیں مدھم اور کہیں ساری عمر کا غذ کورا ہی رہتا ہے۔ سقراط نے سولن سے سیکھا افلاطون نے سقراط سے ارسطو نے افلاطون سے اور زرتشت، فیثا غورث، لاوزے، گو تم بدھ، کنفیو شس، ہیرا کلیتس، ژینو، ڈیماکر یٹس، تھراسی ماکس، ایپی قورس، ابن رشد، فرانسس بیکن، ہنری برگساں، سارتر سمیت سب نے کسی نہ کسی سے سیکھا اور پھر سب کو سیکھایا۔
ایک مشہور کہاوت کے مطابق ''جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہو جاتا ہے تو استاد بھی فورا آن موجود ہوتا ہے۔'' ان سب حضرات نے دنیا کو تبدیل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا یاد رہے انھیں سزائیں بھی دی گئیں زہر کے پیالے بھی پینا پڑے آگ میں زندہ جلا دیے گئے لیکن ان سب اذیتوں، تکلیفوں کے باوجود وہ اپنا کام کرتے رہے۔
پومپی آئی کے سپاہی کا واقعہ کس نے نہ سنا ہو گا آج سے دو ہزار سال پہلے کوہ وسویس کی آتش فشانی سے پو مپی آئی ( اٹلی) کا سارا شہر راکھ کے نیچے دفن ہو گیا تھا پچھلی صدی میں جو کھدائیاں ہوئی ہیں ان سے اس دور کی تہذیب اور معاشرت کا حال معلوم ہوتا ہے اب یہ شہر اپنی عمارتیں، سڑکوں اور باشندوں سمیت منظر عام پرآ گیا ہے۔
راکھ کے اس ہولناک طوفان سے اہل شہر پر جو خوف طاری ہوا ہو گا اس کا نقش اب بھی ان کے چہروں پر باقی ہے۔ مگر مو ت کے اس طوفان میں ایک سپاہی نے ادائے فرض کا جو مظاہر ہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ اس سپاہی نے مو ت کے ہنگامے کے باوجود پہرے پر سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقرر کیا گیا تھا وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھگ کے دھوئیں میں گھٹ کر مر گیا اور راکھ میں دفن ہو گیا اس بہادر سپاہی کا خود، نیزہ اور زرہ بکتر نیپلز کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہیں۔
تمام انسانوں کے احساسات بنیادی طور پر ایک جیسے ہیں، ضروریات ایک جیسی ہیں ہمت اور بہادری اور قربانی کے جذبے ایک جیسے ہیں بس فرق اتنا سا ہے کوئی تاریخ بنتے ہیں اور کوئی تاریخ بناتے ہیں اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ کو بنانا ہے۔ یاد رہے سوچ جب عمل سے دور ہو جائے تو یہ بیماری بن جاتی ہے جب انسان زندگی کے تمام اصولوں کو چھوڑ کر صرف اپنے پیٹ کے لیے زندہ رہنا شروع کر دے تو پھر وہاں انسانیت، مذہب، تہذیب و تمدن، ہمت و جرأت کا خود بخود قتل ہو جاتا ہے۔
اب ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں ایک تو یہ ہم کہیں بھاگ جائیں اپنے سب پیاروں کو چھوڑ کر اپنے بھائیوں اپنے پڑوسیوں کو چھوڑ کر اپنے آبائو اجداد اپنے بزرگوں کی قبروں کو چھوڑ کر اپنی مٹی کو چھوڑ کر یا پھر اپنے اور اپنے پیاروں اور آنے والوں کے لیے اس استحصالی، لوٹ مار، کر پٹ نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ لٹیروں، قاتلوں، غاصبوں، ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اپنی برباد زندگی کو اپنے ہاتھوں تبدیل کریں۔
یاد رکھو تمہاری زندگیاں تبدیل کرنے کوئی نہیں آئے گا یہ ہمت اور جرأت تمہیں خود کر نا پڑے گی ورنہ تمہیں بھی بھوک، افلاس، بیماریوں فاقوں کے ہاتھوں مر نے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے، تمہارے ہم وطنوں، تمہارے دوستوں، تمہارے پڑوسیوں کی روحیں جو سب معصوم اور بے گنا ہ تھے جو غربت، بھوک، افلاس کے ہاتھوں مارے گئے جھنجھوڑ رہی ہیں کہ خدارا ہم میں شامل نہ ہو جانا یہ زندگی خدا نے تمہیں جینے کے لیے دی ہے۔ خودکشی کے لیے نہیں ۔ لہذا اپنی خو شحالی، اپنا اختیار اپنا حق آگے بڑھ کر غاصبوں سے چھین لو۔ بربادی، ذلت، بے اختیار ی تمہارا مقدر نہیں بلکہ مقدر بنا دیا گیا ہے اٹھو آگے بڑھو خدا تمہار ا حامی و ناصر ہو گا اور آخری فتح تمہیں ہی نصیب ہو گی۔