خدارا نصیحت پکڑیے …
کبھی سختی ۔۔۔کبھی نرمی۔۔۔ کبھی غم۔ ۔۔کبھی خوشی ۔۔۔کبھی فتح ۔۔۔ کبھی ہار۔ ان کیفیتوں کے ہر رنگ میں انسان کے لیے ایک ۔۔
راولپنڈی:
آج غالباً آزادی و انقلاب کے خوش نما عنوانوں سے مربوط و استوار دھرنوں کے شرکاء کا صبر و ضبط گیارہ روز سے تجاوز کر چکا ہے ان دھرنوں کے لیڈران اپنے اپنے کنٹینرز میں بیٹھے نت نئے بیانات اور جو شیلی تقاریر کے ذریعے مہمان شرکاء کو گر ما رہے ہیں تا کہ ان کی ہمتیں بندھی رہیں اور حوصلے تر وتازہ اور جوان رہیں۔ لیکن دونوں لیڈران اپنے اپنے موقف سے ہٹنے کو بالکل بھی تیار نظر نہیں آتے ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں حضرات خود اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں حضرات گرامی کو نصیحت کے غرض سے ایک نصیحت آموز واقعہ ان کی نظر کر رہے ہیں شاید ہماری بات ان کے دل میں اُتر سکے ۔
''ایک د ن ایک معروف کمپنی کے ملازمین اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نظر دروازے پر لگے ایک نوٹس پر پڑی اس پر لکھا تھا '' کل رات وہ شخص جو کمپنی کی اور آپ کی بہتری اور ترقی میں رکاوٹ تھا انتقال کر گیا ہے آپ سب سے درخواست ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس روم میں تشریف لے چلیں، جہاں اس کا جسد خاکی رکھا ہوا ہے'' یہ پڑھتے ہی پہلے تو سب اداس ہو گئے کہ ان کا ایک ساتھی ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہو گیا ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد انھیں اس تجسس نے گھیر لیا کہ وہ کون شخص تھا جو ان کی اور کمپنی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا؟
اس شخص کو دیکھنے کے لیے سب تیزی سے کانفرنس روم کی جانب ہو لیے، ہر شخص یہ سوچ رہا تھا کہ سامنے پڑی چادر کے نیچے وہ کون شخص ہے جو میری کارکردگی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا؟ تجسس تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ بالاخر کمپنی کے مالک نے ملازمین سے کہا کہ وہ ایک ایک کر کے آگے جا سکتے ہیں اور کفن پوش کا دیدار کر سکتے ہیں۔
ایک ایک متجسس ملازمین کفن کے قریب آ گئے، کفن کی بالائی چادر اٹھاتے اور جونہی وہ اس میں جھانکتے گنگ ہو کر رہ جاتے، ان کی زبانیں گویا تالو سے چپک کر رہ جاتی ہیں، ایک ایک کر کے وہ سب کفن کے گرد جمع ہو گئے اور سب کے سب گویا سکتے میں تھے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسا کسی نے ان کے دل پر گہری ضرب لگائی ہو۔ دراصل کفن میں ایک آئینہ رکھا ہوا تھا جو کفن کے اندر جھانکتا وہ اپنے آپ کو دیکھتا آئینہ کے ایک کونے پر تحریر تھا''دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں کو محدود کر سکتا ہے یا آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ شخص آپ خود ہیں۔''
مضمون کی عبارت ایک عمدہ نصیحت کے طور پر ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں حضرت انسان اپنے ویژن کا غلط استعمال کر کے گویا خود ہی کو غلط راستے پر ڈالے ہوئے ہے ہمیں اس مضمون کے توسط سے ان دونوں حضرات گرامی کو یہی سمجھانا ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ عقل کا درست استعمال کریں اور عقل تقاضہ کر رہی ہے کہ آپ کھلی آنکھوں سے حقیقت کا مشاہدہ کریں۔ عقل المتاس کر رہی ہے کہ آپ اور آپ کے دیگر احباب گرامی کی زندگیوں میں وزیر اعظم پاکستان کے تبدیل ہونے، ان کے منظر کے غائب ہونے اور ان کو استعفیٰ دے دینے سے تبدیلی ہرگز ہرگز رہنما نہیں ہوگی۔
البتہ آپ اپنی ھٹ دھر می اور انا پرستی کے پندار سے باہر آنے کے لیے تیار ہو گئے تو ممکن ہے کہ تبدیلی کے آثار نمایاں ہوں۔ ہمیں اس امر پر حیرت اور سخت تعجب ہے کہ یہ دونوں حضرات میں لچک نام کی کوئی کیفیت، کوئی احساس تک نہیں، اگرچہ حکومت اپنے طور پر لچک کا مظاہرہ کرتی چلی آئی ہے۔ اگر کل کلاں کو ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آ گئی تو یہ ملک کے رموز کیسے چلائیں گے۔ کیونکہ اونچ نیچ کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی زندگی کا حسن ہے۔
کبھی سختی ۔۔۔کبھی نرمی۔۔۔ کبھی غم۔ ۔۔کبھی خوشی ۔۔۔کبھی فتح ۔۔۔ کبھی ہار۔ ان کیفیتوں کے ہر رنگ میں انسان کے لیے ایک درس ہے، ایک اصلاحی پہلوہے۔ کبھی وہ جیت کر اور کبھی ہار کر کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرتا ہے ۔۔۔وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ لچک، افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے معاملات کا حل نکالا جائے اگر ھٹ دھرمی اور انا پرستی کا یہی عالم رہا تو ایسا نہ ہو کہ ان دونوں کا یہ عمل پوری قوم کو بند گلی میں لے جا کر کھڑا کر دے۔ اگر ایسا خدانخواستہ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟
لاہور اور اسلام آباد کے قرب وجوار میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہلکے ہلکے ۔۔۔چپکے چپکے ۔۔۔فوجی بوٹوں کی دھمک کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔۔۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک کسی نئے مارشل لاء کا متحمل نظر نہیں آتا۔ اگر چہ پاک فوج کی بھی یہی خواہش ہے کہ سیاسی بحران کا حل گفت و شنیدسے نکالا جائے۔ ایک طرف جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان ننگی جارحیت کا بار بار ارتکاب کر رہا ہے جب کہ دوسری جانب پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے میدان عمل میں موجود ہے اور قربانیاں دے رہی ہے۔
ایسے نازک موقع پر تو اپنے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر سب کو مل کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے تا کہ دشمن قوتوں کو منہ تو ڑ جواب دیا جا سکے۔ پہلے ترجیح میں ملکی سالیمت ہونی چاہیے تبدیلیاں تو ہمارا داخلی معاملہ ہے وہ پھر کبھی بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس موقع پر سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ چونکہ پاک فوج داخلی رسہ کشی پر نظر رکھنے کے بجائے ملک کے خارجی محاذوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
ملک میں کھیلے جانے والے سیاسی تماشے کو اہمیت دینے کے بجائے پاک فوج ملک کی سالمیت کو ہرگز داؤپر نہیں لگنے دے گی اور اس ضمن میں وہ اپنا کردار ادا کرے گی۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو ممکن ہے کہ فوج مداخلت کر کے مملکت کے تمام معاملات اور امور اپنے ہاتھو ں میں لے لے پھر کہاں کی آزادی؟ اور کہا ں کا انقلاب؟ زیر نظر مضمون ایک نصیحت کے طور پر ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی۔ امن اور سکون اور اس کی سالمیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کوئی اور نہیں بلکہ بذات خود ہم پاکستانی ہیں۔
وہ زمانے بیت گئے جب امن کے قیام کے لیے جنگوں کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔ اور بندوق کے مقابلے کے لیے بندوق اٹھائی جاتی تھی۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ان انسانوں کا یہ وطیرہ کسی طور بھی درست نہیں رہا۔ آخر میں پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کا حل بھی افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے نکالا گیا اور ہمیشہ بے سروپا کاوشوں کے نتیجے میں بلآخر اسی عمل کو فوقیت حاصل رہی ۔''پچھتاوے سے قبل پچھتاوے کے مضمرات پر غور و فکر کرنے والوں کی راہ میں کبھی رکاوٹیں پیش نہیں آیا کرتیں ۔