دنیا بھر سے ’’آئس بکٹ چیلینج‘‘ تحریک کسی مذاق سے کم نہیں

کسی مسئلے کے متعلق شعور اجاگر کرنا اور قوم میں بیداری پیدا کرنا ہو تو سر پر برف یا مٹی سے بھری بالٹی اُنڈیلنا حل نہیں۔


فرمان نواز August 28, 2014
کسی مسئلے کے متعلق شعور اجاگر کرنا اور قوم میں بیداری پیدا کرنا ہو تو سر پر برف یا مٹی سے بھری بالٹی اُنڈیلنا حل نہیں. فوٹو اے ایف پی

مجنوں کے متعلق سنا تھا کہ وہ صحرا کی خاک چھانتا تھا اور خاک سر پر ڈالتا تھا لیکن اس ماڈرن دور میں بھی یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ لوگ برف سے بھری پانی کی بالٹی اپنے سر پر اُنڈیل لیتے ہیں ۔ اس کو باقاعدہ تحریک کا نام دیا گیا ہے '' آئس بکٹ چیلینج'' ۔ اس کا مقصد کسی بیماری یا مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا ہوتی ہے۔ ایک شخص برف سے بھری پانی کی بالٹی سر پر اُنڈیل لیتا ہے اور دوسروں کو نام لیکر چیلینج کرتا ہے۔ اور اس طرح مطلوبہ مقصد کیلئے رقم جمع کی جاتی ہے۔ جو چیلینج قبول کرتا ہے اُس سے کم رقم لی جاتی ہے اور جو انکار کر دیتا ہے اُس سے کئی گنا زیادہ رقم لی جاتی ہے۔

اس سال کے وسط میں یہ تحریک زور پکڑ گئی جس کا مقصد ایک اعصابی بیماری ''ایمایوٹروپک لیٹرل سکلیروسس'' کے متعلق عوام میں شعور پیدا کرنا اور اس کیلئے فنڈز جمع کرنا تھا۔ اب تک اس تحریک نے 79ملین ڈالرز جمع کیلئے ہیں۔ اس اعصابی بیماری میں مریض کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ ہاتھ ٹانگوں کی حرکت کنٹرول میں نہیں رہتی اور آخر کار سانس لینے میں دشواری کے باعث مریض کی موت ہو جاتی ہے۔ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد عموماََ 39مہینوں میں مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

بیماری سے بچنا ، دوسروں کو بیماری کی وجوہات سے آگاہ کرنا اور اُس کیلے رقم جمع کرنا اچھا عمل ہے لیکن یہ عمل تو اُن معاشروں میں ہونا چاہئے جہاں تعلیم کی کمی ہو اور لوگوں کے پاس علاج کیلئے مطلوبہ رقم نہ ہو۔ ہندی فلوں میں اکثر یہ سین دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہیروئین اپنی ماں کے علاج کیلئے کلب میں ناچتی ہے یا عزت بیچنے پر مجبور ہوتی اور ہیرو ماں کے علاج کیلئے اپنا ایمان بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔لیکن ہالی ووڈ کی فلموں میں ایسے سین دیکھنے کو نہیں ملتے۔ وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ہر کوئی ٹیکس دیتا ہے اور فری علاج کی سہولت ملتی ہے۔ بلکہ ایسے امراض جو زندگی بھر کا روگ ہوتے ہیں جیسے شوگر اور بلڈ پریشر ، اُن مریضو ں کیلئے حکومتی کارڈز بنائے جاتے ہیں اور وہ سازی زندگی فری ادویات لیتے ہیں۔

پھر ایسے معاشرے میں جہاں حکومت اور دوائیوں کے ادارے تحقیق کیلئے فنڈز مختص کرتے ہیں اور علاج معالجہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں وہاں ایسی چچھوری حرکتیں کیوں کی جاتی ہیں۔ کیا اس سے ایک مرض جو بنیادی طور پر موروثی ہے ختم ہو جائے گا؟ اور اس طرح ایک مرض کیلئے کب تک رقم جمع کی جاسکتی ہے؟ اس تحریک پر ایک تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ وہ لوگ جن کو بلڈ پریشر کی بیماری ہے لیکن وہ اپنے مرض سے بے خبر ہیں وہ برف کا پانی سر پر ڈالیں گے تو اس کے مضر اثرات فوراََ سامنے آسکتے ہیں۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں اور اب ایک شخص اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔

حال ہی میں غزہ میں فلسطینی آبادی کی تباہ کاری کو دُنیا تک پہنچانے کیلئے ایک طالب علم نے فیس بک پیج شروع کیا ہے۔ ویڈیومیں وہ اپنے سر پر مٹی اور پتھروں سے بھری بالٹی سر پر اُنڈیل لیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ایسی تصاویر دھیکنے کو ملی ہیں کہ فلسطینی بچوں ، عورتوں ، مردوں کی لاشوں کو ایک جگہ ڈھیر کی شکل جمع کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے ان معصوموں کو بے دردردی سے اسرائیل نے شہید کیا ہے لیکن فلسطینیوں کو لاشیں اس طرح رکھنا کس نے سکھایا؟ کیا یہ لاشوں کی بے حرمتی نہیں؟ سر پر مٹی اور پتھروں سے بھری بالٹی اُنڈیلنا کیا فلسطین کی تباہ کاری سے مذاق نہیں؟کیا قومیں ایسے آزاد ہوتی ہیں؟



میری نظر میں کسی مسئلے کے متعلق شعور اجاگر کرنا ہواور قوم میں بیداری پیدا کرناہو تو سر پر برف یا مٹی سے بھری بالٹی اُنڈیلنا حل نہیں بلکہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کے مسئلے سے مذاق کے مترادف ہے۔ سنجیدہ مسئلوں کے حل کیلئے سنجیدہ طریقِ کار اپنائے جائیں گے تو بہتر نتائج ملیں گے۔اگر پاکستان میں عورتوں کے حقوق کیلئے یہ تحریک شروع کی گئی تو کون کون سپورٹ کرے گا؟ اگر عمران خان اور طاہر القادری برف سے بھری بالٹیاں سر پر اُنڈیلنا شروع کر دیں تو دھرنے کی کیا حالت ہوگی؟ اگر لاپتہ افراد کے رشتہ دار یہ عمل کریں گے تو کیسے نظر آئیں گے؟ ۔ جواب خود آپ کے پاس ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں