100 سال پرانا سچ

روجر سے اس مہم کے دوران پوچھا گیا کہ جناب یہ بتائیں کہ آپ الیکشن جیتنے کے بعد کسانوں کے لیے کیا کریں گے ۔۔۔


انیس منصوری August 26, 2014
[email protected]

اگر کسی عقل مند، کو، کوئی بات 100 سال بعد بھی سمجھ نہیں آتی تو آپ اور میں کون ہوتے ہیں جو بھینس کے آگے بین بجا بجا کر تھک جائیں اور بھینس کی کم عقلی پر بین کرتے رہیں۔ کوئی 100 سال پہلے ہی امریکا میں یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ''میرا تعلق کسی بھی منظم جماعت سے نہیں ہے لیکن میں ایک جمہوری آدمی ہوں۔'' اچھا ہوا اس جملے اور سوچ کے خالق ولیم روجر نے کسی بھینس کے آگے اپنا سر نہیں پھوڑا تھا لیکن ہمارا معاملہ ہی کچھ الٹا ہے۔

پتہ نہیں ہم کس کے آگے اپنا سر پھوڑ رہے ہیں کہ جمہوریت ہی میں سب کی بقا ہے۔ سب ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر بھینس کے کان میں گھُس کر شور مچا رہے ہیں لیکن یہ بھینس ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ بس ہم سب کے سامنے ڈگڈگی بج رہی ہے اور لگتا ہے ہم سب ناچ رہے ہیں۔

روجر کے جملوں کے سحر میں امریکا تو آ گیا لیکن ہمارے ٹوئٹر بھائی اب تک لگتا ہے بھینس کو نچانے کے خواب میں کھوئے ہوئے ہیں۔ روجر جہاں ایک بہترین اداکار تھا وہی سیاست پر گہری نگاہ رکھتا تھا۔ یعنی آسان لفظوں میں وہ سیاسی اداکار تھا۔ ہمیں تو اب سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ کیا اس مرکب لفظ کو اور بڑھایا جا سکتا ہے جیسے سیاسی میوزیکل اداکار، جیسے سیاسی مذاکرات اداکار، جیسے سیاسی بیوروکریٹ اداکار جیسے سیاسی کنٹینر اداکار، جیسے سیاسی کانفرنس اداکار۔ آپ بھی گھریلو ٹوٹکوں سے بھرپور الفاظ بنا سکتے ہیں جیسے سیاسی بہو اداکارہ، جیسے سیاسی ساس اداکارہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر بات روجر پر ہی آ کر رک گئی ہے۔

جہاں اُس کا جمہوری جملہ مشہور تھا وہی اُس کی ایک اور بات بھی دل کو لگ گئی تھی۔ روجر اپنے اداکاری، سیاسی صورتحال پر تبصروں کی وجہ سے مشہور تھا۔ اُس نے ایک بار کہا تھا کہ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ میں حکومت پر نگاہ رکھتا ہوں اور حقیقت بتا دیتا ہوں۔ اب اگر دنیا اسے مذاق سمجھتی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ اسی طرح آج کل تفریح پہنچانے والے شادی کروا رہے ہو ں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ لیکن میں اسے تفریح نہیں سمجھتا اور نہ ہی مذاق سمجھتا ہوں۔ بس انھوں نے بھی روجر پر نگاہ رکھی ہوئی ہے لیکن چشمہ کسی اور کا لگا یا ہوا ہے۔

روجر کی قسمت کا ستارہ گردش میں زیادہ ہی رہتا تھا۔ جناب جیب میں پیسے لے کر نکلتے تھے بڑے بڑے خواب آنکھوں میں سجے ہوتے تھے لیکن جہاں گئے وہاں سے خالی ہاتھ ہی لوٹے۔ اور پھر ایک دن نیویارک میں تماشہ کر رہے تھے۔ لوگوں کو تماشہ اچھا لگنے لگا اور پھر اُس وقت کے مشہور اخبار نے اُس کی اسٹوری بھی چھاپ دی۔

بس ایک بڑا تماشہ کرانے والے کی نگاہ میں روجر آ گیا۔ اور کہا گیا کہ جناب آپ تماشہ خوب لگاتے ہیں کیا آپ ہمیں 2 ہفتے کے لیے ٹھیکے پر مل سکتے ہیں راجر نے کہا کہ جناب تماشہ کے لیے اگر میرا گھوڑا اور اُس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں آیا تو یہ لوگ دھرنا دے دیں گے اس لیے آپ ان کا خرچہ بھی اٹھائیں۔ نیویارک کے بڑے تھیٹر کا مینجر مان گیا اور 2 ہفتے تک کامیاب نمائش ہوئی۔ اب روجر کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ کہ اتنا اونچا جانے کے بعد وہ نیچے کیسے آ سکتا تھا۔

اب وہ ہر دوسرے ہفتے کے ختم ہونے پر دعا مانگتا کہ بس کسی طرح میرا کنٹریکٹ دو ہفتے کے لیے بڑھ جائے۔ اُس زمانے میں ہر گھر میں ٹی وی اور پھر موبائل میں ٹوئٹر نہیں تھے اس لیے وہ 48 گھنٹے یا دو دن دینے کی بجائے دو ہفتے مانگتا تھا۔ کیونکہ بہر حال اُس زمانے میں دو ہفتے کے 140 ڈالر اُسے ملتے تھے۔ اب تماشہ لگنے کے کم از کم 14 کروڑ تو ہوتے ہونگے۔

روجر جس طرح ہر دوسرے ہفتے اپنے مالک کے سامنے بیچا جاتا تھا۔ اور اس بات کا انتظار کر رہا ہوتا تھا کہ اُس بڑے تھیڑ کا مینجر اُس سے کہے کہ آپ کا شو بہت پسند آیا ہے آپ دو ہفتے کے لیے اور جاری رکھیے۔ اس طرح شو جاری رکھنے کے لیے ہر دو ہفتے بعد روجر ایک نیا کرتب پیش کرتا۔ لیکن گھوڑا اور اُس کا cow boy اسٹائل مشہور ہوتا گیا۔ میں نے گھوڑا کہا ہے کنٹینر نہیں اس لیے میں پیشگی معافی مانگ لیتا ہوں۔ کوئی اسے یو ٹرن نہ سمجھے۔

ظاہر ہے جب شہرت ملتی ہے تو طاقت کی لالچ بھی بڑھ ہی جاتی ہے۔ اس لیے روجر کے ذہن میں کہیں یہ آیا کہ وہ بھی خبروں کی دنیا سے وابستہ ہو جائے۔ مزہ مزہ کی خبریں آ رہی تھیں اور ہماری طرح شاید اُس وقت امریکا میں بھی سیاست عروج پر تھی۔ اس لیے جناب روجر صاحب نے ایک نا ئٹ کلب میں ورائٹی شو شروع کیا۔ ناچ گانا اور اُس کے ساتھ ساتھ مزہ دار سیاسی جملے۔ تفریح کی تفریح اور خبر کی خبر۔ روجر cow boy کے لباس میں آتا۔ اُس کی انٹری شاندار ہوتی۔ اور وہ اکیلا لوگوں میں اپنا جادو دکھانا شروع کرتا۔

وہ روز کی خبروں کا مذاق بناتا۔ لوگ قہقہہ لگا لگا کر تھک جاتے۔ اور پھر دوسرے دن ناچ گانے کے ساتھ روجر کے تڑکے سننے آ جاتے۔ اُس کی کمائی کی کمائی، شہرت ہی شہرت اور واہ واہ۔ روجر ہر روز کی خبروں پر مزاحیہ تبصرہ کرنے سے پہلے چند جملے ضرور دہراتا۔ وہ کہتا ''اچھا آپ کو معلوم ہے میں آپ سے کیا بات کرونگا...'' تفریح کے لیے آیا ہوا مجمع اُس کی اس بات پر ہنسنے لگتا اور روجر کے لیے آوازیں یا نعرے لگانا شروع کر دیتا۔

اُس کے بعد وہ کہتا کہ میرے پاس کوئی ایسی بات نہیں ہے جو آ پ کو ہنسا سکوں۔ میرے پاس وہ ہی چیزیں ہیں جو میں نے اخبار میں پڑھی ہیں۔ اور پھر وہ خبروں کو اپنے لفظوں اور اداکاری سے اس طرح پیش کرتا کہ لوگ ہنس ہنس کر اپنے پیٹ میں درد محسوس کر لیتے۔ اور روجر خوش ہوتا کہ چلو آج کا دن تو نکلا اور میں نے لوگوں کو اتنی تفریح فراہم کر دی ہے کہ میری کل کی دکان بھی چلنے کے امکان ہے۔

کہتے ہیں کہ روجر پہلا مزاحیہ اداکار تھا کہ جس نے عوامی سطح پر خبروں کے حوالے سے شہرت پائی۔ امریکا میں جہاں ناچ گانا ہوتا، دھوم دھڑکہ ہوتا وہاں خبروں میں تڑکے کے لیے روجر بھی ضرور ہوتا۔

روجر کا کہنا تھا کہ تمام انتخابی مہم دھوکہ ہوتی ہے۔ اُس نے یہ ثابت کرنے کے لیے 1928کے امریکی صدارتی انتخاب کا مذاق اڑانے کے لیے اپنی خود ساختہ صدارتی مہم چلائی۔ اُس نے اپنے اخبار کا سہارا لیا اور اُس میں روز اپنا منشور اور حکمت عملی دیتا۔ اُس نے کہا کہ اگر وہ جیتا تو پہلا کام یہ کرے گا کہ وہ صدارت سے مستعفی ہو جائے گا۔ اُس نے خود کو سنجیدہ امیدوار کہہ کر پارٹی کا نام غیر مضحکہ خیز پارٹی رکھا۔ فرضی صدارتی مہم چلائی اور پھر ہوا کیا جس دن پورا امریکا ووٹ ڈال رہا تھا اُس دن روجر نے اخبار میں لکھا کہ وہ کامیاب ہو گیا اس لیے وہ اپوزیشن کے مطالبے سے پہلے ہی استعفی دے رہا ہے۔

روجر سے اس مہم کے دوران پوچھا گیا کہ جناب یہ بتائیں کہ آپ الیکشن جیتنے کے بعد کسانوں کے لیے کیا کریں گے۔ روجر نے اپنا مکُا ہوا میں لہرایا اور کہا کہ اُن کسانوں کے منہ پر مُکا مارنا چاہیے جو الیکشن کے بعد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اُن کا خیال رکھیں گی۔ یار یہ روجر نے امریکیوں کے لیے کہا تھا یا ہم پاکستانیوں کے لیے...؟ اور میں نے بہت سوچا کہ اس جملہ میں صرف الیکشن کے بعد کا ہی تھا یا پھر انقلاب اور دھرنے کے بعد کا بھی تھا؟ لیکن دل کو تسلی ہوئی کہ اچھا ہوا اُس وقت میں روجر کے سامنے انقلاب یا دھرنا نہیں تھا ورنہ روجر کا تو ٹوئیٹر بلاک ہو جاتا...پیارے پیارے ناموں کی گالیوں سے...

روجر کے کئی جملے بہت مشہور ہوئے جیسے اُس نے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے کہا تھا کہ ہماری خارجہ پالیسی کھُلی کتاب ہے۔ لیکن یہ معمولی نہیں بلکہ check book ہے۔ روجر کے سامنے 100 سال پہلے امریکا تھا یا پھر 100 سال بعد کا پاکستان جو اُسنے کہا تھا کہ تبدیلی آ گئی ہے ہر چیز بدل گئی ہے کہ لوگ اب کامیڈین کو سنجیدہ لیتے ہیں اور سیاست دانوں کو کامیڈین۔ آپ ہی بتا دیں روجر نے کس کو کہا تھا۔؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں