جمہوریت کا متبادل کچھ نہیں
پاکستان میں جمہوری طریقے سے حکومت منتخب کرنے کا حق طویل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیا گیا ۔۔۔
آج کل حکومت وقت سمیت تمام سیاسی پارٹیوں میڈیا بلکہ پوری قوم کی توجہ ملک کو درپیش اہم مسائل مشکلات دہشت گردی، ضرب عضب ایک ملین سے زیادہ آئی ڈی پیز کے مسائل لوڈ شیڈنگ اور اقتصادی مسائل کی بجائے، عمران خان اور طاہر القادری کے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے اسلام آباد میں کانسٹیٹیوشن ایونیو پر دیے گئے دھرنوں پر لگی ہوئی ہے۔ جو 10 روز سے مسلسل جاری ہیں اس سے قبل یعنی 10 اگست کو پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے لاہور میں یوم شہدا منایا گیا ہے۔
ان ایونٹس کی وجہ سے سیاست دان و تجزیہ نگار موجودہ جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کے خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ جمہوری نظام میں اپنے مطالبات کے حق میں پر امن احتجاج، ریلیاں اور جلسے جلوس کرنا کوئی تشویش ناک بات نہیں ہوتی بلکہ یہ جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ مگر اگست کے مہینے میں رونما ہونے والے ان دو واقعات کے تناظر میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی باتیں اور غیر آئینی اقدامات کے خدشات کا اظہار جس شد و مد سے کیا جا رہا ہے وہ تشویش ناک بات ہے جمہوری نظام کو لپیٹنے کے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے 67 برسوں میں سے تقریباً نصف سے کچھ زیادہ حصہ براہ راست غیر جمہوری قوتوں کے تسلط میں رہا ہے اور ملک میں جان بوجھ کر پیدا کی گئی موجودہ صورتحال بھی غیر جمہوری قوتوں کو تقویت دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
موجودہ جمہوری نظام کی کمزوریاں بھی ڈکٹیٹرشب کی ہی دین ہیں جن پر مسلسل سیاسی عمل اور جمہوری نظام کے ذریعے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قابو پانے کی امید ہے عمران خان کے آزادی مارچ کے سلسلے میں جمہوریت ڈی ریل ہونے کے خدشے اور طاہر القادری کی جانب سے اگست کے اختتام تک موجودہ حکومت کے خاتمے کے دعوے یقینا عوام کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یقیناً اس سوچ کی مذمت کی جانی چاہیے اور کسی بھی ماروائے آئین اقدام کی سخت مخالفت کی جانی چاہیے اور ملک کی سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی، صحافتی اور مزدور تنظیموں کو سخت مزاحمت بھی کرنا چاہیے۔
پاکستان میں جمہوری طریقے سے حکومت منتخب کرنے کا حق طویل جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیا گیا ہے اور اس کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے، ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت ہم ٹرانزیکشن پیریڈ میں ہیں جمہوری نظام میں بے تحاشہ کمزوریاں اور خامیاں موجود ہیں، مزدوروں اور کسانوں کی براہ راست نمایندگی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سے بہتر کوئی نظام بھی میسر نہیں ہے۔ عام انتخابات کے بعد اکثر سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کی عام شکایات رہتی ہیں جس کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
ہم الیکشن کے ذریعے پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں اس پورے نظام میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے تا کہ نتائج پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے اور معاشرے کے تمام طبقات اور کمیونٹیز بالخصوص مزدوروں کسانوں اور درمیانے طبقے اور پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی پارلیمنٹ میں موثر نمایندگی ہو پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور پارلیمنٹ کو اپنی ساخت میں فیڈرل ہونا ضروری ہے جس کا مطلب ہے کہ تمام فیڈرل یونٹس کی اس میں موثر نمایندگی بھی ہو اور ان کی نمایندگی میں توازن بھی ہو۔
یہ تمام کام ایجیٹیشن کے ذریعے ممکن نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کے اندر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہی ہونے ہیں اس نظام کو غیر متنازعہ اور بہتر بنانے کے لیے آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق عمل کر کے (الیکٹرول ریفارم) انتخابی اصلاحات کے ذریعے انتخابات سے متعلق تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں قائم کردہ الیکٹرول ریفارم کمیٹی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
اس کمیٹی کے دائرہ عمل کو مزید بڑھانا چاہیے اس کمیٹی کو ایسے اقدامات پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں دھاندلی نہ ہو سکے اور ملک ایک جمہوری سمیت میں چلتا رہے۔ اس پارلیمانی کمیٹی کو پسے ہوئے طبقات اور مزدوروں کی نمایندگی کو موجودہ نیپالی پارلیمنٹ کی طرز پر ملک کے ہر طبقے کو نمایندگی دینے کے لیے بھی قانون سازی کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں سینئر تجزیہ کار پارلیمنٹرین شامل ہیں جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں بہتر اصلاحات نافذ کر سکیں گے۔
طاقت کے ذریعے حکومت/ ریاست پر قبضہ کی کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی گروہ فوجی و غیر فوجی اداروں کی کسی بھی کوشش کو ملک کے غریب و محنت کش عوام کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے حالیہ دنوں میں کچھ سیاسی مذہبی جماعتوں کی طرف سے میڈیا میں دھونس دھمکی کی جو زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ عوام الناس اور خاص طور پر ان جماعتوں کے کارکنوں کو اس بات پر اکسا رہی ہے کہ وہ ریاستی نظام کے خلاف بغاوت کریں تشدد پر اکسانا کسی بھی طور پر جمہوری رویہ نہیں ہے۔
جو لوگ تشدد پر اکساتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں ان کے کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ ان کے اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے، ایسے لوگوں کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے، عمران خان اور طاہر القادری نے حالیہ دنوں میں دھرنے کے دوران جو زبان استعمال کی ہے اس کا سختی سے نہ صرف نوٹس لیا جانا چاہیے بلکہ ایکشن بھی لیا جانا چاہیے، اس کے علاوہ مذہب یا مذہبی سمبل کو کسی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔
حکومت کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ ایسے معاملات جن پر عوام اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ان معاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر جمہوری انداز سے ملک کے عوام کے مفاد میں فیصلے کیے جائیں، عمران خان کا 14 اگست سے جاری آزادی مارچ، دھرنا کی کال ابہام پر مبنی ہے اس کے مقاصد غیر واضع اور ناقابل عمل ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو جاگیرداروں، طاقتور مراعات یافتہ طبقوں اور نوکر شاہی سے پاک کیا جانا چاہیے، یہ ہی حقیقی آزادی ہوگی بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی لیڈر شپ میں بڑے جاگیر دار اور نام نہاد پیر بھی شامل ہیں اور یہ لوگ غریب عوام کے معاشی سماجی اور روحانی استحصال میں ملوث ہیں۔
اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زرعی اصلاحات سے متعلق ایک پٹیشن زیر سماعت ہے جس میں پاکستان تحریک انٖ صاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین زمینداروں اور جاگیرداروں کی نمایندگی کرتے ہوئے ان کی جانب سے زرعی اصلاحات کے خلاف پٹیشنر بنے ہوئے ہیں لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی موجودگی میں کسی طرح آزادی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ملک کے محنت کش عوام کو امید ہے کہ جیسے جیسے موجودہ جمہوری نظام چلتا رہے گا اس میں مزید بہتری پیدا ہوتی رہے گی لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کو کسی بھی صورت ڈی ریل نہ ہونے دیا جائے اس سلسلہ میں سیاسی قیادت کو زیادہ ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔