نہیں چاہتے کہ دھرنے والے کامیابی اور فتح کے بغیر واپس لوٹ جائیں سراج الحق

سیاسی بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے سے نکالا جائے چاہے اس کے لئے 100 دن ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے، امیر جماعت اسلامی

اگر تحقیقات میں دھاندلی ثابت ہوجاتی ہےتو پھرحکومت کےپاس اسمبلیوں میں رہنےکا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا، سراج الحق۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری موجود سیاسی بحران کا حل مذاکرات کے ذریعے سے نکالا جائے چاہے اس کے لئے 100 دن ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔


لاہور میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکاء اور حکومت نے مسلسل صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے جس پر ہم دونوں فریقین کے شکرگزار ہیں، جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی جماعتوں بلکہ بچے بچے کی خواہش ہے کہ اس بحران کا حل مذاکرات سے نکالا جائے، مذاکرات سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے چاہے اس کے لئے ہمیں 100 دن بھی بیٹھنا پڑے تو ہمیں بیٹھنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت پاکستان تحریک انصاف کے سوائے ایک مطالبے کے تمام مطالبات تسلیم کر چکی ہے بس ان مطالبات پر عمل درآمد کے لئے طریقہ کار طے کرنا باقی ہے۔ ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں مستقبل میں موجودہ حکومت کی حیثیت کے بارے میں بھی یکسوئی پائی جاتی ہے، اگر سپریم کورٹ کی تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پردھاندلی کی گئی تو پھر اس کے بعد موجودہ حکومت کے بعد اسمبلیوں میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔

سراج الحق نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی کے تحریک انصاف کے مطالبے پر سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر ہے کہ اس مطالبے کو آئین اور قانون کی روشنی میں حل کیا جائے، یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے خود کو اس معاملے میں نیوٹرل رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے، اچھی بات ہے کہ تحریک انصاف نے اس مسئلے کو اٹھا کر پوری قوم کی نمائندگی کی۔ دونوں فریقین کے پاس وقت بہت کم ہے، جتنا جلد ممکن ہو سکے اس معاملے کو مل کر حل کر لیا جائے اسی میں ہماری بہتری ہے، پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے، ہمارے دوست ممالک چین، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر بحران طویل ہو گیا تو پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ دونوں فریقین سے درخواست ہے کہ کوئی تیسرا راستہ اختیار کرنے کے بجائے یا پھر کسی تیسری قوت کی جانب دیکھنے کے بجائے معاملے کو آپس میں ہی حل کر لیں، ساری قوم کسی بہتر حل کی منتظر ہے۔
Load Next Story