اسپورٹس کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دے کرہی ترقی کی راہ پرگامزن کیا جاسکتا ہے ہارون رشید
انڈر19لڑکوں کوٹی ٹوئنٹی سے دوررہنا چاہیے، اس سے بیٹنگ تکنیک برباد ہوجاتی ہےِ، ہارون رشید
ان کے ساتھ دو ایسے واقعات پیش آئے جن کے بیان سے پتا چل سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے نے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کیونکرکیا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی تو نیانہیں ہورہابلکہ سب کچھ باانداز دگر دہرایا جا رہا ہے۔
پہلا واقعہ: 1979ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم سیمی فائنل میں ویسٹ انڈیزسے ہاربیٹھی۔اس دورمیں میچ کی صورت حال قوم کوریڈیوکمنٹری کے ذریعے معلوم ہوتی۔ اس میچ میں کمنٹری کرنے والوں نے آج کے اینکروں کی طرح ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑا جذباتی پیرایہ اختیار کیااوربیان میں کچھ ایسا تڑکا لگایاکہ سننے والوں کو بیچارے ہارون رشیدساری ہارکے ذمہ دارلگنے لگے۔ حقیقت مگر یہ تھی کہ انھوں نے اگرواقعتاًخرابی کی ہوتی تو کپتان باز پرس کرتا۔ساتھی کھلاڑی ملامت کرتے۔
مگرایسا تونہیں ہوا، پرکمنٹیٹروں کی لگائی آگ نے اپنا کام کردیااورشائقین کرکٹ ان کی بات پربغیرتصدیق کئے اسی طرح ایمان لے آئے جیسے سادہ لوح عوام متعصب اینکروں کے کہے پرلے آتے ہیں۔ہارون رشیدانگلینڈ سے پاکستان لوٹے توکراچی میں طارق روڈ پرنوجوانوں نے ان کوکارسے اتار کرسخت سست سنانی شروع کردیں اورکہا کہ ان کی سست بیٹنگ کے باعث پاکستان ہارا ۔یہ اس صورت حال پرگھبرائے نہیں۔ اعصاب پرقابو رکھا۔حقائق اوراعدادوشمارسے وضاحت کی تو ان نوجوانوں کا غصہ فروہوا اوروہ ٹل گئے۔
کہنے سے مراد یہ کہ رپورٹنگ میں غلط بیانی اگرکسی فرد کومصیبت میں ڈال سکتی ہے، تو وہ جو ٹی وی پربیٹھ کراپنی دکانداری چمکانے کے لیے حقائق توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں، کس قدرخطرناک کھیلتے ہیں۔دوسرا واقعہ :1995ء میںجب وہ کراچی میں جونیرلیول پر سلیکشن کے معاملات دیکھ رہے تھے توایک روزفون پرکسی لڑکے کو لازمی طورپرمنتخب کرنے کا حکم بشمول وگرنہ انھیں ملا۔ دھمکی نظر انداز کردی گئی۔میرٹ پرٹیم چنی تووہ لڑکا جس کے لیے دباؤڈالا گیاتھا منتخب نہ ہوسکا۔
اس گستاخی پرفون دوبارہ آیااوران سے گراؤنڈ کا رخ نہ کرنے کو کہا گیا۔یہ بھلے آدمی چلے گئے اورواپسی پرموٹرسائیکل پرسواردو نوجوانوں نے روک لیا' ایک نے فائرکھول دیا۔ نشانہ چوک گیااوروہ بال بال بچ گئے۔ یہ ہوتا ہے،اس ملک میں ان افراد کے ساتھ جو میرٹ پرچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا ملک ہے کہ جہاں ججوں سے لے کرکرکٹ کے سلیکٹرتک کومرضی کا فیصلہ لینے کے لیے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہارکی غلط وجہ بیان کرنے کا قصہ ہم نے بیان کردیا تواب ان سے صحیح وجوہات اس شکست کی جانتے ہیں ''اس میچ میں ہم نے بہت خراب فیلڈنگ کی جس کی وجہ سے ویسٹ انڈیز293 رنز کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس دورمیں ان کے دنیا کے چارتیزترین بولرتھے، اس لیے یہ ٹارگٹ آسان نہیں تھا لیکن ماجد خان اورظہیرعباس نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے حریف ٹیم کوپریشانی میں ڈال دیا۔ظہیرعباس ترانوے رنز بناکرآؤٹ ہوئے۔عموماً یہ ہوتا ہے ، جب پارٹنرشپ ٹوٹتی ہے تو دوتین وکٹیں ایک دم سے گرجاتی ہیں۔
ماجد خان اس کے بعد اکیاسی رنز بناکرآؤٹ ہوگئے جس کے بعد میانداد صفرپر پویلین لوٹ گئے۔ آصف اقبال بھی جلد آؤٹ ہوگئے۔ان کے بعد میں پندرہ رنزبناکررن آؤٹ ہوگیااوریہ میں نے بائیس گیندوں پربنائے۔اصل میں ہم کو انگلینڈ سے میچ جیتنا چاہیے تھا لیکن ہم ساٹھ اوورز میں ایک سوپینسٹھ رنزبھی نہ بناسکے۔ وہ میچ اگرہم جیت جاتے توسیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہمارا میچ ہوتا۔''اب اس میچ کا ذکرموقوف کرکے کچھ اورباتوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
کرکٹ میں ان کے گھرانے کو یہ منفرد شرف حاصل ہے کہ ان سمیت سات بھائی فرسٹ کلاس کرکٹربنے البتہ پاکستان ٹیم کی نمائندگی کااعزازانھی کے حصے میں آیا۔ 25مارچ 1953ء کو کراچی میں آنکھ کھولنے والے ہارون رشید چرچ مشن سوسائٹی اسکول میں پڑھے۔فٹبال ، ہاکی اورکرکٹ خوب کھیلتے۔ اتھلیٹکس میں پیش پیش رہتے۔ آخرکار کرکٹ کو اوڑھنا بچھونا بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ٹھہری کہ سفید رنگ کی کٹ انھیں بہت فیسی نیٹ کرتی تھی۔
کزن شوکت ڈاراورماموں آفتاب سعید کو زیب تن کئے دیکھتے توجی میں کرکٹر بننے کی امنگ جاگ اٹھتی۔ پڑھائی میں تیزتھے۔ ساتویں سے دسویں تک مانیٹر رہے۔ کرکٹ کھیلنے پروالد کی طرف سے حوصلہ افزائی توخیرکیا ہوتی الٹادھنائی ہوتی۔چھپ چھپ کرمیدانِ عمل میں پہنچتے۔ والدہ کے درپردہ حمایت حاصل تھی جنھوں نے بارہا باپ کے غیظ سے انھیں بچایا۔یہ بات بھی ان کے حق میں گئی کہ والد منوررشید جو فلمیں بناتے ان کا زیادہ وقت لاہورگزرتاتوانھیںکھل کھیلنے کا موقع ملتارہا۔اسکول کی کرکٹ ٹیم کے بعدایس ایم کالج کی ٹیم کا حصہ رہے۔کپتانی بھی کی۔اصل میںان کے جوہرمسلم جمخانہ سے وابستگی کے دوران کھلے، جہاں کی میٹنگ وکٹ پرکھیل کرفاسٹ بولنگ کواچھا کھیلنے کا ہنرسیکھا۔
ممتازکرکٹرجاوید میانداد بھی اسی کلب سے کھیلتے تھے۔ادھرکھیلنے کا فائدہ یہ بھی رہاکہ کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کادفتر یہیں تھا' اس لیے عہدیداروں کی نظروں میں آگئے اوراپنے شہرکی ٹیم میں ان کا چناؤبغیرٹرائل ہوگیا۔1972ء میں نیشنل بینک کا حصہ تو بن گئے لیکن کھیلنے کا چانس ملنے میں دیرلگی۔اس عرصے میںوہ ساتھیوں کو پانی پلانے جبکہ اقبال قاسم اسکوررکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔اس زمانے کا ذکراقبال قاسم نے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کیاہے۔
''میری طرح ہارون رشیدبھی ٹیم سے باہرتھے اکثرجامع کلاتھ برانچ(کراچی)سے وہ مجھے ملنے چلے آتے، ہم دونوں کافی دیرتک ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے اورخوش گپیاں کرتے، دل کے بہلاوے کا یہی طریقہ مجھے پسند ہے۔جب بھی ٹیم بنتی ہم دونوں بارہ پندرہ کھلاڑیوں میں توشامل ہوتے لیکن میدان دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔'' دیرآید درست آیدکے مصداق نیشنل بینک نے موقع دیا توعمدہ کارکردگی دکھائی۔ سرفراز نواز، آصف مسعود، سلیم الطاف اورانتخاب عالم جیسے معروف بولروں کا سامنا کرکے بے پناہ اعتماد حاصل ہوگیا۔75ء میں سری لنکاکے دورے میں اے ٹیم کی طرف سے بہترین کھیل پیش کیا تومنزل اوربھی قریب آگئی اورجلد ہی قومی ٹیم میں شمولیت کا مرحلہ آگیا۔
اس بڑی خبرکی اطلاع اخبار کے ذریعے سے ملی۔چیئرمین کرکٹ بورڈعبدالحفیظ کاردار کے خلاف بغاوت ہوئی اور وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے مداخلت کی تووہ ٹیم ٹوٹ گئی جس میں ان کا نام تھا۔ ان کا دل دھک دھک کرنے لگا کہ نہ جانے نئی ٹیم میں انھیں شامل کیاجاتا ہے یانہیں۔خیر! دورئہ آسٹریلیا کے لیے ان کا انتخاب ہوگیا۔14جنوری 1977ء کو سڈنی میں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔77 کے اسکور پر تیسری وکٹ گرنے پر میدان میں داخل ہوئے تو وہ ڈینس للی کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ آغازمیں خاصا نروس رہے۔رفتہ رفتہ سنبھلے اورستاون رنزکی اننگزکھیل ڈالی جس کی تعریف ڈان بریڈ مین نے بھی کی۔سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان پہلی بارآسٹریلیا کو اس کی سرزمین پرہرانے میں کامیاب ٹھہرا۔پاکستان ٹیم اوربارہ وکٹیں لینے والے عمران خان ، دونوں کی کرکٹ میں رفعت کا صحیح معنوں میں آغاز یہیں سے ہوا۔
کوئنیزلینڈ کے خلاف سنچری ،گریگ چیپل اورویوین رچرڈز کو متاثر کرگئی۔ آسٹریلیا سے ٹیم ویسٹ انڈیزپہنچی، جہاں ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولرز ہمارے بیٹسمینوں کا سواگت کرنے کو تیارتھے۔ہارون رشیدنے جمیکا ٹیسٹ میں 72رنز کی اننگزکھیل کر کالی آندھی کا رخ موڑا جبکہ کچھ سنیئربیٹسمین بھی اس اٹیک کے سامنے دبے دبے رہے۔ ٹیسٹ کیرئیر میں وہ اپنی اس کارکردگی کو سب سے یادگار قرار دیتے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں لگاتار دو سنچریوں سے لگا کہ ٹیم میں ان کی جگہ مستحکم ہوگئی ہے۔وسیم باری کی کپتانی میں ٹیم نے اسی برس انگلنیڈ کا دورہ کیا تو پاکستان ٹیم کی طرح وہ بھی ناکام ٹھہرے۔ ادھرکی صورت حال کے مطابق وہ خود کو ڈھال نہ سکے اور اردگرد ایسا کوئی سنیئرنہیں تھا، جو اس کڑے وقت میں ان کی رہنمائی کرتا۔
ہارون رشید ان پاکستانی کرکٹرز میں شامل رہے جنھیں آسٹریلیا میں ورلڈ سیریز کرکٹ میں کھیلنے کا موقع ملا ۔شروع شروع میں وہ اس سیریز کا حصہ بننے کے لیے تذبذب کا شکار تھے کہ کہیں ان پرپاکستان بورڈ پابندی نہ لگادیے، ایسے میں آصف اقبال نے ان کی ڈھارس بندھائی کہ ایسا نہیں ہوگا اورمعاملہ بورڈ اور کیری پیکر کے درمیان طے ہوجائے گا۔ 1979ء میںجن تاریخوں میں ورلڈ سیریز کا فائنل تھا، پاکستان اورنیوزی لینڈ کا ٹیسٹ تھا۔ اس وقت تک بورڈ اورکیری پیکرکے درمیان یہ طے ہوچکا تھا کہ کھلاڑیوں کو اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے ریلیز کردیا جائے گا۔ عمران خان ، ظہیرعباس اورآصف اقبال نے ہارون رشید سے کہا کہ وہ پاکستان ٹیم کا حصہ بن جائیں کہ ٹیم کو ایک بیٹسمین کی ضرورت ہے اوردوسرا ٹیسٹ شروع ہونے سے قبل وہ لوگ پہنچ جائیں گے۔یہ ٹیم کے مفاد میں مان گئے جبکہ اس سے قبل ٹیم کے کپتان ٹونی گریگ ان کی بہترین فارم کے پیش نظراوپن کرانے کا عندیہ دے چکے تھے۔
سپراسٹارزنے ٹیم کو باورکرایا کہ بس ان کی غیرموجودگی میں اوکھے سوکھے ہوکرمیچ ڈرا کرلیا جائے ، اوراگلے دو میچوں میںوہ آجائیں گے توحریف کو دیکھ لیں گے۔خدا کی کرنی مگرایسی ہوئی کہ ان بڑے ناموں کے بغیرتو پاکستان نیوزی لینڈ سے میچ جیت گیا لیکن جب وہ آگئے تو اگلے دونوں میچ ہم ہارتے ہارتے بچے۔جیتے میچ میں ہارون رشید نے دونوں اننگز میں متاثرکن بیٹنگ کی۔اس پرفارمنس کا صلہ یہ ملا کہ ان کو اگلے دونوں ٹیسٹ میچوں میں باہر بیٹھنا پڑا۔اس پرمایوس ہوکریہ روبھی پڑے۔ 1979ء میں دورئہ بھارت اور1981ء میں دورئہ آسٹریلیا کے لیے ڈراپ ہونے کو وہ خود سے زیادتی قراردیتے ہیں۔جاوید میانداد کے خلاف بغاوت ہوئی توان کودوسال بعد یاد کیا گیا توکراچی میں سری لنکا کے خلاف انھوں نے 153رنزبناڈالے۔اس کے بعد صرف پانچ ٹیسٹ کھیل سکے۔
1983ء میں انڈیا کے خلاف حیدرآباد ٹیسٹ ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ وہ اتفاق کرتے ہیں کہ آٹھ برس میں 23ٹیسٹ واقعتاً کم ہیں اوران کی تعداد پینتالیس پچاس ٹیسٹوں تک ہونی چاہیے تھی۔کہتے ہیں کہ عمران خان کے کپتان بننے کے بعد ان کے رستے اوربھی مسدود ہوگئے کہ ان کا اعتماد منصوراخترپرزیادہ تھا جن کو بقول ہارون رشید انھوں نے ویوین رچرڈز سے ملادیا تھا۔ہم نے ہارون رشیدسے پوچھا کہ ان کا اورمیانداد کا ایک ہی وقت میں ابھرناتو کہیں کم نمود کا باعث نہیں رہا ، اس بات سے وہ اتفاق نہیں کرتے اورکہتے ہیںمجموعی طورپراس زمانے میں ہماری بیٹنگ لائن اپ مضبوط ہونے کا انھیں نقصان ہوا۔ کہتے ہیں ''اس زمانے میں بیٹنگ آرڈرکچھ یوں ہوتا:صادق محمد'ماجدخان' ظہیرعباس'جاوید میانداد'مشتاق محمد'آصف اقبال'وسیم باری اورعمران خان۔ان سب کی موجودگی میں ٹیم میں جگہ بنانابہت مشکل تھا۔ اس کے باوجود مجھے اوروسیم حسن راجہ کو جب جب موقع ملا ہم نے پرفارم کیا۔''
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو آغازسفرسے اب تک فیلڈنگ کے سلسلے میں مسائل کا سامنا رہا ہے، اس کے باوجود ہردورمیں ایک آدھ فیلڈرضرورہوتا جس کو عمدہ کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، ایسوں میں ہارون رشید بھی ہیں، جو پہلی بارٹیم میں منتخب ہوئے تو کپتان مشتاق محمد نے ان سے مذاق میں کہا کہ فائنل الیون میں جگہ تمھیں ملے نہ ملے لیکن تم میرے مستقل متبادل فیلڈر ہوگے۔ان کی فیلڈنگ میں خوبی یہ رہی کہ انھوں نے خود کو کسی خاص پوزیشن کے لیے مخصوص نہیں کیا۔1982 ء میں انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے متبادل فیلڈرکے طورپرجوتین کیچ پکڑے تو میڈیا نے انھیں سپرسب (Super-sub)کا نام دیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی اچھا فیلڈرہونے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ اسکول اورکالج کے زمانے میں اتھیلیٹ بہت اچھے تھے، دوسرے اسکول میں گراؤنڈ تھا تواس سے بھی فیلڈنگ میں بہتری آجاتی ہے۔ کہتے ہیں ہمارے ہاں زیادہ تربچے توسڑکوں اور گلیوں میں کھیلتے ہیں جہاں پرکھیل کرآپ بولر اور بیٹسمین توبن سکتے ہیں فیلڈر نہیں۔ بچپن میں جب گلی ڈنڈا کھیلتے توان کو دورکھڑا کیا جاتا تاکہ گلی کو ہٹ لگے تو وہ بھاگ کراس کو پکڑسکیں۔
اپنے زمانے میں انھیں ڈیرک رینڈل فیلڈرکی حیثیت سے پسند تھے، توبعد میں انھیں جونٹی رھوڈز نے متاثر کیا۔ پاکستان میں میانداد کی تعریف کرتے ہیں۔کیرئیرمیں بدترین انجری کا شکار بھی دوران فیلڈنگ ہوئے۔ یوبی ایل کی طرف سے کھیلتے ہوئے ، جب وہ شاٹ لیگ پرفیلڈنگ کررہے تھے توتوصیف احمد کی گیند پربیٹسمین نے سویپ کھیلا تو گیند ان کی آنکھ پرلگا ،جس کے باعث انھیں تین بار آپریشن کے مرحلے سے گزرے مگرپھربھی اس آنکھ کی بینائی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی' جس کا اثر کیرئیر پربھی پڑا۔
2003سے 2005ء تک پاکستان ٹیم کے منیجرکے عہدے پرفائزرہنے والے ہارون رشید کے پسندیدہ بیٹسمینوں میں ماجدخان، سنیل گواسکر سرفہرست ہیں۔کہتے ہیں '' پاکستان میں جس کھلاڑی کو آئیڈیلائزکیا وہ ماجد خان تھے۔پی آئی اے کی طرف سے وہ کھیلتے تومیں انھیں بڑے غورسے دیکھا کرتا۔ بڑے سٹائلش بیٹسمین تھے۔دوسرے ان کے مینرازم سے بڑامتاثرتھا۔اپنے ملک سے باہر سب سے بڑھ کرسنیل گواسکرنے متاثرکیا۔فاسٹ بولرکو وہ بہت اچھے طریقے سے کھیلتے۔اپنے ملک سے باہرجاکربھی انھوں نے بہت اسکورکیا۔
تکنیکی اعتبارسے بہت مضبوط تھے۔پاؤں کو حرکت بڑے سلیقے سے دیتے۔گیند کو چھوڑنے کے سلسلے میں سوجھ بوجھ بہت اچھی تھی۔انڈیاکے پاس فاسٹ بولرنہیں تھے، اس لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی ان کو پریکٹس نہیں ملتی تھی۔ اس کے باوجود فاسٹ بولرز کا نہایت عمدگی سے سامنا کرتے۔''
پاکستان کی طرف سے کھیلنے سے قبل انضمام الحق جس زمانے میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ بیٹنگ سے توجہ حاصل کررہے تھے، ہارون رشیدکواس سارے عرصے میں انضمام الحق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔انضمام جب قومی انڈر19ٹیم میں شامل ہوئے توہارون رشید ٹیم کے کوچ تھے۔اس کے بعد وہ یوبی ایل کی ٹیم سے وابستہ ہوگئے توہارون رشید ادھربھی کوچنگ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ان کے بقول ''انضمام میں بہت زیادہ ٹیلنٹ تھا اورمیرا خیال تھا کہ یہ لڑکا بہت آگے جائے گا۔
1989ء میں یوبی ایل کی طرف سے اس نے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی ٹیم کے خلاف ناقابل شکست ڈبل سنچری بنائی۔فاسٹ بولرز کے لیے مددگاراس وکٹ پرجس طریقے سے انضمام نے بیٹنگ کی ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس سے بہتراننگزمیں نے نہیں دیکھی۔انضمام اپنے کھیل میں بتدریج بہتری لاتا چلا گیا۔شروع شروع میں اندر آنے والی گیندوں پراسے مسئلہ ہوتا۔وہ ایل بی ڈبلیو یا بولڈ ہوجاتا لیکن جب آپ کرکٹ کھیلتے ہیں تواپنے مسائل کو خود سمجھنے کے قابل بھی ہوجاتے ہیں۔
انضمام میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ محنت اورارتکازکے ذریعے خامی دورکرلیتا۔''کامران یونس، عاصم منیربٹ ، شاہد یوسف ، منصورامجد اورکامران ساجد ایسے باصلاحیت کرکٹرتھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی نمائندگی کریں گے لیکن یہ سب بوجوہ ان کی توقعات پرپورانہ اترسکے۔ان کے خیال میں انڈر19 لڑکوں کو ٹی ٹوئنٹی سے دوررہنا چاہیے کہ اس سے بیٹنگ تکنیک برباد ہوجاتی ہے۔پاکستان میں اسپورٹس کے زوال کا سبب ان کے خیال میں حکومت کا اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہ دیناہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں رویوں میں توازن نہیں۔جیت پرٹیم کوآسمان جبکہ ہارپرزمین پردے مارتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے زوال کو معاشرے کی مجموعی صورت حال سے جوڑ کردیکھنا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں سرد ست ڈائریکٹرگیم ڈویلپمنٹ کے عہدے پرفائز'ہارون رشید نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نیاڈھانچہ تیارکیا ہے جس پرعمل درآمد کی صورت میں وہ کرکٹ میں بہتری کے آثاردیکھتے ہیں۔کہتے ہیں کوئی بھی منصوبہ ہواس کے ثمرات کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن ہم فوراً نتائج چاہتے ہیں۔کرکٹ کی تباہی کو وہ مختلف سطحوں پرپالیسیوں کے عدم تسلسل سے جوڑتے ہیں۔کہتے ہیں، ایک برس کوچ رہے تو اس دوران چھ کپتان بدلے گئے توایسے میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ہارون رشید پاکستان کے ان معدودے چند کرکٹروں میں سے ہیںجو بڑے شفاف ذہن اورجچے تلے انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کرنے پرقدرت رکھتے ہیں ، جس کی وجہ وہ بچپن سے مطالعے کی عادت اورکمنٹیٹرکی حیثیت سے اپنے تجربے کو قراردیتے ہیں۔ مطالعہ کاشوق اب بھی ہے اورحالات حاضرہ کے بارے میں ان کی معلومات نے ہم کو بھی حیرت میں ڈالا۔
جس بینک کو مختلف حیثیتوں میں چوبیس برس اپنی خدمات دیں اس نے گولڈن ہینڈ شیک کے نام پران کو نکال باہرکیا جس کا انھیں رنج ہے۔1983ء میں کزن سے شادی ہوئی۔تین بیٹیاں ہیں، جو اپنے اپنے گھر خوش ہیں۔ سات برس سے لاہورمیں ہیں۔کراچی چھوڑنا آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن کہتے ہیں کہ نوکری جہاں ہو وہاں ایڈجسٹ ہونا پڑتا ہے۔ مبصر اور کمنٹیٹر کی حیثیت سے تجربے کو خوشگوار قرار دیتے ہیں۔حلیم احمد،گل حمید بھٹی، انورحسین اورآصف خان جیسے اسپورٹس صحافیوں کی تعریف کرتے ہیں، جو فرسٹ کلاس کرکٹ کے میچ دیکھ کرآنے والے اسٹارزکی خبر قارئین کو دیتے' اب مگران کے خیال میں ایسا نہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ زیادہ عرصہ قومی ٹیم سے وابستہ نہ رہنے کا دکھ نہیں۔کہتے ہیں کہ قدرت نے اس کی تلافی دوسری حیثیتوں میں کرکٹ سے وابستگی کے ذریعے کرادی ۔
پہلا واقعہ: 1979ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم سیمی فائنل میں ویسٹ انڈیزسے ہاربیٹھی۔اس دورمیں میچ کی صورت حال قوم کوریڈیوکمنٹری کے ذریعے معلوم ہوتی۔ اس میچ میں کمنٹری کرنے والوں نے آج کے اینکروں کی طرح ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑا جذباتی پیرایہ اختیار کیااوربیان میں کچھ ایسا تڑکا لگایاکہ سننے والوں کو بیچارے ہارون رشیدساری ہارکے ذمہ دارلگنے لگے۔ حقیقت مگر یہ تھی کہ انھوں نے اگرواقعتاًخرابی کی ہوتی تو کپتان باز پرس کرتا۔ساتھی کھلاڑی ملامت کرتے۔
مگرایسا تونہیں ہوا، پرکمنٹیٹروں کی لگائی آگ نے اپنا کام کردیااورشائقین کرکٹ ان کی بات پربغیرتصدیق کئے اسی طرح ایمان لے آئے جیسے سادہ لوح عوام متعصب اینکروں کے کہے پرلے آتے ہیں۔ہارون رشیدانگلینڈ سے پاکستان لوٹے توکراچی میں طارق روڈ پرنوجوانوں نے ان کوکارسے اتار کرسخت سست سنانی شروع کردیں اورکہا کہ ان کی سست بیٹنگ کے باعث پاکستان ہارا ۔یہ اس صورت حال پرگھبرائے نہیں۔ اعصاب پرقابو رکھا۔حقائق اوراعدادوشمارسے وضاحت کی تو ان نوجوانوں کا غصہ فروہوا اوروہ ٹل گئے۔
کہنے سے مراد یہ کہ رپورٹنگ میں غلط بیانی اگرکسی فرد کومصیبت میں ڈال سکتی ہے، تو وہ جو ٹی وی پربیٹھ کراپنی دکانداری چمکانے کے لیے حقائق توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں، کس قدرخطرناک کھیلتے ہیں۔دوسرا واقعہ :1995ء میںجب وہ کراچی میں جونیرلیول پر سلیکشن کے معاملات دیکھ رہے تھے توایک روزفون پرکسی لڑکے کو لازمی طورپرمنتخب کرنے کا حکم بشمول وگرنہ انھیں ملا۔ دھمکی نظر انداز کردی گئی۔میرٹ پرٹیم چنی تووہ لڑکا جس کے لیے دباؤڈالا گیاتھا منتخب نہ ہوسکا۔
اس گستاخی پرفون دوبارہ آیااوران سے گراؤنڈ کا رخ نہ کرنے کو کہا گیا۔یہ بھلے آدمی چلے گئے اورواپسی پرموٹرسائیکل پرسواردو نوجوانوں نے روک لیا' ایک نے فائرکھول دیا۔ نشانہ چوک گیااوروہ بال بال بچ گئے۔ یہ ہوتا ہے،اس ملک میں ان افراد کے ساتھ جو میرٹ پرچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا ملک ہے کہ جہاں ججوں سے لے کرکرکٹ کے سلیکٹرتک کومرضی کا فیصلہ لینے کے لیے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہارکی غلط وجہ بیان کرنے کا قصہ ہم نے بیان کردیا تواب ان سے صحیح وجوہات اس شکست کی جانتے ہیں ''اس میچ میں ہم نے بہت خراب فیلڈنگ کی جس کی وجہ سے ویسٹ انڈیز293 رنز کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس دورمیں ان کے دنیا کے چارتیزترین بولرتھے، اس لیے یہ ٹارگٹ آسان نہیں تھا لیکن ماجد خان اورظہیرعباس نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے حریف ٹیم کوپریشانی میں ڈال دیا۔ظہیرعباس ترانوے رنز بناکرآؤٹ ہوئے۔عموماً یہ ہوتا ہے ، جب پارٹنرشپ ٹوٹتی ہے تو دوتین وکٹیں ایک دم سے گرجاتی ہیں۔
ماجد خان اس کے بعد اکیاسی رنز بناکرآؤٹ ہوگئے جس کے بعد میانداد صفرپر پویلین لوٹ گئے۔ آصف اقبال بھی جلد آؤٹ ہوگئے۔ان کے بعد میں پندرہ رنزبناکررن آؤٹ ہوگیااوریہ میں نے بائیس گیندوں پربنائے۔اصل میں ہم کو انگلینڈ سے میچ جیتنا چاہیے تھا لیکن ہم ساٹھ اوورز میں ایک سوپینسٹھ رنزبھی نہ بناسکے۔ وہ میچ اگرہم جیت جاتے توسیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ہمارا میچ ہوتا۔''اب اس میچ کا ذکرموقوف کرکے کچھ اورباتوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
کرکٹ میں ان کے گھرانے کو یہ منفرد شرف حاصل ہے کہ ان سمیت سات بھائی فرسٹ کلاس کرکٹربنے البتہ پاکستان ٹیم کی نمائندگی کااعزازانھی کے حصے میں آیا۔ 25مارچ 1953ء کو کراچی میں آنکھ کھولنے والے ہارون رشید چرچ مشن سوسائٹی اسکول میں پڑھے۔فٹبال ، ہاکی اورکرکٹ خوب کھیلتے۔ اتھلیٹکس میں پیش پیش رہتے۔ آخرکار کرکٹ کو اوڑھنا بچھونا بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔وجہ اس کی یہ ٹھہری کہ سفید رنگ کی کٹ انھیں بہت فیسی نیٹ کرتی تھی۔
کزن شوکت ڈاراورماموں آفتاب سعید کو زیب تن کئے دیکھتے توجی میں کرکٹر بننے کی امنگ جاگ اٹھتی۔ پڑھائی میں تیزتھے۔ ساتویں سے دسویں تک مانیٹر رہے۔ کرکٹ کھیلنے پروالد کی طرف سے حوصلہ افزائی توخیرکیا ہوتی الٹادھنائی ہوتی۔چھپ چھپ کرمیدانِ عمل میں پہنچتے۔ والدہ کے درپردہ حمایت حاصل تھی جنھوں نے بارہا باپ کے غیظ سے انھیں بچایا۔یہ بات بھی ان کے حق میں گئی کہ والد منوررشید جو فلمیں بناتے ان کا زیادہ وقت لاہورگزرتاتوانھیںکھل کھیلنے کا موقع ملتارہا۔اسکول کی کرکٹ ٹیم کے بعدایس ایم کالج کی ٹیم کا حصہ رہے۔کپتانی بھی کی۔اصل میںان کے جوہرمسلم جمخانہ سے وابستگی کے دوران کھلے، جہاں کی میٹنگ وکٹ پرکھیل کرفاسٹ بولنگ کواچھا کھیلنے کا ہنرسیکھا۔
ممتازکرکٹرجاوید میانداد بھی اسی کلب سے کھیلتے تھے۔ادھرکھیلنے کا فائدہ یہ بھی رہاکہ کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کادفتر یہیں تھا' اس لیے عہدیداروں کی نظروں میں آگئے اوراپنے شہرکی ٹیم میں ان کا چناؤبغیرٹرائل ہوگیا۔1972ء میں نیشنل بینک کا حصہ تو بن گئے لیکن کھیلنے کا چانس ملنے میں دیرلگی۔اس عرصے میںوہ ساتھیوں کو پانی پلانے جبکہ اقبال قاسم اسکوررکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔اس زمانے کا ذکراقبال قاسم نے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کیاہے۔
''میری طرح ہارون رشیدبھی ٹیم سے باہرتھے اکثرجامع کلاتھ برانچ(کراچی)سے وہ مجھے ملنے چلے آتے، ہم دونوں کافی دیرتک ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے اورخوش گپیاں کرتے، دل کے بہلاوے کا یہی طریقہ مجھے پسند ہے۔جب بھی ٹیم بنتی ہم دونوں بارہ پندرہ کھلاڑیوں میں توشامل ہوتے لیکن میدان دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔'' دیرآید درست آیدکے مصداق نیشنل بینک نے موقع دیا توعمدہ کارکردگی دکھائی۔ سرفراز نواز، آصف مسعود، سلیم الطاف اورانتخاب عالم جیسے معروف بولروں کا سامنا کرکے بے پناہ اعتماد حاصل ہوگیا۔75ء میں سری لنکاکے دورے میں اے ٹیم کی طرف سے بہترین کھیل پیش کیا تومنزل اوربھی قریب آگئی اورجلد ہی قومی ٹیم میں شمولیت کا مرحلہ آگیا۔
اس بڑی خبرکی اطلاع اخبار کے ذریعے سے ملی۔چیئرمین کرکٹ بورڈعبدالحفیظ کاردار کے خلاف بغاوت ہوئی اور وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے مداخلت کی تووہ ٹیم ٹوٹ گئی جس میں ان کا نام تھا۔ ان کا دل دھک دھک کرنے لگا کہ نہ جانے نئی ٹیم میں انھیں شامل کیاجاتا ہے یانہیں۔خیر! دورئہ آسٹریلیا کے لیے ان کا انتخاب ہوگیا۔14جنوری 1977ء کو سڈنی میں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔77 کے اسکور پر تیسری وکٹ گرنے پر میدان میں داخل ہوئے تو وہ ڈینس للی کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ آغازمیں خاصا نروس رہے۔رفتہ رفتہ سنبھلے اورستاون رنزکی اننگزکھیل ڈالی جس کی تعریف ڈان بریڈ مین نے بھی کی۔سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان پہلی بارآسٹریلیا کو اس کی سرزمین پرہرانے میں کامیاب ٹھہرا۔پاکستان ٹیم اوربارہ وکٹیں لینے والے عمران خان ، دونوں کی کرکٹ میں رفعت کا صحیح معنوں میں آغاز یہیں سے ہوا۔
کوئنیزلینڈ کے خلاف سنچری ،گریگ چیپل اورویوین رچرڈز کو متاثر کرگئی۔ آسٹریلیا سے ٹیم ویسٹ انڈیزپہنچی، جہاں ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولرز ہمارے بیٹسمینوں کا سواگت کرنے کو تیارتھے۔ہارون رشیدنے جمیکا ٹیسٹ میں 72رنز کی اننگزکھیل کر کالی آندھی کا رخ موڑا جبکہ کچھ سنیئربیٹسمین بھی اس اٹیک کے سامنے دبے دبے رہے۔ ٹیسٹ کیرئیر میں وہ اپنی اس کارکردگی کو سب سے یادگار قرار دیتے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں لگاتار دو سنچریوں سے لگا کہ ٹیم میں ان کی جگہ مستحکم ہوگئی ہے۔وسیم باری کی کپتانی میں ٹیم نے اسی برس انگلنیڈ کا دورہ کیا تو پاکستان ٹیم کی طرح وہ بھی ناکام ٹھہرے۔ ادھرکی صورت حال کے مطابق وہ خود کو ڈھال نہ سکے اور اردگرد ایسا کوئی سنیئرنہیں تھا، جو اس کڑے وقت میں ان کی رہنمائی کرتا۔
ہارون رشید ان پاکستانی کرکٹرز میں شامل رہے جنھیں آسٹریلیا میں ورلڈ سیریز کرکٹ میں کھیلنے کا موقع ملا ۔شروع شروع میں وہ اس سیریز کا حصہ بننے کے لیے تذبذب کا شکار تھے کہ کہیں ان پرپاکستان بورڈ پابندی نہ لگادیے، ایسے میں آصف اقبال نے ان کی ڈھارس بندھائی کہ ایسا نہیں ہوگا اورمعاملہ بورڈ اور کیری پیکر کے درمیان طے ہوجائے گا۔ 1979ء میںجن تاریخوں میں ورلڈ سیریز کا فائنل تھا، پاکستان اورنیوزی لینڈ کا ٹیسٹ تھا۔ اس وقت تک بورڈ اورکیری پیکرکے درمیان یہ طے ہوچکا تھا کہ کھلاڑیوں کو اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے ریلیز کردیا جائے گا۔ عمران خان ، ظہیرعباس اورآصف اقبال نے ہارون رشید سے کہا کہ وہ پاکستان ٹیم کا حصہ بن جائیں کہ ٹیم کو ایک بیٹسمین کی ضرورت ہے اوردوسرا ٹیسٹ شروع ہونے سے قبل وہ لوگ پہنچ جائیں گے۔یہ ٹیم کے مفاد میں مان گئے جبکہ اس سے قبل ٹیم کے کپتان ٹونی گریگ ان کی بہترین فارم کے پیش نظراوپن کرانے کا عندیہ دے چکے تھے۔
سپراسٹارزنے ٹیم کو باورکرایا کہ بس ان کی غیرموجودگی میں اوکھے سوکھے ہوکرمیچ ڈرا کرلیا جائے ، اوراگلے دو میچوں میںوہ آجائیں گے توحریف کو دیکھ لیں گے۔خدا کی کرنی مگرایسی ہوئی کہ ان بڑے ناموں کے بغیرتو پاکستان نیوزی لینڈ سے میچ جیت گیا لیکن جب وہ آگئے تو اگلے دونوں میچ ہم ہارتے ہارتے بچے۔جیتے میچ میں ہارون رشید نے دونوں اننگز میں متاثرکن بیٹنگ کی۔اس پرفارمنس کا صلہ یہ ملا کہ ان کو اگلے دونوں ٹیسٹ میچوں میں باہر بیٹھنا پڑا۔اس پرمایوس ہوکریہ روبھی پڑے۔ 1979ء میں دورئہ بھارت اور1981ء میں دورئہ آسٹریلیا کے لیے ڈراپ ہونے کو وہ خود سے زیادتی قراردیتے ہیں۔جاوید میانداد کے خلاف بغاوت ہوئی توان کودوسال بعد یاد کیا گیا توکراچی میں سری لنکا کے خلاف انھوں نے 153رنزبناڈالے۔اس کے بعد صرف پانچ ٹیسٹ کھیل سکے۔
1983ء میں انڈیا کے خلاف حیدرآباد ٹیسٹ ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا۔ وہ اتفاق کرتے ہیں کہ آٹھ برس میں 23ٹیسٹ واقعتاً کم ہیں اوران کی تعداد پینتالیس پچاس ٹیسٹوں تک ہونی چاہیے تھی۔کہتے ہیں کہ عمران خان کے کپتان بننے کے بعد ان کے رستے اوربھی مسدود ہوگئے کہ ان کا اعتماد منصوراخترپرزیادہ تھا جن کو بقول ہارون رشید انھوں نے ویوین رچرڈز سے ملادیا تھا۔ہم نے ہارون رشیدسے پوچھا کہ ان کا اورمیانداد کا ایک ہی وقت میں ابھرناتو کہیں کم نمود کا باعث نہیں رہا ، اس بات سے وہ اتفاق نہیں کرتے اورکہتے ہیںمجموعی طورپراس زمانے میں ہماری بیٹنگ لائن اپ مضبوط ہونے کا انھیں نقصان ہوا۔ کہتے ہیں ''اس زمانے میں بیٹنگ آرڈرکچھ یوں ہوتا:صادق محمد'ماجدخان' ظہیرعباس'جاوید میانداد'مشتاق محمد'آصف اقبال'وسیم باری اورعمران خان۔ان سب کی موجودگی میں ٹیم میں جگہ بنانابہت مشکل تھا۔ اس کے باوجود مجھے اوروسیم حسن راجہ کو جب جب موقع ملا ہم نے پرفارم کیا۔''
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو آغازسفرسے اب تک فیلڈنگ کے سلسلے میں مسائل کا سامنا رہا ہے، اس کے باوجود ہردورمیں ایک آدھ فیلڈرضرورہوتا جس کو عمدہ کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، ایسوں میں ہارون رشید بھی ہیں، جو پہلی بارٹیم میں منتخب ہوئے تو کپتان مشتاق محمد نے ان سے مذاق میں کہا کہ فائنل الیون میں جگہ تمھیں ملے نہ ملے لیکن تم میرے مستقل متبادل فیلڈر ہوگے۔ان کی فیلڈنگ میں خوبی یہ رہی کہ انھوں نے خود کو کسی خاص پوزیشن کے لیے مخصوص نہیں کیا۔1982 ء میں انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے متبادل فیلڈرکے طورپرجوتین کیچ پکڑے تو میڈیا نے انھیں سپرسب (Super-sub)کا نام دیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی اچھا فیلڈرہونے کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ اسکول اورکالج کے زمانے میں اتھیلیٹ بہت اچھے تھے، دوسرے اسکول میں گراؤنڈ تھا تواس سے بھی فیلڈنگ میں بہتری آجاتی ہے۔ کہتے ہیں ہمارے ہاں زیادہ تربچے توسڑکوں اور گلیوں میں کھیلتے ہیں جہاں پرکھیل کرآپ بولر اور بیٹسمین توبن سکتے ہیں فیلڈر نہیں۔ بچپن میں جب گلی ڈنڈا کھیلتے توان کو دورکھڑا کیا جاتا تاکہ گلی کو ہٹ لگے تو وہ بھاگ کراس کو پکڑسکیں۔
اپنے زمانے میں انھیں ڈیرک رینڈل فیلڈرکی حیثیت سے پسند تھے، توبعد میں انھیں جونٹی رھوڈز نے متاثر کیا۔ پاکستان میں میانداد کی تعریف کرتے ہیں۔کیرئیرمیں بدترین انجری کا شکار بھی دوران فیلڈنگ ہوئے۔ یوبی ایل کی طرف سے کھیلتے ہوئے ، جب وہ شاٹ لیگ پرفیلڈنگ کررہے تھے توتوصیف احمد کی گیند پربیٹسمین نے سویپ کھیلا تو گیند ان کی آنکھ پرلگا ،جس کے باعث انھیں تین بار آپریشن کے مرحلے سے گزرے مگرپھربھی اس آنکھ کی بینائی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی' جس کا اثر کیرئیر پربھی پڑا۔
2003سے 2005ء تک پاکستان ٹیم کے منیجرکے عہدے پرفائزرہنے والے ہارون رشید کے پسندیدہ بیٹسمینوں میں ماجدخان، سنیل گواسکر سرفہرست ہیں۔کہتے ہیں '' پاکستان میں جس کھلاڑی کو آئیڈیلائزکیا وہ ماجد خان تھے۔پی آئی اے کی طرف سے وہ کھیلتے تومیں انھیں بڑے غورسے دیکھا کرتا۔ بڑے سٹائلش بیٹسمین تھے۔دوسرے ان کے مینرازم سے بڑامتاثرتھا۔اپنے ملک سے باہر سب سے بڑھ کرسنیل گواسکرنے متاثرکیا۔فاسٹ بولرکو وہ بہت اچھے طریقے سے کھیلتے۔اپنے ملک سے باہرجاکربھی انھوں نے بہت اسکورکیا۔
تکنیکی اعتبارسے بہت مضبوط تھے۔پاؤں کو حرکت بڑے سلیقے سے دیتے۔گیند کو چھوڑنے کے سلسلے میں سوجھ بوجھ بہت اچھی تھی۔انڈیاکے پاس فاسٹ بولرنہیں تھے، اس لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی ان کو پریکٹس نہیں ملتی تھی۔ اس کے باوجود فاسٹ بولرز کا نہایت عمدگی سے سامنا کرتے۔''
پاکستان کی طرف سے کھیلنے سے قبل انضمام الحق جس زمانے میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ بیٹنگ سے توجہ حاصل کررہے تھے، ہارون رشیدکواس سارے عرصے میں انضمام الحق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔انضمام جب قومی انڈر19ٹیم میں شامل ہوئے توہارون رشید ٹیم کے کوچ تھے۔اس کے بعد وہ یوبی ایل کی ٹیم سے وابستہ ہوگئے توہارون رشید ادھربھی کوچنگ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ان کے بقول ''انضمام میں بہت زیادہ ٹیلنٹ تھا اورمیرا خیال تھا کہ یہ لڑکا بہت آگے جائے گا۔
1989ء میں یوبی ایل کی طرف سے اس نے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کی ٹیم کے خلاف ناقابل شکست ڈبل سنچری بنائی۔فاسٹ بولرز کے لیے مددگاراس وکٹ پرجس طریقے سے انضمام نے بیٹنگ کی ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اس سے بہتراننگزمیں نے نہیں دیکھی۔انضمام اپنے کھیل میں بتدریج بہتری لاتا چلا گیا۔شروع شروع میں اندر آنے والی گیندوں پراسے مسئلہ ہوتا۔وہ ایل بی ڈبلیو یا بولڈ ہوجاتا لیکن جب آپ کرکٹ کھیلتے ہیں تواپنے مسائل کو خود سمجھنے کے قابل بھی ہوجاتے ہیں۔
انضمام میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ محنت اورارتکازکے ذریعے خامی دورکرلیتا۔''کامران یونس، عاصم منیربٹ ، شاہد یوسف ، منصورامجد اورکامران ساجد ایسے باصلاحیت کرکٹرتھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پاکستان کی نمائندگی کریں گے لیکن یہ سب بوجوہ ان کی توقعات پرپورانہ اترسکے۔ان کے خیال میں انڈر19 لڑکوں کو ٹی ٹوئنٹی سے دوررہنا چاہیے کہ اس سے بیٹنگ تکنیک برباد ہوجاتی ہے۔پاکستان میں اسپورٹس کے زوال کا سبب ان کے خیال میں حکومت کا اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہ دیناہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں رویوں میں توازن نہیں۔جیت پرٹیم کوآسمان جبکہ ہارپرزمین پردے مارتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے زوال کو معاشرے کی مجموعی صورت حال سے جوڑ کردیکھنا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں سرد ست ڈائریکٹرگیم ڈویلپمنٹ کے عہدے پرفائز'ہارون رشید نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نیاڈھانچہ تیارکیا ہے جس پرعمل درآمد کی صورت میں وہ کرکٹ میں بہتری کے آثاردیکھتے ہیں۔کہتے ہیں کوئی بھی منصوبہ ہواس کے ثمرات کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے لیکن ہم فوراً نتائج چاہتے ہیں۔کرکٹ کی تباہی کو وہ مختلف سطحوں پرپالیسیوں کے عدم تسلسل سے جوڑتے ہیں۔کہتے ہیں، ایک برس کوچ رہے تو اس دوران چھ کپتان بدلے گئے توایسے میں بہتری کی توقع عبث ہے۔ہارون رشید پاکستان کے ان معدودے چند کرکٹروں میں سے ہیںجو بڑے شفاف ذہن اورجچے تلے انداز میں اپنا مافی الضمیربیان کرنے پرقدرت رکھتے ہیں ، جس کی وجہ وہ بچپن سے مطالعے کی عادت اورکمنٹیٹرکی حیثیت سے اپنے تجربے کو قراردیتے ہیں۔ مطالعہ کاشوق اب بھی ہے اورحالات حاضرہ کے بارے میں ان کی معلومات نے ہم کو بھی حیرت میں ڈالا۔
جس بینک کو مختلف حیثیتوں میں چوبیس برس اپنی خدمات دیں اس نے گولڈن ہینڈ شیک کے نام پران کو نکال باہرکیا جس کا انھیں رنج ہے۔1983ء میں کزن سے شادی ہوئی۔تین بیٹیاں ہیں، جو اپنے اپنے گھر خوش ہیں۔ سات برس سے لاہورمیں ہیں۔کراچی چھوڑنا آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن کہتے ہیں کہ نوکری جہاں ہو وہاں ایڈجسٹ ہونا پڑتا ہے۔ مبصر اور کمنٹیٹر کی حیثیت سے تجربے کو خوشگوار قرار دیتے ہیں۔حلیم احمد،گل حمید بھٹی، انورحسین اورآصف خان جیسے اسپورٹس صحافیوں کی تعریف کرتے ہیں، جو فرسٹ کلاس کرکٹ کے میچ دیکھ کرآنے والے اسٹارزکی خبر قارئین کو دیتے' اب مگران کے خیال میں ایسا نہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ زیادہ عرصہ قومی ٹیم سے وابستہ نہ رہنے کا دکھ نہیں۔کہتے ہیں کہ قدرت نے اس کی تلافی دوسری حیثیتوں میں کرکٹ سے وابستگی کے ذریعے کرادی ۔