یہ کہاں کی امن دوستی ہے

پاک بھارت تعلقات کی ریل کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کی کوششوں کا اہم حصہ کشمیرپردو ٹوک مگر سنجیدہ اور پائیدارگفتگو ناگزیرہے


Editorial August 28, 2014
پاک بھارت تعلقات کی ریل کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کی کوششوں کا اہم حصہ کشمیرپردو ٹوک مگر سنجیدہ اور پائیدارگفتگو ناگزیرہے. فوٹو: فائل

چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے ۔ امریکا پاکستانی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہو ئے ڈرون حملوں سے گریز کرے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ چین، پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے لیکن اس سلسلے میں یکطرفہ طور پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

چین کا ثالثی کے لیے بیان مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کی جانب ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے، چینی استدلال قابل غور ہے کہ برصغیر میں اگر امن کے بارے میں سوچنا ہے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم کشمیر مسئلہ پر توجہ دیں اور اس کے لیے دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کو آپس میں بات کرنی ہوگی۔

پاک بھارت تعلقات کی ریل کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کی کوششوں کا ایک اہم حصہ کشمیر پر دو ٹوک مگر سنجیدہ اور پائیدار گفتگو ناگزیر ہے، چینی ترجمان نے کہا کہ حالات کو ڈگر پر رکھنے کے لیے دونوں ممالک کو فوری طور پر مسئلہ کشمیر پر بڑی پیشرفت کرنا ہوگی ، چین کا کشمیر پر مؤقف اٹل ہے، اس میں کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی۔

چینی حکومت کی طرف سے آنے والا یہ پیغام خطے کی کشیدگی دور کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے مگر اس وقت جب بھارتی حکام پاکستان اور چین کی نیت پر شبہ کرنے کے بجائے زمینی حقائق اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کا ادراک کریں اور ہمسائیگی کی بنیادی سمت کے از سر نو مثبت تعین کے لیے بھارت کو خصوصی طور پر اپنے منجمد موقف پر نظر ثانی کرنا پڑیگی ۔ چنانچہ اس تناظر میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے اس انداز نظر پر بھی سوچ کا نیا زاویہ سامنے آتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کر کے بھارت سے مذاکرات نہیں کر سکتے۔

بلاشبہ اصل ایشو سے دامن کش ہونے کے بھارتی طرز عمل کے خلاف یہ منطقی طرز فکر ہے کیونکہ جس کشمیر کا تصفیہ ہونا عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازع کے متعلقہ فریقوں کے مابین بات چیت سے ہونا باقی ہے اسے مودی سرکار بھارتی آئین میں ترمیم کرکے صوبہ کا درجہ دینے کی کوشش میں مصروف ہے ۔اس منفی سوچ و طریقہ واردات سے مسئلہ کشمیر پر منصفانہ گفتگو کیسے ممکن ہوسکے گی۔

میڈیا کے ساتھ گفتگو میں سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے مخلصانہ کوشش کی لیکن افسوس ہے کہ اس نے مثبت جواب نہیں دیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سرتاج عزیز نے بنیادی نکتہ اٹھایا ہے۔ چونکہ دوطرفہ بات چیت کا باہمی خیر سگالی ماحول پیدا ہونے کے برعکس بھارتی میڈیا اور حکمراں جارحانہ بیانات اور پہلے سے مختلف امور پر جاری بات چیت میں بھی رخنہ سازی کی نئی منطق پر عمل پیرا ہیں۔

مثال کے طور پر ایک طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لیے لاہور میں جاری پاک بھارت انڈس واٹر کمشنر مذاکرات بھارتی مذاکرات کاروں کے رویے کے باعث بے نتیجہ ختم ہوگئے جس کے رد عمل میں پاکستانی انڈس کمشنر نے کہا کہ باہمی مذاکرات میں تنازعہ حل نہ ہوا تو عالمی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ۔ مذاکرات میں5 بھارتی آبی ذخائر پر بات ہوئی جن میں رتلے، لوئرکلئی، پکادل اور کشن گنگا ڈیم شامل ہیں۔

پاکستانی انڈس واٹرکمشنر آصف بیگ مرزا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا سندھ طاس کمیشن بھارت میں دریائے چناب اور جہلم کا دورہ کرے گا اور تنازعات پرحتمی مذاکرات رواں سال اکتوبر میں ہوں گے۔ رتلے اور کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائنوں پر شدید تحفظات ہیں ۔ حکومت پاکستان آبی تنازعات کا جلد ازجلد حل چاہتی ہے ۔ سندھ طاس معاہدے میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہ تو آبی تنازع ہے، مگر دوسری جانب شکر ہے پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر گزشتہ کئی ہفتوں سے پائی جانیوالی کشیدگی کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنز نے منگل کو ہاٹ لائن پر رابطہ کیا ۔ دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر پائی جانیوالی کشیدگی کم کی جائے ۔ ذرایع کے مطابق اس چیز کو واضح کیا گیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی نہیں چاہتا جسکا ثبوت اس کی جانب سے دونوں ڈی جی ایم اوزکے درمیان ممکنہ ملاقات کی تجویز دینا ہے۔ پاکستان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی میں کبھی پہل نہیں ہوئی اور پاکستانی فورسز نے ہمیشہ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کا جواب دیا ہے۔

پاکستان نے شیلنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے بھارت سے بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کے مبصرین نے سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری سے ملحقہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی گولہ باری سے متاثرہ پاکستانی سرحدی دیہات چارواہ ، جوئیاں، بینی ، کھدرال ، ہرپال، باجڑہ گڑھی اور معراج کے کا تفصیلی دورہ کرکے بھارتی گولہ باری سے تباہ ہونے والے مقامی لوگوں کے گھروں کا تفصیلی جائزہ لیا اور بھارتی گولہ باری سے متاثرہ لوگوں سے معلومات حاصل کیں۔

امن مشن مبصرین نے بھارتی گولہ باری سے تباہ ہونے والے مقامی لوگوں سے معلومات حاصل کیں ۔ مقامی لوگوں نے یو این او مبصرین کو بتایا کہ تقریباً گزشتہ ایک ماہ سے سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری کے بجوات، چارواہ، عمرانوالی، باجڑہ گڑھی سیکٹروں میں واقع سیالکوٹ کے سرحدی دیہات پر بھارتی فورسز کی طرف سے بلااشتعال گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جس سے اب تک متعدد افراد شہید ، متعدد شدید زخمی ، درجنوں مویشی ہلاک اور سیکڑوں مکان تباہ ہو چکے ہیں جب کہ بھارتی فوج کے جنگی جنون میں کمی نہیں آئی ۔ بھارتی فورسز انٹرنیشنل قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے سیالکوٹ کے سرحدی دیہات میں مقیم لوگوں اور سویلین آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں ۔ یہ اقوام متحدہ کے وفد کو ملنے والے چشم کشا حقائق ہیں ۔

پاک بھارت ایشوز کی تاریخ گزشتہ عشروں میں سوال جواب اور بلیم گیم سے ہی عبارت ہے۔ اگلے روز بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارت سرحد پر فائر بندی کی خلاف ورزی پر پاکستان کو مناسب جواب دے گا، ادھر بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ نے بڑھک مارتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان سرحد پر فائر بندی کی خلاف ورزی پر پاکستان کو مناسب جواب دے گا۔

بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا کے سربراہ اودے بال ٹھاکرے نے پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان پر حملہ کرکے اسے سبق سکھانے کا مشورہ دیا ہے، جب کہ انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر پربھو چاولہ نے اپنے ادارتی تجزیہ میں وزیراعظم مودی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مرکز میں بدلی ضرور ہے مگر اس کے ادارے پاکستانی سفارت کاروں کے مزاحمانہ بیانات کا منہ توڑ جواب دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا پورا تجزیہ ہرزہ سرائی ، الزام تراشی اور بھارتی حکام کو پاکستانی سفارتی مشن کے خلاف زبانی تشدد پر ابھارنے کی افسوس ناک کوشش ہے ۔ یہ کہاں کی امن دوستی ہے، کیا اس طرح خطے میں امن کا قیام ممکن ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں