مصباح کی گھسی پٹی حکمت عملی سے رمیز راجہ ناخوش
حریف بیٹسمین پٹائی کرنے لگیں تو کپتان کو کچھ مختلف سوچنا چاہیے،سابق اوپنر
مصباح الحق کی گھسی پٹی حکمت عملی سے رمیز راجہ ناخوش ہیں، ان کے مطابق حریف بیٹسمین پٹائی کرنے لگیں تو کپتان کو کچھ مختلف سوچنا چاہیے لیکن مصباح طے شدہ فارمولے پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں، اختتامی اوورز میں رنز روکنے کیلیے اپنے وقت کے بہترین پیسر ہیڈ کوچ وقار یونس کو بولرز پر خاصی محنت کرنا پڑیگی۔
دوسرے ون ڈے پر تبصرہ کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ کیریئر کے آغاز میں وسیم اکرم اور وقار یونس بھی اختتامی اوورز میں رنز روکنے کا ہنر زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن بہت تھوڑے وقت میں میچ کی صورتحال کے مطابق گیندیں پھینکنے میں مہارت حاصل کرلی،انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر کئی بار کھیل کا پانسہ ٹیم کے حق میں پلٹا، بدقسمتی سے موجودہ پیسرز میں سے کوئی ان کے نقش قدم پر چلتا نظر نہیں آتا، اسکواڈ میں شامل بولرز اتنے بھی نئے نہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں اور حریف کی خامیوں کا اندازہ نہ ہونے کا جواز تسلیم کیا جا سکے۔
دراصل وہ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے، سیٹ بیٹسمین کو پریشان کرنے کیلیے عمدہ سلو گیندوں اور یارکر کا استعمال نظر نہیں آرہا، ایسی کوشش بھی کرتے ہیں تو مہارت نہ ہونیکی وجہ سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے، حریف اٹیک کرے تو گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، انھوں نے کہا کہ وہاب کو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عرصہ ہوگیا، پیسر کا ایک سیشن بہترین تو دوسرا بدترین ہوتا ہے۔ رمیز راجہ نے کہا کہ ہمارے بیٹسمین اپنی وکٹ کی قدروقیمت کا احساس نہیں کررہے۔
دوسرے میچ میں حفیظ اور احمد شہزاد شاندار آغاز کے بعد ففٹیز بناکر پویلین لوٹ گئے،ان میں ایک بھی آخر تک کریز پر رہتا تو ہدف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا تھا، شروع سے آخر تک ذمہ دارانہ کھیل ہی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ پاکستان کو ورلڈ کپ سے قبل اپنے تمام ممکنہ کھلاڑی آزما کرحتمی اسکواڈ تشکیل دینا چاہیے، شرجیل کی طرح ایک ہی غلطی بار بار دہرانے والے بیٹسمین مزیدکتنی دیر تک آزمائے جاسکتے ہیں۔
دوسرے ون ڈے پر تبصرہ کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ کیریئر کے آغاز میں وسیم اکرم اور وقار یونس بھی اختتامی اوورز میں رنز روکنے کا ہنر زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن بہت تھوڑے وقت میں میچ کی صورتحال کے مطابق گیندیں پھینکنے میں مہارت حاصل کرلی،انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر کئی بار کھیل کا پانسہ ٹیم کے حق میں پلٹا، بدقسمتی سے موجودہ پیسرز میں سے کوئی ان کے نقش قدم پر چلتا نظر نہیں آتا، اسکواڈ میں شامل بولرز اتنے بھی نئے نہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں اور حریف کی خامیوں کا اندازہ نہ ہونے کا جواز تسلیم کیا جا سکے۔
دراصل وہ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے، سیٹ بیٹسمین کو پریشان کرنے کیلیے عمدہ سلو گیندوں اور یارکر کا استعمال نظر نہیں آرہا، ایسی کوشش بھی کرتے ہیں تو مہارت نہ ہونیکی وجہ سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے، حریف اٹیک کرے تو گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، انھوں نے کہا کہ وہاب کو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عرصہ ہوگیا، پیسر کا ایک سیشن بہترین تو دوسرا بدترین ہوتا ہے۔ رمیز راجہ نے کہا کہ ہمارے بیٹسمین اپنی وکٹ کی قدروقیمت کا احساس نہیں کررہے۔
دوسرے میچ میں حفیظ اور احمد شہزاد شاندار آغاز کے بعد ففٹیز بناکر پویلین لوٹ گئے،ان میں ایک بھی آخر تک کریز پر رہتا تو ہدف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا تھا، شروع سے آخر تک ذمہ دارانہ کھیل ہی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ پاکستان کو ورلڈ کپ سے قبل اپنے تمام ممکنہ کھلاڑی آزما کرحتمی اسکواڈ تشکیل دینا چاہیے، شرجیل کی طرح ایک ہی غلطی بار بار دہرانے والے بیٹسمین مزیدکتنی دیر تک آزمائے جاسکتے ہیں۔