اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موج مستی

صرف 67 برس پہلے کی بات ہے کسی مسلم لیگی نے خواب و خیال میں بھی اپنے پاکستان کے بارے میں یہ سوچا ہو گا ۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

موج میلہ ہلہ گلہ دھما چوکڑی سب جائز، دھوم مچاتے عوام کے ساتھ ان کے لیڈروں کی اونچے ائر کنڈیشنڈ اور گولی سے محفوظ پناہ گاہ کی چھت پر جھومنا اور اس عوامی مستی میں عوام کا کھل کر ساتھ دینا یہ سب بھی بلاشبہ عوامی اور جمہوری مگر دکھ اس بات کا ہے کہ یہ سب کھیل تماشا اور ناچ گانا لاہوری لیڈروں نے جمع کیا مگر اسے لے گئے دور اسلام آباد میں۔ یہ لاہوریوں کی حق تلفی ہے اور میلوں ٹھیلوں پر جو حق لاہوریوں کا ہے وہ اسلام آبادیوں کا کہاں۔

اسلام آبادیوں کی حالت کے بارے میں تو اس شہر کے ناک نقشے کے بانیوں میں سے ایک خوش ذوق نے کہہ دیا تھا کہ آپ نے اس نئے شہر کے نقشے میں سب کچھ رکھ دیا مگر نہ تو کپاس کے دھنئے کے لیے جگہ رکھی نہ طوائف کا کوئی کوٹھا پھر بھی آپ اسے مشرقی دنیا کا ایک شہر کہنے پر مصر ہیں تو کیا عرض کریں۔

تعجب ہے کہ اسلام آباد کا نقشہ بنانے والی اس کمیٹی کا سربراہ بریگیڈئیر یحییٰ خان تھا جو بعد میں اس شہر کا ہی نہیں پورے ملک کا سربراہ اور نہ جانے کیا کیا بن گیا مگر اس شہر کو ایک بے رونق اور بے کیف شہر بنا گیا جب کہ اس کے محل میں گھنگھروں کی گونج اور کسی گانے والی کی پرکیف لے رات بھر گونجتی تھی۔ ایک بات عرض کر دوں کہ اس زمانے میں رات کے وقت جو معززین اپنی بیگمات کے ساتھ جناب صدر سے ملنے جاتے تھے اور رات گئے لوٹتے تھے ان سب کے نام ملاقاتیوں کے رجسٹر میں درج کیے جاتے تھے اور آنے اور لوٹنے کا وقت بھی۔ یہ دستور تھا کسی کی بے آبروئی مقصود نہ تھی۔

یہ ریکارڈ آج بھی محفوظ ہو گا۔ کیا کوئی اسے افشاء کر سکتا ہے اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جس شہر میں رات بھر ملک بھر سے خوشنما چہرے رقص کرتے ہیں اس شہر کے ماضی کے بعض راز بھی سامنے آ جائیں جب کہ آج کوئی راز' راز رہا ہی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں اس کے سب حسین چہرے لڈیاں ڈال رہے ہیں اس حال میں کہ اونچے کنٹینر کی چھت سے ہمارے لیڈر یہ سب دیکھ دیکھ کر جواں ہو رہے ہیں۔


ہمارے یہ ڈھلتی عمر والے لیڈر جن کا سردار خود 62 برس کا ہے رقص و سرور کی ان دور دور تک پھیلی ہوئی منڈلیوں اور ٹولیوں کو رات بھر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ان محفلوں کے حقدار لاہور والے صرف ٹی وی کی اسکرین تک محدود ہیں۔نہ جانے ہمارے لاہوری لیڈروں کو کیا سوجھی کہ ان کا اصل نشانہ لاہور میں ہے وہ خود بھی لاہور کے ہیں مگر محفلیں کہیں دور جا کر جمائی ہیں اور لاہوریوں کو محروم رکھ کر خود مسرور ہو رہے ہیں۔

صرف 67 برس پہلے کی بات ہے کسی مسلم لیگی نے خواب و خیال میں بھی اپنے پاکستان کے بارے میں یہ سوچا ہو گا کہ وہ کیا نقشہ بنا رہے ہیں اور کل اس میں کون کیا رنگ بھر رہا ہے۔ خواتین و حضرات یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کا وعدہ کیا جا رہا ہے اور یہ شاید پہلا سیاسی وعدہ ہے جو ساتھ ساتھ پورا بھی ہو رہا ہے۔ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ سیاستدان صرف جھوٹے وعدے کرتے ہیں وہ سچے وعدے بھی کرتے ہیں بس ذرا موقع مل جائے۔ پھر ذرا دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

اس بے مثال اور حیران کن جاری و ساری میلے کا پروگرام 13 اگست کو طے ہوا اور 14 اگست کو لاہور سے یہ جلوس برآمد ہوئے یہ قیام پاکستان کا دن تھا۔ پاکستانیوں کے یہ جلوس خراماں خراماں بلکہ افتاں و خیزاں ڈیڑھ دن میں اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچے۔ منزل مقصود اسلام آباد تھی حکومت نے اس شہر کے راستے بند کرنے کی بہت کوشش کی لیکن لوگوں نے یہ رکاوٹیں دور کر دیں اور میلہ سج گیا۔ اب یہاں دو میلے ہیں ایک میلہ اسلامی دوسرا بھی اسلامی مگر ماڈرن اسلامی جینز والا لیکن دونوں کا نشانہ ایک ہی ہے اور وہ نواز شریف سے اقتدار چھین لینا چاہتے ہیں۔

پوری قوم حیراں و پریشان ہے کہ اگست کی تیرہ تاریخ سے شروع ہونے والا یہ مطالبہ کیا رنگ لائے گا اور کب تک ان کے صبر کو آزمائے گا۔ اب عوام اور پاکستان دونوں کا صبر تمام ہونے کو ہے۔ ملک کی بری حالت ہے بس چل رہا ہے مگر کیسے یہ کسی کو معلوم نہیں۔

محکمہ خزانہ والے جھوٹ بولتے ہیں۔ آج کے دور میں جو ملک اتنے دنوں سے بند ہو اور اس سے پہلے بھی نو دنوں تک چھٹی کر چکا ہو اس کا کیا حال ہو گا لیکن ہمارے حکمران بہت زیادہ دولت مند ہیں، ضرورت اور ہمارے آپ کے تصور سے زیادہ۔ اب وہ ان میلوں ٹھیلوں میں اپنی دولت کی فراوانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ہم اپنی موجودہ اور آنے والی مزید غربت سے لطف اندوز ہوں گے۔ سیلاب آگیا تو گاؤں والوں نے گھر خالی کر دیے۔ چوہدری صاحب نے دیکھا کہ ایک صاحب درخت پر چڑھے گنگنا رہے ہیں۔ چوہدری نے اسے ڈانٹا کہ سارا گائوں مصیبت میں ہے اور تو یہ کیا کر رہا ہے۔ اس نے جواب دیا چوہدری غربت کا مزا تو آج ہی آیا ہے اسے خراب نہ کرو۔
Load Next Story