غلام احمد بلور کے خلاف کاروائی کے لئے اے این پی پر دباؤ

اے این پی وہی جماعت ہے جس نے ڈسپلن کے نام پر اپنی پارٹی کی سابقہ صوبائی صدر کے خلاف بھی کاروائی کی


Shahid Hameed September 25, 2012
اے این پی وہی جماعت ہے جس نے ڈسپلن کے نام پر اپنی پارٹی کی سابقہ صوبائی صدر کے خلاف بھی کاروائی کی۔ فوٹو : ایکسپریس

لاہور: عوامی نیشنل پارٹی کے بعض حلقوں کا پیپلز پارٹی کی جانب سے سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کے معاملہ پر اچانک مؤقف تبدیل کرنے پر موڈ اچھا نہیں تھا اوران کی خواہش تھی کہ اس معاملہ پر پیپلز پارٹی کے ساتھ کھل کر بات ہونی چاہیے کیونکہ خط نہ لکھنے کے معاملہ پر کئی مواقعوں پر پیپلز پارٹی سے زیادہ اے این پی کے رہنما زیادہ جارح نظر آئے۔

تاہم اے این پی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور کی جانب سے گستاخانہ فلم بنانے والے فلمساز کے سر پر ایک لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کرنے اور اس کام کے لیے طالبان اور القاعدہ والوں کو بھی دعوت دینے کے اعلان نے اچانک اے این پی کو فرنٹ فٹ سے بیک فٹ پر جانے پر مجبور کردیا ہے۔

کیونکہ ایک جانب باہر سے بھی اس حوالے سے دبائو آیا ہے اور دوسری جانب وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی جانب سے اس سلسلے میں جو مؤقف سامنے آیا ہے وہ بھی انتہائی سخت ہے۔

اس لیے اے این پی اس موقع پر بجائے اس کے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ فرنٹ فٹ پر آکر کھیلتی وہ اپنی جگہ سمٹ کر بیٹھ گئی ہے کیونکہ اب پہلا مرحلہ اے این پی کے لیے خود اپنے وفاقی وزیر کے خلاف کاروائی کرنے کا ہے۔

جس کے حوالے سے اے این پی پر دبائو موجود ہے ، تاہم اے این پی سینئر رہنمائوں کے سلسلے میں نرم رویے کا مظاہرہ کررہی ہے۔

اے این پی وہی جماعت ہے جس نے ڈسپلن کے نام پر اپنی پارٹی کی سابقہ صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان جسے پوری پارٹی ''مور بی بی ''کا درجہ دیتی ہے کے خلاف بھی کاروائی کی اور فرید طوفان جیسے طوفانی اور مضبوط جنرل سیکرٹری کو تو ڈسپلن کے نام پر اٹھاکر پارٹی ہی سے باہر کردیا گیا اور صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ان پر دس سالوں تک پارٹی میں واپسی پر بھی پابندی عائد کردی گئی لیکن بلور برادران کے حوالے سے اے این پی کا نرم رویہ ممکنہ طور پر اس وجہ سے ہو کہ جب اے این پی نے اکثریت حاصل کی اور حکومت سازی کی جانب قدم بڑھایا تو امکان ظاہر کیاجارہا تھا کہ وزارت اعلیٰ کا تاج بشیر بلور کے سر پر پہنایا جائے گا۔

تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور وزارت اعلیٰ کے لیے ولی خان کے نواسے امیر حیدرہوتی کا انتخاب کرلیا گیا جس سے یقینی طور پر بلور برادران میں مایوسی بھی پیدا ہوئی اور محرومی بھی اور شاید اسی وجہ سے اے این پی بلور برادران کے حوالے سے نرم رویہ اپناتی آئی ہے ،لیکن اب ایک ایسے موقع پر کہ جبکہ نہ صرف یہ وفاقی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

بلکہ اے این پی کے اندر بھی بلور برادران کے مخالفین کو دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا ہے اور ان کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ،اے این پی کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اس سلسلے میں وہ ایکشن لے اور ایکشن لیا بھی جائے گا کیونکہ اس کے علاوہ اے این پی کے پاس اس وقت کوئی چارہ نہیں ۔

اے این پی نے اپنے وفاقی وزیر کے حوالے سے پارٹی ڈسپلن کے نام پر جو کاروائی کرنی ہے اس سلسلے میں یہ سطور سپرد قلم ہونے تک مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اورکسی مناسب طریقہ کار کی تلاش کی جارہی ہے۔

تاہم دوسری جانب اے این پی کی صوبائی حکومت کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ یوم عشق رسول ﷺ کے موقع پر پشاور میں جس انداز میں توڑ پھوڑ کی گئی اور جس طریقہ سے لاقانونیت کا مظاہرہ کیا گیا اس کے حوالے سے کاروائی کی جائے کیونکہ احتجاج کے نام پر جو انداز اپنایا گیا۔

اس کی وجہ سے نہ صرف سات افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ جو جلائو،گھیرائو اور لوٹ مار ہوئی اس میں صرف پشاور میں ایک ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ مردان میں چرچ کو جلانے کا معاملہ اس سے الگ ہے ،اس صورت حال میں صوبائی حکومت کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کاروائی کرے۔

جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی اور اسی سلسلے میں ابتدائی طور پر ان جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف کاروائی پر غور کیاجارہا ہے جنہوں نے جمعہ کے روز احتجاج اور ریلیوں کی کال دی ۔

اگر حکومت تباہی پھیلانے والے ان عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کرتی تو یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جبکہ یہ اطلاعات تھیں کہ گڑ بڑ ہوسکتی ہے تو اس کے باوجود حکومت اور انتظامیہ نے سخت رویہ کیوں نہیں اپنایا ؟اور کئی مقامات پر اگر پولیس صورت حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو فوری طور پر ایف سی یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مدد کے لیے کیوں نہیں بلایا گیا؟

کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو شاید جو تباہی اور بربادی ہوئی ہے وہ نہ ہوتی اور ایک دن میں پشاور کو ایک ارب روپے کا نقصان برداشت نہ کرنا پڑتا تاہم حکومت نے اس دن سخت رویہ نہیں اپنایا جسے پالیسی کا حصہ قراردیا جارہا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں