احتجاجی سیاست‘عوامی مسائل نظر انداز

پورے ملک میں اضطراب کی سی کیفیت ہے۔ہرمحب وطن دگرگوں ہوتے حالات پر پریشان ہے ۔۔۔


عثمان حسن زئی August 29, 2014

KARACHI: ملک اس وقت شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد میں دھرنوں کی وجہ سے معیشت کا حب، کراچی بھی شدید متاثر ہے۔تحریک انصاف کے تحت شہر قائد کے مختلف مقامات پر بھی دھرنے دیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی سیاسی طاقت کے اظہار کے لیے میدان میں آگئی ہیں، مختلف شہروں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام ودیگر جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ جس کے باعث کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پورے ملک میں اضطراب کی سی کیفیت ہے۔ہرمحب وطن دگرگوں ہوتے حالات پر پریشان ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اب تک قومی خزانے کو 700 ارب سے زاید کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان کا مجوزہ دورہ منسوخ کردیا ہے، جب کہ مالدیپ اور سری لنکا کے صدور بھی اپنے دورے منسوخ کرچکے ہیں۔ ڈالر کے نرخ میں بھی دھرنوں کے باعث مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ڈالر کی قیمت 103 روپے تک جا پہنچی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اورطاہر القادری کے بیشتر مطالبات درست ہیں، تاہم ان کو منوانے کے لیے غلط طریقہ اختیار کیا گیا۔2013 کے عام انتخابات کے بعد عمران خان نے انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی، آج تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات اور الیکشن کو شفاف بنانے پر متفق ہیں۔ یہ کریڈٹ ہمیں عمران خان کو دینا پڑے گا۔کیوں کہ اس سے قبل کے انتخابات میں دیگر جماعتیں دھاندلی کا شور تو مچاتی تھیں مگر انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے ایسی احتجاجی تحریک کسی نے نہیں چلائی۔

اسلام آباد دھرنے میں عمران خان نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا، جسے سیاسی حلقوں اور عوام نے زیادہ پذیرائی نہیں دی۔کیوں کہ لوگ نواز شریف حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں۔ انھیں آزمانا چاہتے ہیں۔

انھیں اپنی کارکردگی دکھانے اور قوم کے مسائل حل کرنے کے لیے مہلت دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی غلطی یہ رہی کہ انھوں نے وزیر اعظم کے استعفیٰ پر مسلسل اصرار کیا اور اس حد تک آگے چلے گئے کہ ان کے لیے پھر پیچھے ہٹنا ممکن نہ رہا۔انھوں نے نواز شریف کے خلاف ایسے نازیبا اورغیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے، جسے پسند نہیں کیا گیا۔جو لوگ پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایتی نہیں تھے یا غیر جانبدار تھے عمران خان کی ایسی تقریروں کی بدولت ان کی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ بڑھ گئی ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عمران خان کے خلاف کوئی متنازع بیان نہیں دیا، نہ ہی دھرنے کے شرکا کے خلاف طاقت استعمال کی، اس طرح نواز شریف نے عمران خان پر اپنی اخلاقی برتری قائم کردی۔ یہ عمران خان کی متضاد حکمت عملی ہی تھی جس سے وہ سیاسی منظر نامے میں تنہا ہوتے گئے۔ آج پارلیمنٹ کی ساری جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں اور انھیں غیر مشروط حمایت کا یقین دلارہی ہیں۔

جب یہ طوفان گزر جائے، گرد بیٹھ جائے، انھیں جائزہ لینے کی فرصت ملے تو پتا چلے گا کہ عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف نے کس قدر کم نفع پایا اور کھویا بہت زیادہ... تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ چند ہزار افراد کے بل بوتے پر منتخب وزیراعظم سے استعفا مانگنا اور ان کے گھر پر دھاوا بولنے کی دھمکیاں دینا انتہائی نامناسب طرز عمل ہے۔ اس طرز کی سیاست کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

ملک میں دھرنوں کی سیاست عروج پر ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک حکومت سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں، جب کہ حکومت کی ساری توانائیاں مارچ کے قائدین سے نمٹنے اور اپنا اقتدار بچانے پر صرف ہورہی ہیں۔ اس وقت تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات دھرنوں کی کوریج میں مصروف ہیں۔ جب کہ عوام کے اصل مسائل کو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا۔

شمالی وزیرستان کے 10لاکھ آپریشن متاثرین کس حال میں ہیں؟ ان کی ضروریات زندگی کس طرح پوری ہورہی ہیں، ان پر کیا بیت رہی ہے؟ اس طرف کوئی نہیں دیکھ رہا، بس صرف فوج کو ہی ان کے معاملات دیکھنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔ یہ وقت آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کا نہیں، بلکہ اتحاد واتفاق سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

کراچی میں ایک بار پھر وہ صورت نظر آرہی ہے جو اب سے چند ماہ قبل عام طور پر نظر آتی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹارگٹڈ آپریشن میں مصروف ہیں، لیکن دہشت گردوں نے بھی شاید جوابی آپریشن شروع کردیا ہے اور وہ دن دہاڑے اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بناکر فرار ہوجاتے ہیں۔ کراچی کی دن بدن خراب ہوتی صورت حال سے حکومت کا وہ عزم جو آپریشن شروع کرتے وقت ظاہر کیا گیا تھا اب بری طرح متاثر ہوتا نظر آرہا ہے ۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں خوف و دہشت کے خاتمے، امن و امان کے قیام اور اقتصادی و تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن لوگ ابھی پوری طرح سکھ کا سانس بھی لینے نہ پائے تھے کہ قتل و غارت کی نئی لہر آگئی، لیکن حکومت اور اپوزیشن جماعتیں آپس میں دست وگریباں ہیں۔

ان ہنگاموں میں کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ اس حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانا تھے، ان کا کیا ہوا؟ہمارے منتخب نمایندے شاید بلدیاتی انتخابات کراناہی نہیں چاہتے۔ کم از کم انتخابات کے انعقاد کے لیے حتمی تاریخ کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کے ٹال مٹول اور بلدیاتی انتخابات کے معاملے کو مسلسل لٹکائے رکھنے سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے آمروں کے ادوار میں تو بلدیاتی ادارے قائم رہے اور آمر انھیں عوام سے رابطے کے لیے پارلیمنٹ کا متبادل قرار دیتے رہے۔

جب کہ منتخب جمہوری حکمران انجانے خدشات کے پیش نظر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد سے بوجوہ گریز اور اجتناب برتتے رہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلدیاتی ادارے حقیقی عوامی جمہوریت کے فروغ کے لیے نرسری کا درجہ رکھتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کا نصب العین بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناکر نچلی سطح پر عوام کو شراکت اقتدار کا احساس دلانا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں