آزادی اظہار یا آزادی آزار

جو شخص ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرے کیا ہم اسے عالم اسلام کے محسن کا خطاب دیں


Asadullah Ghalib September 26, 2012
اسد اللہ غالب

صدر زرداری نے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کو عالمی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، صدر کو یہ بھی کہہ دینا چاہیے تھا کہ یہ آزادی اظہار نہیں بلکہ آزادی آزار ہے۔

مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی گھنائونی سازش ہے، ہمارے ہاں بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ یوم عشق رسولﷺ کے موقعے پر جو کچھ ہوا کیا وہ سب جائز تھا، میں پوچھتا ہوں کہ ملعون سلمان رشدی نے جو کیا، وہ جائز تھا، ٹیری جونز نعوذ باللہ قرآن پاک کو نذر آتش کرتا ہے تو کیا یہ جائز ہے، کوئی بے نام شخص فلم بنا کر نبی پاکﷺ کی توہین کرتا ہے تو کیا یہ جائز ہے۔

ڈنمارک کے اخبار نے حضور پاکﷺ کے خاکے شایع کیے تو یہ جائز تھا، اب فرانسیسی میگزین نے بھی انتہائی مکروہ کارٹون شایع کیے ہیں تو کیا اس کے لیے جائز ہے، نیو یارک میں چند نا معلوم افراد نے نائن الیون کی دہشت گردی کی۔

اس کا انتقام لینے کے لیے افغانستان، عراق اور پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں تو کیا اسے جائز سمجھا جائے۔ کوئی ایک شخص چند افراد کی جان و مال کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ تو دہشت گرد ہوا، تو جو شخص ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرے کیا ہم اسے عالم اسلام کے محسن کا خطاب دیں۔

اسے سر آنکھوں پہ بٹھائیں، یوم عشق رسولﷺ پر یہ بھی اعتراض وارد ہوا ہے کہ اس نے امریکا اور اہل مغرب کے سامنے ہمارا چہرہ داغدار کر دیا، تو کیا امریکا اور اہل مغرب کا چہرہ پچھلے بارہ سال کی دہشت گردی کے بعد بہت خوبصورت اور حسین ہو گیا ہے۔

ہیرو شیما اور ناگاساکی میں اس نے جو ایٹمی تباہی مچا کر خونیں بلا کا روپ پیش کیا تھا، کیا وہ سراہنے کے قابل ہے۔ یوم عشق رسول ﷺ پر کسی نے ایٹم بم تو نہیں چلا دیا، اپنی جانوں کا نذرانہ ہی تو پیش کیا ہے، جان دینے والا جانے، کسی کو اس کے اور اس کے رسول ﷺ کے معاملات میں دخل اندازی کی کیا ضرورت۔

آزادی اظہار بڑی پر فریب اصطلاح ہے، اس کی آڑ میں جو منہ میں آئے بولنا اور لکھنا جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ ایک اصطلاح آزادی عمل کی بھی ہے، اس کا اطلاق پہلے مقصد کے حصول کے بعد کیا جاتا ہے یعنی جب کسی قوم کو آزادی اظہار کے ذریعے بے حس بنا دیا جائے تو پھر اسے آزادی عمل کا چکمہ دیا جاتا ہے کہ اب جو کرنا ہے، کر گزرو۔

کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہو گا۔ امریکی اور مغربی تہذیب دونوں حدیں پار کر چکی اور اب وہ باقی دنیا کو بھی اپنے سانچے میں ڈھالنے پر تلی ہوئی ہے۔ مادر پدر آزادی کا نظریہ مسلم ممالک پر ٹھونسا جا رہا ہے، سعودی عرب میں کوئی اور مسئلہ نظر نہ آئے تو خواتین کی ڈرائیونگ کا ایشو کھڑا کیا جاتا ہے۔

مہاتیر محمد ایک انقلابی حکومت چلا رہا ہو تو اسے ڈکٹیٹر کا نام دے دیا جاتا ہے، مگر سنگا پور میں لی کوان یو پچیس برس تک وزیر اعظم رہے تو اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت قائم ہو جائے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی آڑ میں امریکا ہماری کل امداد بند کر دیتا ہے۔

مگر مارشل لا سے گیارہ برس تک بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی، کیونکہ فوجی حکومت امریکی عزائم کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ آج ملک میں ہیروئن مافیا، کلاشنکوف مافیا اور انتہا پسندی کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہ اسی مارشل لا کا ثمر ہے۔

جمہوریت کا حق امریکا نے اپنے لیے وقف کر رکھا ہے، بے نظیر بھٹو کو جمہوریت کی بحالی کے لیے این آر او کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، صرف ان کی جان لینے کے لیے اور پھر اس این آر او کا قصہ ختم شد! کیونکہ اصل کام تو ہو چکا، ایک مقبول اور جمہوری لیڈر کو شہید کرنا مقصود تھا، وہ پورا ہو گیا۔ یا للعجب!!

کونسا ٹی وی ہے جس کا اینکر اس فضول بحث میں نہیں الجھا ہوا کہ ہم نے یوم عشق رسولﷺ پر اپنا چہرہ بگاڑ لیا، اور کونسا کالم نگار ہے جسے یہ دکھ درد لاحق نہیں کہ ہم نے اپنی نیک نامی پر دھبہ کیوں لگوایا۔

کیا جانیں یہ عشق کی معراج کو جس کا ایک اظہار جنگ احد کے دوران ہوا، کفار نے حضورﷺ کا گھیرائو کر رکھا تھا، آپ کے امتی ایک ایک کر کے جانیں قربان کر رہے تھے، ایک صحابی آگے بڑھے مگر ادب کا لحاظ کرتے ہوئے کہ ان کی پیٹھ آقائے دو جہاںﷺ کی طرف نہ ہو جائے، وہ کفار کی طرف پیٹھ کر کے الٹا دفاعی جنگ میں مصروف ہو کر جام شہادت نوش کر گئے۔

عشق رسولﷺ کا اظہار دیکھنا ہو تو حرم کعبہ سے نکل کر مسجد نبوی میں چلے جائیے، کہاں کعبہ کی فضائیں تسبیح و تحلیل سے گونج رہی ہوتی ہیں اور کہاں مسجد نبوی میں وہ خاموشی کہ سانس کی آواز بھی سنائی نہ دے۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر! یہ عرش خداوندی سے بھی نازک مقام ہے، حد ادب کہ لے سانس بھی آہستہ!! عشق رسولﷺ کا سبق کوئی غازی علم الدین سے لے اور ہر وقت غیرت غیرت کا شور مچانے والے اب ہلکان ہو رہے ہیں کہ یہ ہماری قوم کو کیا ہو گیا، اس نے اپنا چہرہ دنیا کے سامنے کیوں مسخ کر لیا۔

ذرا سنو! غلام احمد بلور کیا کہتے ہیں کہ انھیں قتل پر اکسانے کے جرم میں پھانسی ہو جائے تو کوئی ملال نہیں، آپ کہتے رہیں کہ بلور نے اپنے سنیما ہائوس بچانے کے لیے گستاخ فلم ساز کے قتل پر انعام کا اعلان کیا ہے مگر بلور جانیں اور حضورﷺ جانیں، یہ معاملہ انسانوں کے مابین ہے ہی نہیں، کسی کو کیوں فکر لاحق ہے۔

اور جب امام خمینی نے کہا تھا کہ سلمان رشدی کافر ہے، ملعون ہے، اس کا قتل جائز ہے تو امام خمینی کو کوئی پروا نہیں تھی کہ دنیا کیا کہے گی، کیا دنیا جو کچھ کرتی ہے، وہ امام خمینی کی خوشنودی کے لیے کرتی ہے یا ہمارے اینکروں اور کالم نویسوں کی خوشنودی کے لیے کرتی ہے۔ آج ایران نے گوگل، یو ٹیوب اور جی میل کو بند کر دیا ہے، جس نے جو شور مچانا ہے مچا لے۔

شور تو عوامی جمہوریہ چین کے خلاف بھی مچایا گیا تھا جب اس نے گو گل کو بند کر دیا تھا اور اس کی جگہ ا پنا سرچ انجن بنا کر دکھا دیا، ہمیں بھی کچھ کرنا ہے تو یہی کرنا ہے، میں نے عمران خان کو پکارا ہے تو اسی کام کے لیے کہ اس کے پاس جدید ہنرمندی سے آراستہ نوجوانوں کی فوج ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ نے مجھ پر اعتراض اٹھایا ہے کہ نوجوانوں کی قوت تو ان کے پاس ہے جو ساٹھ برس کے تجربے سے مالا مال ہیں ، سو بسم اللہ ، آپ یہ کام کر دکھایئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میرے واویلے کی منتظر کیوں ہے۔ آگے بڑھیے اور یو ٹیوب کو سبق سکھا دیجیے۔ کچھ کیجیے تو سہی۔

اور میں اس معاشرے سے بھی کہتا ہوں کہ ملک میں سائیبر کرائم کے انسداد کے لیے قانون سازی ہونے دیں، ہر قانوں کو زرداری سے منسوب کر کے کھٹائی میں نہ ڈال دیں، گندے یا دھمکی آمیز ایس ایم ایس صرف زرداری کے لیے خاص نہیں ہیں، ہر ایک ان کا نشانہ بن رہا ہے۔

ای میلوں سے بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، قتل تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں مگر کوئی قانون نہیں کہ کسی کی باز پرس کی جا سکے، یہ قانون غلاظت سے لتھڑے ہوئے ملک فلپائن نے بنا لیا اور اس کے تحت غیر ملکیوں تک کو جیلوں میں بند کر دیا مگر ایک ہم ہیں کہ ہر معاملے پر سیاست کرتے ہیں، پوائنٹ اسکور کرتے ہیں اور جب معاملہ عشق رسولﷺ کا آیا تو ایک بار پھر ہم مفادات کے اسیر بن گئے ہیں۔

ہمیں امریکی ہوا نظر آتا ہے، مسلمانوں کے چھلنی قلب و جگر نظر نہیں آتے۔ جناب! آزادی اظہار اپنی جگہ پر بجا مگر اسے آزادی آزار نہ سمجھ لیجیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں