سندھ میں بلدیاتی نظام پر اختلافات شدت اختیار کر رہے ہیں

آج جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں وہ اعتراض کے بجائے اس میں قابل اعتراض نکات کی نشاندہی کریں۔

آج جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں وہ اعتراض کے بجائے اس میں قابل اعتراض نکات کی نشاندہی کریں۔ فوٹو: فائل

پتہ نہیں سندھ میں نئے بلدیاتی نظام پر سیاسی جماعتوں میں جاری رسہ کشی کی انتہا کہاں تک پہنچے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان تقریباً تین سال سے جاری مذاکرات کے بعد گزشتہ ہفتے دونوں جماعتوں نے پیپلز سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 پر اتفاق کا اظہار کیا تھا جس پر قوم پستوں جماعتوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ جمعرات کو صوبے بھر میں عام ہڑتال کی تھی۔

نہ صرف قوم پرست بلکہ سندھ کی تین اتحادی جماعتوں مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے آرڈیننس کے اجراء پر سخت اعتراضات کرتے ہوئے اسی وقت حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا جب ابھی آرڈیننس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری بھی نہیں کیا گیا تھا۔

قوم پرست جماعتوں نے نہ صرف صوبے بھر میں ایک دن ہڑتال کی بلکہ آج بدھ کو کراچی کے گھارو سمیت پنجاب سے سندھ آنے والی قومی شاہراہ پر چار مقامات پر دھرنے دینے کا اعلان کیا کیا ہے۔

قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر قادر مگسی، سندھ بچاؤ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ آرڈیننس اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وہ اسمبلی کا گھیراؤ کرینگے بلکہ ڈاکٹر قادر مگسی نے تو یہ بھی اعلان کیا کہ ان کی جماعت سندھ میں غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی کال دے گی۔

ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں یکساں بلدیاتی نظام ہونا چاہیے اور چونکہ پیپلز سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں شہری اور دیہی علاقوں کے لیے علیحدہ نظام تجویز کیا گیا ہے جو کہ آگے چل کر سندھ کی تقسیم کی بنیاد بن سکتا ہے۔

صرف قوم پرست جماعتیں ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف گزشتہ ہفتے جب کراچی تشریف لائے تو ان کا یہی موقف تھا کہ سندھ میں دوہرا بلدیاتی نظام صوبے کی تقسیم کی طرف پہلا قدم ہے۔

اس کے برعکس سندھ کی دونوں بڑی پارلیمانی جماعتیں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف اس نظام پر خوش ہیں بلکہ وہ اسی نظام کو 1989 اور 2001 کے بلدیاتی نظام کا امتزاج قرار دے رہی ہیں۔


وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ ہفتہ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پیپلز پارٹی سندھ کونسل کا اجلاس طلب کرکے آرڈیننس کی مخالف کرنے والوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آرڈیننس پر قوم پرستوں اور دیگر جماعتوں کے اعتراضات کو یکسر مسترد کر دیا اور حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جس کو آرڈیننس پر اعتراض ہے وہ اسمبلی میں اس پر بحث کرے۔

انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ تین مہینے کے اندر یہ بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ انھوں نے سندھ کی مبینہ تقسیم کے مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو تقسیم کرنے والا اعتراض اس لیے بے بنیاد ہے کہ 1979 کے نظام کے تحت صوبے میں ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن اور باقی ضلعی کونسلیں تھیں اس نئے نظام کے تحت پانچ میٹروپولیٹن کارپوریشن بنا کر ایک جیسا اختیار دیا ہے۔

جبکہ 18 ضلع کونسلوں کے چیئرمین اور میٹروپولیٹن کارپوریشنوں کے میئرز کے اختیارات میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ آج جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں وہ اعتراض کے بجائے اس میں قابل اعتراض نکات کی نشاندہی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک طرف آئین کی پاسداری کی اور دوسری طرف ماضی کے تمام بلدیاتی نظاموں کا جائزہ لیا۔

جس میں 1959 کے ایوب خان، 1979 کے ضیاء الحق اور 2001 کے مشرف کے بلدیاتی نظام شامل ہیں نیا بلدیاتی نظام جمہوری اداروں اور حالات کے عین مطابق ہے۔

جو موجودہ حالات کے لئے بالکل درست ہے۔ 2001 کے بلدیاتی نظام میں وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومتیں نمائشی بن کر رہ گئی تھیں اور نمائشی اختیارات ضلعوں کو سونپ دیے گئے تھے جس کا مقصد صوبائی اختیارات ضلعوں کو سونپ کر صوبوں کو بے مقصد بنانا تھا۔ صوبے میں نیا مالیاتی کمیشن بنے گا جس میں ہر ضلع کی نمائندگی ہوگی۔

اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے اپنے چیمبر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے بلدیاتی نظام کا آرڈیننس حتمی نہیں ہے تاہم آرڈیننس میں اگر خامیاں ہیں تو اعتراض کرنے والی اتحادی جماعتیں اسمبلی میں آرڈیننس میں بہتر ترامیم کرکے آرڈیننس کو بل کی صورت میں منظور کرسکتی ہیں ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ فنکشنل ، اے این پی سمیت اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کرنے والی جماعتوں کی جانب سے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرنے کے متعلق ابھی تک کوئی بھی درخواست نہیں دی گئی ہے۔

ان کی پریس کانفرنس کے جواب میں مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے سیکریٹری جنرل اور استعفیٰ دینے والے صوبائی مشیر امتیاز احمد شیخ اور استعفیٰ دینے والے مسلم لیگ (ق) کے صوبائی وزیر شہریار خان مہر نے اسی روز جوابی پریس کانفرنس کرکے اعلان کردیا کہ وہ آئندہ دو تین روز میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں کے لیے درخواست دے دیں گے ۔

دونوں رہنمائوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کے زیاد تر ارکان سندھ اسمبلی سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او) 2012 کے خلاف ہیں۔ اس لیے حکومت آرڈیننس کو سندھ اسمبلی سے منظور نہیں کرا سکے گی۔
Load Next Story