سیاسی ساختوں کی تشکیل پہلاحصہ
یہ وہ حقیقی تضاد ہے جو وقت کی تبدیل ہوتی ہوئی ساخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس عرصہ کا پیدا کردہ ہے...
جمہوریت کسی مخصوص عرصہ تک حکمرانی برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے، بلکہ عوامی رضا اور خواہشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عملی سرگرمی انجام دینے کا نام ہے مگر عملی سرگرمی کے تحت کیا کیا ذیلی سرگرمیاں درکار ہوسکتی ہیں۔ اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے،کیونکہ جمہوریت کا مرکزی معنی یا جوہر تلاش کرکے لانا اور اس کو کسی مادی شکل یا خیالی تصورکی جامد ساخت میں مسلط کردینا ممکن نہیں ہے،کہ وقت ایسی ساخت ہے جو مسلسل متحرک رہتی ہے جوتبدیلی کے عمل سے خود بھی گزرتی ہے اور اپنے تحت دوسری ساختوں کو بھی تبدیل کرتی چلی جاتی ہے ۔ یعنی تبدیلی وقت کا بامعنی استعارہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف سماج اور معاشروں کی ضرورتیں اور مطالبات بھی مختلف ہوتے ہیں،جو وقت کی آغوش میں تبدیلی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔کسی بھی معاشرے کی جمہوری ساختوں میں، مذہبی، سماجی و ثقافتی اور معاشی عناصر اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں جو سیاسی ساختوں کو متشکل کرتے ہیں، حتی کہ جمہوریت اپنے آپ میں کئی قسم کی ذیلی ساختوں میں منقسم ہوتی ہے۔ نمایندہ جمہوریت جو عوامی نمایندگی کے تصور پر مبنی ہے اس میں نمایندگی کا عنصر مرکزی اور بنیادی ہوتا ہے جو ایک لیڈر اور عوام کے مابین پُل کی حیثیت رکھتا ہے یہ پُل عوامی خواہشوں کی اینٹوں پر مبنی ہوتاہے جسے اعتماد کے سیمنٹ سے تعمیر کیا جاتا ہے۔
یہ پل وہ عرصہ ہوتا ہے جو ایک لیڈرکے الیکشن جیتنے سے لے کر حکومت کی معیاد پوری ہونے تک برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے کہ حاکمیت کا سفر درحقیقت اسی پُل کو پار کرنے کا سفر ہوتا ہے جسے ایک لیڈر عوامی قوت اور اپنے کردار کی مضبوطی کے انسلاک سے برقرار رکھ کر سیاسی دریا کو عبور کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ایک لیڈر کا یہ سفر عوام کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اور بہترحکمت عملی کے نتیجے میں قائم ہونے والی باہمی ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ اگرچہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ عوامی رضا کے مساوی اوربہت سے سیاسی ، معاشی ،مذہبی و ثقافتی عوامل بھی حکمرانوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہورہے ہیں ،مگر ان اثرات کی موجودگی میں بھی ایک لیڈر کی کامیا بی کے انحصار میں عوامی رضاکا تصور مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
عوامی رضا کو نظر انداز کرکے آگئے بڑھنا کسی بھی لیڈر کے لیے موجودہ وقت میں مشکل ہوچکا ہے، کیونکہ بدلتے وقت کی تبدیل ہوتی ساختوں نے جمہوریت کی ساختوں اور ان میں عمل آراء کرداروں کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے ممالک میں عوامی عمل اور ردِعمل بھی تبدیل ہوچکا ہے، مگر یہ حکمران طبقات پر منحصر ہے کہ وہ اس تبدیلی سے کیسے کامیابی سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوری ساختوں کے مطابق حکمرانوں کے نزدیک عوامی عمل اور سرگرمی کا وقت وہ عرصہ ہے جو الیکشن میں ووٹ ڈالنے تک محدود رہا ہے ،جو درحقیقت حکمران پارٹیوں کے درمیان مقابلے کا عرصہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد ان کے خیال سے عوام کا کردار جمہوری ساختوں میں ختم ہوجاتا ہے جو در اصل عوام سے ان کی خواہشات ، مطالبات کے مطابق ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے عرصے کا آغاز ہوتا ہے اور قومیو سیاسی فیصلوں میں ان کی رضا مندی کے لیے درکار اور ناگزیر ہونا چاہیے مگر الیکشن کے بعد پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے نزدیک جمہوریت پانچ برس تک ریاستی مشنری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور ان مفادات کی کامیابی سے حصول کے لیے درکار حکومتی طاقت کو بچانے کے لیے بین الاقوامی سیاسی غالب ساختوں اور کھلاڑیوں کے ماتحت رہتے ہوئے اس عرصہ کی تکمیل کا نام ہے۔مگر اس وقت پاکستان کی سیاسی ساختیں جو بین الاقوامی سیاسی و سماجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ساختوں کے زیر اثر ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار ہیں اور تبدیلی کے عمل سے بھی دوچار ہیں ۔
ان میں رہتے ہوئے جمہوریت کے نام پر ایک مخصوص معیاد کو پورا کرنا عوامی رضا کے بغیر موجودہ حکمرانوں کے لیے مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پرنظر ڈالیں تو کچھ عجیب کھیل اور کھلاڑی نمایاں ہیں جن کے کردار کو سمجھنے کے لیے کئی قسم کے تبصرے، خدشات اور امکانات پر مبنی تحاریر یقنی اور بے یقینی کے دھاروںمیں بٹی ہوئی آراء سامنے آرہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور عوامی و سماجی گروہ مختلف حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو موجودہ حکمران کی خواہشات کی نمایندگی کرتے ہوئے اس بات پر مصرہیں کہ منتخب حکومت کو اپنی معیاد ہر صورت پوری کرنی چاہیے۔
لہذا وہ اپنی روایتی سیاسی چالوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کررہے ہیں جو تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی و سماجی ساختوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے ایک طرف تو بری طرح سے ان سے ٹکڑا کر شکست و ریخت کا شکار ہورہے ہیںتو دوسری طرف روایتی حزبِ اختلاف کی بجائے ،جو ماضی میں اکثر عہدوں اور وزارتوں کی پیشکش کے نتیجے میں مفاہمتی کردار اپناتے ہوئے اپنے اختلاف کو بھول حکومتی پالیسیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں معاونت کیا کرتی تھی، کے برعکس موجودہ حکمرانوں کوعمران خان اور حزبِ اختلاف کی نئی ساختوں کا سامنا ہے جو سیاسی ساخت کی کلیت میں ابھرنے والا ایسا 'تخالف' ہے جسے پہلے طاقت ور نے خود اپنے مقابل کسی حکمتِ عملی کے تحت مصنوعی سطح پر پیدا نہیں کیا۔
بلکہ یہ وہ حقیقی تضاد ہے جو وقت کی تبدیل ہوتی ہوئی ساخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس عرصہ کا پیدا کردہ ہے جسے حکمران ریاستی طبقہ کسی 'مفاہمت' کی خیالیات کے تحت مختلف عہدوںاور وزارتوں کی پیشکش کر کے اپنے اندر جذب کرنے میں بری طرح ناکام اس لیے ہورہا ہے کہ یہ مختلف حزبِ اختلاف اور سیاسی کردار عوامی خواہشات کی بنیاد پر اپنی الگ حقیقی شناخت مستحکم کرنے کا شاید ارادہ رکھتا ہے۔ جس نے سب کو اس لیے حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ یہ ہماری ریاست کی روایتی سیاسی ساختوں کی بجائے اپنی خیالی اور عملی مادی سرگرمی میں پاکستان کی سیاسی تاریخی ساخت میںغیر روایتی اور مختلف ساخت پر مبنی ہے۔
تیسری طرف سماجی و مذہبی ساختوں کی آغوش میں جنم لینے والا نیا مذہبی وسماجی کم سیاسی کردار ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے جو نمایندہ جمہوریت کے عملی تصور اور قانونی آئیڈیالوجی کے عملی اطلاق کی عوامی خواہش کی بنیاد پر مستحکم ہو رہا ہے ۔یہ ایسا اختلاف ہے جو ریاستی کلیت کی روایتی سیاسی ساختوں کو توڑ کر ابھرا ہے اور کسی صورت اس کلیت کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس کے تحت واحد مکمل طاقت پر مبنی کوئی سیاسی حکمران یاسیاسی گروہ اپنے مخالفین کو کسی بھی قسم کی مفاہمتی آئیڈیالوجی کے تحت کچھ پیشکش کرکے اپنے ساتھ ملا کر خود کو مزید مضبوط کر لے اور اپنے ہر تخالف کو طاقت کے یا مفاہمت کے بل بوتے پر اپنے اندر جذب کرتا چلا جائے اور کسی بھی قسم کے اچھے یا برے فیصلوں میں واحد مختار ہو ۔لہذا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ریاستی کلیتی جبری ساختوں میں ابھرنے والے حقیقی تخالف ہیں جنھوں نے ریاستی کلیت کی واحد طاقت کی ساخت کو منتشر کر رکھا ہے۔
اس انتشار کے نتیجے میں عوام اور سیاسی حکمران اور رائے عامہ بھی دو واضح حصوں میں منقسم ہوچکی ہے ایک رائے حکومتی گروہ کی طرف سے یہ بنائی جا رہی ہے کہ دونوں سیاسی و سماجی لیڈر کسی مخصوص ایجنڈے پر گامزن ہیں اور ان اس مظہر کے پیچھے کوئی ان دیکھی اندرونی یا بیرونی طاقت کا ہاتھ ہے جو جمہوریت کے اس عمل کو سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ سیاسی حکمرانوں کے پانچ سالہ عرصہ کی تکمیل کا نام ہے ۔ دوسری طرف ایک رائے یہ ہے کہ یہ جمہوریت در حقیقت آمریت ہے جو جمہوریت کا لبادہ پہن کر آمریت اور کرپٹ عناصر کو ہی مضبوط کر رہی ہے لہذا اس جمہوری ساخت کی توڑ پھوڑ اس لیے ضروری ہے کہ حقیقی جمہوریت کا قیام اور انصاف پر مبنی ساختوں کی نئی تشکیل ممکن ہوسکے۔
اس بحث سے قطعِ نظر کہ انصاف کیا ہے یا حقیقی جمہوریت کیا ہے ۔ اس کا فیصلہ کیسے اور کون کرے گا یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ جن جمہوری ساختوں کی تشکیل کا مطالبہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کر رہے ہیں وہ دونوں ہی لبرل جمورہت کی نمایندہ ساختیں ہیں جو سرمایہ داری نظام کے انسانی خون سے لبریز بہتے ہوئے بے حس اور لہو لہو دریا کے ان ٹوٹ دھارے ہیں مگر ان دونوں لیڈروں کی بات اس لیے سنی جارہی ہے اور عوام کی بہت بڑی تعداد اس لیے ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے کہ یہ جن ساختوں کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں ان میں کم از کم ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضرورتوں کی فراہمی مغرب میں ممکن بنا دی گئی ہے جو انقلاب کی راہ روکنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے، یعنی ''بے روزگار کو اگر روز گار نہ ملے تو حکومت اس کو زندگی کی روزمرہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مدد فراہم کرے ... ''یہ الفاظ عمران خان کی تقاریر کا لازمی حصہ ہیں۔
(جاری ہے)