سستی بجلی اور ڈیموں کی تعمیر
ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ، اس مشکل گھڑی میں اگر وہ ہمارا ساتھ دے رہا ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے ...
وطن عزیز میں اس وقت توانائی کا شدید بحران سابقہ حکومتوں کی جانب سے اس اہم مسئلے پر پہلوتہی کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ من حیث القوم ہم سب کو بھگتنا پڑا اور نہ صرف عام صارفین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہے، بلکہ صنعتی اور معاشی ترقی کا عمل بھی سست ہوچکا تھا ۔حکومت پوری تندہی اورلگن سے بحران پر قابوکے لیے کاوشیں کر رہی ہے،اسی تناظر میں چند خوش کن خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی موجودگی میں پاکستان اور عالمی بینک نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں ۔عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 58کروڑ 84 لاکھ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرے گا ۔ دنیا میں سستی ترین بجلی ڈیم بنا کر حاصل کی جاتی ہے ، اس کی ایک روشن مثال دوست ہمسایہ ملک چین کی ہے جہاں پر کثیر ڈیمز کے ذریعے بجلی کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک اور عوام کی بدقسمتی ہے کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کے سبب ہمیں آج شدید ترین توانائی بحران کا سامنا ہے اور انتہائی مہنگی ترین بجلی استعمال کرنے کے باعث عام صارفین کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں،ہم تو انتہائی مہنگے ترین ذریعہ یعنی فرنس آئل سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ بہرحال متعدد چھوٹے ڈیمز کی تعمیر سے اس مسئلے پر قابو پانے کی سعی کی جا رہی ہے اسی حوالے سے خبر آئی ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پہلے یونٹ سے آیندہ سال دسمبر سے پیداوار شروع ہوجائے گی۔
منصوبے کی تکمیل سے مجموعی طور پر 979 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی جسے ٹرانسمیشن لائنوں کے ذریعے بجلی کی قومی گرڈ میں شامل کیا جائے گا ۔ ان کی تنصیب کے کام کو مکمل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کیا جا رہا ہے ، مین سسٹم میں جتنی زیادہ بجلی شامل ہوگی اتنا ہی بجلی کا شارٹ فال کم ہو سکے گا اور عوام کو بتدریج ریلیف ملے گا ۔ دوسری جانب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایران سے بجلی کی درآمد کرنے کی بھی منظوری دیدی ہے ، ایران سے بارٹرسسٹم کے تحت 74 میگا واٹ بجلی کی درآمد اور اس کی ترسیل کے لیے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کی سمری کی منظوری سے اس جانب مزید پیش رفت ہوگی۔
ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ، اس مشکل گھڑی میں اگر وہ ہمارا ساتھ دے رہا ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے ، وزارت پانی و بجلی کے مطابق آیندہ برسوں میں ایران سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی درآمدکی جائے گی۔کمیٹی نے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے منصوبوں میں نجی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے پالیسی کی بھی اصولی منظوری دے دی ۔ بلاشبہ حکومت کی کاوشیں لائق تحسین ہیں جو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے کر رہی ہے۔
پہلے مرحلے میں حکومت نے بجلی کی نجی تقسیم کارکمپنیوں کو ادائیگی کر کے لوڈشیڈنگ کے دورانئے کو کسی حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ دوسرے مرحلے میں مختلف پیداواری یونٹ کو فعال کرنے اور نئے ذرایع تلاش کرنے سے بھی بحران کے حل کی جانب مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
اگر سسٹم کا شارٹ فال دور ہوجاتا ہے تو عوام کی روزمرہ زندگی معمول پر آجائے گی، بجلی کی پیداوار بڑھنے سے ہماری صنعتوں کا پہیہ پھر سے رواں ہوجاتا ہے تو اس سے بڑی خوش خبری کوئی اور ہو نہیں سکتی، قوم کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں گی، بیرونی سرمایہ کار یہاں صنعتیں لگانے میں بھرپور دلچسپی لیں گے تو اس طرح شروع کیے جانے والے پیداواری منصوبے قومی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کریں گے ۔
وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی موجودگی میں پاکستان اور عالمی بینک نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں ۔عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے 58کروڑ 84 لاکھ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کرے گا ۔ دنیا میں سستی ترین بجلی ڈیم بنا کر حاصل کی جاتی ہے ، اس کی ایک روشن مثال دوست ہمسایہ ملک چین کی ہے جہاں پر کثیر ڈیمز کے ذریعے بجلی کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک اور عوام کی بدقسمتی ہے کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کے سبب ہمیں آج شدید ترین توانائی بحران کا سامنا ہے اور انتہائی مہنگی ترین بجلی استعمال کرنے کے باعث عام صارفین کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں،ہم تو انتہائی مہنگے ترین ذریعہ یعنی فرنس آئل سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ بہرحال متعدد چھوٹے ڈیمز کی تعمیر سے اس مسئلے پر قابو پانے کی سعی کی جا رہی ہے اسی حوالے سے خبر آئی ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے پہلے یونٹ سے آیندہ سال دسمبر سے پیداوار شروع ہوجائے گی۔
منصوبے کی تکمیل سے مجموعی طور پر 979 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی جسے ٹرانسمیشن لائنوں کے ذریعے بجلی کی قومی گرڈ میں شامل کیا جائے گا ۔ ان کی تنصیب کے کام کو مکمل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کیا جا رہا ہے ، مین سسٹم میں جتنی زیادہ بجلی شامل ہوگی اتنا ہی بجلی کا شارٹ فال کم ہو سکے گا اور عوام کو بتدریج ریلیف ملے گا ۔ دوسری جانب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایران سے بجلی کی درآمد کرنے کی بھی منظوری دیدی ہے ، ایران سے بارٹرسسٹم کے تحت 74 میگا واٹ بجلی کی درآمد اور اس کی ترسیل کے لیے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کی سمری کی منظوری سے اس جانب مزید پیش رفت ہوگی۔
ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے ، اس مشکل گھڑی میں اگر وہ ہمارا ساتھ دے رہا ہے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے ، وزارت پانی و بجلی کے مطابق آیندہ برسوں میں ایران سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی درآمدکی جائے گی۔کمیٹی نے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے منصوبوں میں نجی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے پالیسی کی بھی اصولی منظوری دے دی ۔ بلاشبہ حکومت کی کاوشیں لائق تحسین ہیں جو توانائی بحران کے خاتمے کے لیے کر رہی ہے۔
پہلے مرحلے میں حکومت نے بجلی کی نجی تقسیم کارکمپنیوں کو ادائیگی کر کے لوڈشیڈنگ کے دورانئے کو کسی حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ دوسرے مرحلے میں مختلف پیداواری یونٹ کو فعال کرنے اور نئے ذرایع تلاش کرنے سے بھی بحران کے حل کی جانب مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
اگر سسٹم کا شارٹ فال دور ہوجاتا ہے تو عوام کی روزمرہ زندگی معمول پر آجائے گی، بجلی کی پیداوار بڑھنے سے ہماری صنعتوں کا پہیہ پھر سے رواں ہوجاتا ہے تو اس سے بڑی خوش خبری کوئی اور ہو نہیں سکتی، قوم کی معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں بھی پروان چڑھیں گی، بیرونی سرمایہ کار یہاں صنعتیں لگانے میں بھرپور دلچسپی لیں گے تو اس طرح شروع کیے جانے والے پیداواری منصوبے قومی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کریں گے ۔