غزہ پرصیہونی بربریت کے نتیجے میں سیکڑوں بچے ماں باپ کی محبت اورشفقت سے محروم ہوگئے
غزہ کے 3 لاکھ 73 ہزار بچوں کو عام حالت میں زندگی گزارنے کے لیے ماہرین نفسیات کی مدد درکار ہے، اقوام متحدہ
SWAT:
یوں تو 50 روز تک جاری غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی خونی حملے ایک جنگ بندی کی صورت میں تھم گئے ہیں لیکن اپنے پیچھے درد اور غم کی المناک داستانیں چھوڑ گئے ہیں جس میں سب سے زیادہ دردناک داستانیں ان بچوں کی ہیں جو ماں اور باپ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوگئے جب کہ اس بربریت نے 500 ماؤں کے جگر گوشے بھی چھین لیے ہیں۔
اسرائیلی میزائلوں نے یوں تو کئی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تاہم مٹی کے ان ڈھیروں پر روتے بچے اپنے والدین کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھرتے نظر آتے ہیں۔ 11 سال کے عامر حماد کا کہنا تھا کہ وہ چار بہن بھائی ہیں اور ان حملوں میں اس کے والدین شہید ہوگئے، ماں باپ کی جدائی غم میں ڈوبے عامر کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر تھا کہ ہم بہن بھائی بھی اپنے والدین کے ساتھ شہید ہو جاتے۔
عامر حماد نے کہا کہ اب مجھے ہی اپنے بھائیوں کی دیکھ بھال کرنا ہوگی لیکن مجھے فکر ہے کہ یہ سب کیسے ہوگا۔ عامر کے خاندان میں اس کی دادی بھی زندہ ہے جن کا کا کہنا تھا کہ وہ ان بچوں کی دیکھ بھال کرے گی انہیں اسکول بھیجے گی لیکن وسائل کہاں سے آئیں گے۔
8 سالہ بسان بھی اس جنگ میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے محروم ہوگئی، اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہم سب گھر میں بیٹھے تھے کہ اسرائیلی طیاروں نے ہمارے گھر کو نشانہ بنایا جس میں میرے ماں باپ اور بھائی شہید ہوگئے اور اب وہ جنت میں ہیں۔ بسان 6 گھنٹے تک ملبے تلے بی رہی اور جب اسے نکالا گیا تو وہ شدید زخمی تھی لیکن اب اس کی نظریں ماں کے پیار، باپ کی شفقت اور بھائیوں کی متلاشی ہیں۔ بسان کی 28 سالہ بہن اسے اپنے گھر لے گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ بسان ابھی تک حملے کے خوف کے زیر اثر ہے اور وہ ٹھیک طرح سو نہیں پاتی ۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے 3 لاکھ 73 ہزار بچوں کو عام زندگی گزارنے کے لیے ماہرین نفسیات کی مدد درکار ہے، غزہ بھر میں صرف ایک یتیم خانہ بچا ہے جس میں 300 کے قریب بچے موجود ہیں۔ یتیم خانے کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس میں اب مزید بچوں کو رکھنے کی گنجائش نہیں۔
ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور زندگی کے تلخ ایام کیسے گزاریں گے یہ تووہ خود بھی نہیں جانتے لیکن ا ن کے معصوم چہرے اور ترستی آنکھیں کسی مسیحا کی متلاشی ہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی طیارے 50 روز تک غزہ پر بم برساتے رہے جس میں 2 ہزار 140 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں 494 بچے بھی شامل ہیں۔
یوں تو 50 روز تک جاری غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی خونی حملے ایک جنگ بندی کی صورت میں تھم گئے ہیں لیکن اپنے پیچھے درد اور غم کی المناک داستانیں چھوڑ گئے ہیں جس میں سب سے زیادہ دردناک داستانیں ان بچوں کی ہیں جو ماں اور باپ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوگئے جب کہ اس بربریت نے 500 ماؤں کے جگر گوشے بھی چھین لیے ہیں۔
اسرائیلی میزائلوں نے یوں تو کئی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تاہم مٹی کے ان ڈھیروں پر روتے بچے اپنے والدین کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھرتے نظر آتے ہیں۔ 11 سال کے عامر حماد کا کہنا تھا کہ وہ چار بہن بھائی ہیں اور ان حملوں میں اس کے والدین شہید ہوگئے، ماں باپ کی جدائی غم میں ڈوبے عامر کا کہنا تھا کہ اس سے بہتر تھا کہ ہم بہن بھائی بھی اپنے والدین کے ساتھ شہید ہو جاتے۔
عامر حماد نے کہا کہ اب مجھے ہی اپنے بھائیوں کی دیکھ بھال کرنا ہوگی لیکن مجھے فکر ہے کہ یہ سب کیسے ہوگا۔ عامر کے خاندان میں اس کی دادی بھی زندہ ہے جن کا کا کہنا تھا کہ وہ ان بچوں کی دیکھ بھال کرے گی انہیں اسکول بھیجے گی لیکن وسائل کہاں سے آئیں گے۔
8 سالہ بسان بھی اس جنگ میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے محروم ہوگئی، اس نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہم سب گھر میں بیٹھے تھے کہ اسرائیلی طیاروں نے ہمارے گھر کو نشانہ بنایا جس میں میرے ماں باپ اور بھائی شہید ہوگئے اور اب وہ جنت میں ہیں۔ بسان 6 گھنٹے تک ملبے تلے بی رہی اور جب اسے نکالا گیا تو وہ شدید زخمی تھی لیکن اب اس کی نظریں ماں کے پیار، باپ کی شفقت اور بھائیوں کی متلاشی ہیں۔ بسان کی 28 سالہ بہن اسے اپنے گھر لے گئی ہے، اس کا کہنا ہے کہ بسان ابھی تک حملے کے خوف کے زیر اثر ہے اور وہ ٹھیک طرح سو نہیں پاتی ۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے 3 لاکھ 73 ہزار بچوں کو عام زندگی گزارنے کے لیے ماہرین نفسیات کی مدد درکار ہے، غزہ بھر میں صرف ایک یتیم خانہ بچا ہے جس میں 300 کے قریب بچے موجود ہیں۔ یتیم خانے کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس میں اب مزید بچوں کو رکھنے کی گنجائش نہیں۔
ان بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور زندگی کے تلخ ایام کیسے گزاریں گے یہ تووہ خود بھی نہیں جانتے لیکن ا ن کے معصوم چہرے اور ترستی آنکھیں کسی مسیحا کی متلاشی ہیں جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی طیارے 50 روز تک غزہ پر بم برساتے رہے جس میں 2 ہزار 140 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں 494 بچے بھی شامل ہیں۔