پاکستان ایک نظر میں ادھورے انسان اور نیا پاکستان
ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ ہم یا تو بھکاری ہیں یا پھر اندر آتے ہی رقص شروع کرد ینگے اور آپ کی جیبوں سے پیسے نکال لیں گے۔
آپ بھی گھوم گئے ناں؟
کہ یہ کاغذ بھی ہمارے وجود سے انکاری ہے
سپریم کورٹ کے ہی ایک کاغذ نے ہمارے وجود کو تو مان لیا
شناخت بھی دے دی
مگر معاشرہ انکاری ہے
گرم دوپہر تھی جب میری نظروں نے مین دروازے پر گارڈ کو دو انسانوں سے الجھتے دیکھا،میں نے باہر جا کر دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے ؟تو ان میں سے ایک نے کمزور سی آواز میں کہا کہ دیکھیں سر جی یہ ہمیں اندر نہیں آنے دے رہا ہے کہتا ہے کہ یہ بنک ہے اور اس میں ہم نہیں جا سکتے۔ہم نے اکاؤنٹ کھلوانا ہے مگر یہ کہتا ہے بھاگ جاؤ۔
خیر میں بھی تفریح کے طور پر انہیں مینیجر کے کمرے میں لے گیا۔ہم شیشے کے آفس میں آکر بیٹھ گئے ۔مجھے اس شیشے میں سے اپنے ساتھیوں اور روز مرہ کے کلائینٹس کی نظروں میں تفریحی طنزیہ سوالات کی تپش محسوس ہو رہی تھی۔خیر ان میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز شستہ اردو سے کیااور ساتھ ہی بیس ہزار روپے میز پر رکھتے ہوے کہا کہ وہ اکاؤنٹ کھلوانا چاہتے ہیں۔میں نے فارم نکالا اسے بھرنا شروع کیا ۔اب ایک کالم میں مجھے ان کی جنس لکھنا تھی، میں نے مس پر ٹک کیا ۔مگر پھر اس نے کہا کہ میں نے غلط کالم پر ٹک کیا ہے، مگرمیں نے کہا کہ نہیں یہی ٹھیک ہے، اس پر اس نے کہا کہ وہ خواجہ سراء ہیں، میں نے کہا کہ ہاں دکھائی دے رہا ہے مگر کسی بھی فارم میں ایسا کوئی کالم نہیں ہوتا ہے،انہیں اب "مسٹر"، " مسز" یا " مس" میں سے ایک انتخاب کرنا ہوگا۔ اب اس کا نام بھی کنول ہے تو ظاہر ہے کہ وہ لڑکی ہے۔میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اس کے بعد اس نے اس مہذب معاشرے کی وہ کھڑکیاں ایک ایک کر کے کھولنا شروع کر دی جو ہمیں اچھی تو لگتی ہیں مگر ان پر گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے۔ایک اور ہماری منافقت۔
سر جی آپ بھی گھوم گئے ہیں کہ اپنے فارم میں کہاں فٹ کریں، ہم تو اس معاشرے میں ہی ان فٹ ہیں، بے شک سپریم کورٹ نے ہمارے شناختی کارڈ بنوا دیئے ہیں، ہمیں پاکستان کی آبادی میں تو شمار کیا جانے لگا ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ہماری پاکستان میں تعداد کتنی ہے،ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے،ہم کس حال میں اور کن آبادیوں میں رہتے ہیں، بس ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے لوگوں کو تفریح دینا۔
میری عمر تیس برس ہے،میں پیدائشی ایسی ہوں، میری ماں مجھے ا سکول لے کر گئی مگر کچھ ہی دنوں کے بعد گاؤں کے ماسٹر نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانی بنایا کیونکہ میں خوبصورت تو تھا ہی تب اس نے اگلے ہی دن میری ماں کو بلا کر بہت بے عزتی کی کہ کبھی کھسرے بھی پڑھتے ہیں،لے جاؤ اسے کسی دوسرے اسکول میں۔ یہاں کا ماحول یہ خراب کرے گا۔میری ماں مجھے لڑکیوں کے اسکول لے گئی وہاں میں کچھ سال پڑھی مگر پھر نکال دی گئی۔
مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا میں نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا،میری سند پر میرا نام اور ہے، یہ کنول میرا فلمی نام ہے، میں نے ایک دم سے پوچھا، کیا تم نے فلموں میں بھی کام کیا ہے؟ تو اس نے کہا، سر جی ہم فلمیں ہی تو ہیں،ان کی طرح ہی ہماری زندگی چلتی ہے۔ خیر میں نے فنکشنز کرکے یہ پیسے اکٹھے کئے ہیں، ہم جس طرح کے ماحول یا گھروں میں رہتے ہیں وہاں بہت آنا جانا لگا رہتا ہے۔میں اس بنک سے پہلے دوسرے بنکوں میں بھی گئی مگر گارڈز نے اندر ہی نہیں گھسنے دیا، ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ ہم یا تو بھکاری ہیں یا پھر اندر آتے ہی رقص شروع کرد ینگے اور آپ کی جیبوں سے پیسے نکال لیں گے۔
کیا آپ نے سنا ہے کسی خواجہ سرا کی موت اسپتال میں ہوئی ہو؟اسکے علاج معالجے کے لیے کوئی الگ سے ڈسپنسری ہو؟ کوئی اسکول ہو؟ اور تو اور ہم پر دینی تعلیم کے دروازے بھی بند ہیں،ہمارا تو مذہب بھی پتہ نہیں کون سا ہے، اگر ہم میں سے کوئی چھوٹا موٹا جرم کر لے تو پولیس لے جاتی ہے، وہاں بھی ایک آدھ رقص کروا کر ہماری جان کبھی کبھار بچ بھی جاتی ہے۔ مولوی ہو یا تھانیدارمعاشرے کے ٹھیکیداروں کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارے کپڑے اتروا کرسب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم کس قدر ادھورے ہیں،وہ بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہیں بیچارے کیا کریں۔
میں انہیں یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ صبر کریں اس پرانے پاکستان میں تو مشکل ہے مگر کچھ روز میں نیا پاکستان بننے والا ہے شاید اس میں انہیں بنیادی حقوق کیساتھ شناخت بھی مل جائے۔
(نوٹ: یہ ایک حقیقی کہانی ہے جو کہ رحیم یار خان کے ایک نجی بینک میں پیش آئی تھی)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کہ یہ کاغذ بھی ہمارے وجود سے انکاری ہے
سپریم کورٹ کے ہی ایک کاغذ نے ہمارے وجود کو تو مان لیا
شناخت بھی دے دی
مگر معاشرہ انکاری ہے
گرم دوپہر تھی جب میری نظروں نے مین دروازے پر گارڈ کو دو انسانوں سے الجھتے دیکھا،میں نے باہر جا کر دریافت کیا کہ کیا مسئلہ ہے ؟تو ان میں سے ایک نے کمزور سی آواز میں کہا کہ دیکھیں سر جی یہ ہمیں اندر نہیں آنے دے رہا ہے کہتا ہے کہ یہ بنک ہے اور اس میں ہم نہیں جا سکتے۔ہم نے اکاؤنٹ کھلوانا ہے مگر یہ کہتا ہے بھاگ جاؤ۔
خیر میں بھی تفریح کے طور پر انہیں مینیجر کے کمرے میں لے گیا۔ہم شیشے کے آفس میں آکر بیٹھ گئے ۔مجھے اس شیشے میں سے اپنے ساتھیوں اور روز مرہ کے کلائینٹس کی نظروں میں تفریحی طنزیہ سوالات کی تپش محسوس ہو رہی تھی۔خیر ان میں سے ایک نے گفتگو کا آغاز شستہ اردو سے کیااور ساتھ ہی بیس ہزار روپے میز پر رکھتے ہوے کہا کہ وہ اکاؤنٹ کھلوانا چاہتے ہیں۔میں نے فارم نکالا اسے بھرنا شروع کیا ۔اب ایک کالم میں مجھے ان کی جنس لکھنا تھی، میں نے مس پر ٹک کیا ۔مگر پھر اس نے کہا کہ میں نے غلط کالم پر ٹک کیا ہے، مگرمیں نے کہا کہ نہیں یہی ٹھیک ہے، اس پر اس نے کہا کہ وہ خواجہ سراء ہیں، میں نے کہا کہ ہاں دکھائی دے رہا ہے مگر کسی بھی فارم میں ایسا کوئی کالم نہیں ہوتا ہے،انہیں اب "مسٹر"، " مسز" یا " مس" میں سے ایک انتخاب کرنا ہوگا۔ اب اس کا نام بھی کنول ہے تو ظاہر ہے کہ وہ لڑکی ہے۔میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ اس کے بعد اس نے اس مہذب معاشرے کی وہ کھڑکیاں ایک ایک کر کے کھولنا شروع کر دی جو ہمیں اچھی تو لگتی ہیں مگر ان پر گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے۔ایک اور ہماری منافقت۔
سر جی آپ بھی گھوم گئے ہیں کہ اپنے فارم میں کہاں فٹ کریں، ہم تو اس معاشرے میں ہی ان فٹ ہیں، بے شک سپریم کورٹ نے ہمارے شناختی کارڈ بنوا دیئے ہیں، ہمیں پاکستان کی آبادی میں تو شمار کیا جانے لگا ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیں ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ہماری پاکستان میں تعداد کتنی ہے،ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے،ہم کس حال میں اور کن آبادیوں میں رہتے ہیں، بس ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے لوگوں کو تفریح دینا۔
میری عمر تیس برس ہے،میں پیدائشی ایسی ہوں، میری ماں مجھے ا سکول لے کر گئی مگر کچھ ہی دنوں کے بعد گاؤں کے ماسٹر نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانی بنایا کیونکہ میں خوبصورت تو تھا ہی تب اس نے اگلے ہی دن میری ماں کو بلا کر بہت بے عزتی کی کہ کبھی کھسرے بھی پڑھتے ہیں،لے جاؤ اسے کسی دوسرے اسکول میں۔ یہاں کا ماحول یہ خراب کرے گا۔میری ماں مجھے لڑکیوں کے اسکول لے گئی وہاں میں کچھ سال پڑھی مگر پھر نکال دی گئی۔
مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا میں نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا،میری سند پر میرا نام اور ہے، یہ کنول میرا فلمی نام ہے، میں نے ایک دم سے پوچھا، کیا تم نے فلموں میں بھی کام کیا ہے؟ تو اس نے کہا، سر جی ہم فلمیں ہی تو ہیں،ان کی طرح ہی ہماری زندگی چلتی ہے۔ خیر میں نے فنکشنز کرکے یہ پیسے اکٹھے کئے ہیں، ہم جس طرح کے ماحول یا گھروں میں رہتے ہیں وہاں بہت آنا جانا لگا رہتا ہے۔میں اس بنک سے پہلے دوسرے بنکوں میں بھی گئی مگر گارڈز نے اندر ہی نہیں گھسنے دیا، ہر بندہ یہی سمجھتا ہے کہ ہم یا تو بھکاری ہیں یا پھر اندر آتے ہی رقص شروع کرد ینگے اور آپ کی جیبوں سے پیسے نکال لیں گے۔
کیا آپ نے سنا ہے کسی خواجہ سرا کی موت اسپتال میں ہوئی ہو؟اسکے علاج معالجے کے لیے کوئی الگ سے ڈسپنسری ہو؟ کوئی اسکول ہو؟ اور تو اور ہم پر دینی تعلیم کے دروازے بھی بند ہیں،ہمارا تو مذہب بھی پتہ نہیں کون سا ہے، اگر ہم میں سے کوئی چھوٹا موٹا جرم کر لے تو پولیس لے جاتی ہے، وہاں بھی ایک آدھ رقص کروا کر ہماری جان کبھی کبھار بچ بھی جاتی ہے۔ مولوی ہو یا تھانیدارمعاشرے کے ٹھیکیداروں کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارے کپڑے اتروا کرسب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم کس قدر ادھورے ہیں،وہ بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہیں بیچارے کیا کریں۔
میں انہیں یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ صبر کریں اس پرانے پاکستان میں تو مشکل ہے مگر کچھ روز میں نیا پاکستان بننے والا ہے شاید اس میں انہیں بنیادی حقوق کیساتھ شناخت بھی مل جائے۔
(نوٹ: یہ ایک حقیقی کہانی ہے جو کہ رحیم یار خان کے ایک نجی بینک میں پیش آئی تھی)
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔