خدارا کراچی کا امن بحال کریں
ہم اکثر اختتام ہفتہ اپنے احباب اور دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات کو گھر واپس آیا کرتے تھے...
ISLAMABAD:
ایک وقت وہ بھی تھا جب شہر قائد کراچی امن کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ لوگ رات گئے شادی اور دیگر تقریبات سے نہایت آرام و اطمینان کے ساتھ بحفاظت اپنے اپنے گھروں کا رخ کرتے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی کسی کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
ہم اکثر اختتام ہفتہ اپنے احباب اور دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات کو گھر واپس آیا کرتے تھے اور کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ شہر میں نہ کوئی لسانی تفریق تھی اور نہ فرقہ ورانہ منافرت۔ سب لوگ باہم شیر و شکر ہو کر ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح پیار و محبت کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے سے سرشار ہو کر سکھ، چین کی زندگی گزارتے تھے۔
پھر جیسے اس شہر کو کسی کی نظر بد لگ گئی اور اس کے گلی کوچے خون ناحق سے سرخ ہونا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خون ریزی کے اس خوفناک سلسلے کے رکنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ گزشتہ روز کراچی میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق ہو گئے۔
بد قسمتی سے کراچی میں بد امنی یا بے امنی کے اس لا متناہی منحوس سلسلے کا آغاز 1985ء میں سڑک کے ایک حادثے سے ہوا تھا جس کے بعد شہر میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک طوفان پھوٹ پڑا جس نے بہت جلد لسانی فساد کی صورت اختیار کر لی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، قتل و غارت گری ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''گربہ کشتن روز اول'' کراچی کے حالات کے حوالے سے یہ کہاوت حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ واقعی اگر حکومت اور انتظامیہ نے شروع ہی میں اصلاح احوال کی جانب خلوص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی ہوتی اور مخلصانہ کوشش کی ہوتی تو حالات اتنے خطرناک اور پیچیدہ کبھی نہ ہوتے۔ صورت حال کی اس خرابی اور ابتری کے لیے کسی مخصوص حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر جانب داری اور زیادتی ہو گی، سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ہر حکومت نے محض اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور اپنی اپنی مدت پوری کر کے چلتی بنی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے حالات بگڑتے گئے اور معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب ملک کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں لوگوں کا کراچی کا رخ کرنے کا سلسلہ بھی سست ہونے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا۔
دوسری جانب کراچی کی جانب سے بے رخی اور بے نیازی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے اس شہر کے وسائل کم سے کم اور مزید ناکافی ہوتے چلے گئے۔ صحت اور صفائی کی سہولتیں بری طرح متاثر ہوتی چلی گئیں۔ اور طرح طرح کے مافیاز جنم لیتے رہے جس کے باعث جرائم کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اتنا خوفناک اضافہ ہو گیا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی اور نہ کسی کے مال کو تحفظ حاصل رہا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ شہر جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا دنیا کا خطرناک ترین شہر بن گیا۔ کیفیت یہ ہے کہ بزبان نظیر اکبر آبادی:
قزاق اجل کا لوٹے ہے، دن رات بجا کر نقارہ
آپ کسی شاہراہ سے گزر رہے ہوں، یا گلی کوچے سے، ایک خوف آپ کا ہر جگہ پر تعاقب کرتا رہتا ہے اور مکمل عدم تحفظ کا احساس آپ کو ہر آن ستاتا رہتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والا ہر شہری اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور کفن سر سے باندھ کر نکلتا ہے۔ اگر آپ صحیح سلامت واپس اپنے گھر پہنچ جائیں تو سجدہ شکر ادا کریں۔
شہر کی سڑکیں عملاً قتل گاہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہیں بن گئیں ہیں جہاں عام شہری خود کو بالکل نہتا اور بے بس پاتا ہے۔ پولیس کی نفری اول تو کراچی کی آبادی کے تناسب سے انتہائی کم اور ناکافی ہے اور دوسری جانب سیاسی عمل دخل اور اثر و رسوخ نے اس کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ہمارے علم میں ایسے کئی معاملات ہیں جن میں فرض شناس اور دیانت دار پولیس افسران نے بعض مجرموں کی سر کوبی کرنے کی ہمت و جرأت کی مگر جب یہ عقدہ کھلا کہ انھیں انتہائی با اثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے تو انھوں نے محض اپنی کھال بچانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ہماری پولیس کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی خاصی بڑی تعداد اکثر و بیشتر وی وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات رہتی ہے۔
کراچی کا بے ہنگم ٹریفک بھی اس شہر کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ آئے دن کے جلسوں جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں نے ٹریفک کے نظام کو بد سے بدتر بنا دیا۔ آپ جب اپنے گھر یا دفتر سے اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو آپ کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں اور کب تک کوئی جلوس یا ریلی آپ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس ناگہانی صورت حال کے نتیجے میں ٹریفک کا نظام اس بری طرح سے درہم برہم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اسے نارمل ہونے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور ٹریفک پولیس اس کے آگے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔
وی وی آئی پی موومنٹ بھی ٹریفک کو معطل اور درہم برہم کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے جس کے نتیجے میں ہم نے نزع کی حالت میں مریضوں کو ایمبولینس میں دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے وی وی آئی پی حضرات عام شہریوں پر رحم کھاتے ہوئے مصروفیت کے اوقات میں سڑکوں کے راستوں سے سفر کرنے کے بجائے ہیلی کاپٹر کا استعمال کریں؟ احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے منتظمین کی خدمت میں بھی بصد احترام یہی گزارش ہے کہ وہ ممکنہ حد تک اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے بے چارے عام شہریوں کو خوامخواہ تکلیف نہ پہنچے۔
ہمارے ٹریفک کے نظام کی خرابی کے لیے وہ شہری بھی بڑی حد تک ذمے دار ہیں جو انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ ٹریفک کے قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے۔ ون وے کی پابندی کی پرواہ نہ کرنا اور ٹریفک سگنل کو توڑتے ہوئے بے نیازانہ گزر جانا تو ہمارے یہاں معمول کی بات ہے۔ گستاخی معاف ہمارے موٹر سائیکل سواروں کی غالب اکثریت نے تو ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں بکھیرنا اپنی عادت بنا رکھی ہے۔ ان میں سے ہر شخص خود کو موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے والا چیمپئن سمجھتا ہے۔
اس غلط روش کے باعث شہر میں جگہ جگہ حادثات ہوتے رہتے ہیں، جنھیں ٹریفک کے قوانین کی پابندی کے ذریعے با آسانی روکا جا سکتا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کراچی کی پولیس کے غیر موثر ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ضرورت کے مقابلے میں اس کی نفری بہت کم اور ناکافی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی پولیس کی کل تعداد 30 ہزار افراد پر مشتمل تھی جب کہ شہر کی آبادی دگنی ہو جانے کے بعد اس میں اس تناسب سے اضافے کے بجائے محض چند ہزار کا ہی اضافہ ہوا ہے ۔
جس کی حیثیت آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ البتہ رینجرز فورس کا اضافہ ضرور ہوا ہے مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے پولیس فورس کے مورال میں بلندی کے بجائے گراوٹ آئی ہے۔ کیوں کہ پولیس والے انھیں اپنا حلیف سمجھنے کے بجائے اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ تاہم اس بحث میں پڑے بغیر ہماری گزارش ہے کہ پولیس کی نفری میں دو کروڑ کی آبادی والے شہر کے تحفظ کے تقاضوں کے پیش نظر خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ پولیس فورس کے مورال کو بلند کرنے کے لیے جلد از جلد مناسب اقدامات بھی کیے جائیں جن میں جرائم کی بیخ کنی کرنے والے ایماندار اور بلند حوصلہ جوانوں اور افسران کی ترقی اور انھیں انعام و اکرام سے نوازنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ہمارے پراسیکیوشن کے شعبے کا ریکارڈ بھی بہت اچھا اور تسلی بخش نہیں ہے جو بلا شبہ فوری اصلاح کا متقاضی ہے۔ اس سے بھی برا حال ہماری جیلوں کا ہے جس کے تذکرے آئے دن اخباروں میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ہماری عدالتوں کا انفرا اسٹرکچر بھی وسائل اور کارکردگی کے لحاظ سے اصلاح طلب ہے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ان کے تناسب سے ججوں کی تعداد بہت کم اور عملاً ناکافی ہے۔
اس کے علاوہ ججوں اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کا نظام بھی بہت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے جس کی جانب فوری اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کراچی جسے شہر قائد ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے، نہ صرف ماضی میں وطن عزیز کا دارالخلافہ رہ چکا ہے عملاً پاکستان کی صنعتی اور کاروباری راج دھانی ہے۔ یہ محض ایک شہر نہیں بلکہ منی پاکستان ہے۔ یہ پاکستان کی ترقی کا محور اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جسے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کراچی محفوظ و مضبوط ہے تو گویا پاکستان محفوظ و مضبوط ہے۔ اس لیے صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ کراچی کے مکمل تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں۔
ایک وقت وہ بھی تھا جب شہر قائد کراچی امن کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ لوگ رات گئے شادی اور دیگر تقریبات سے نہایت آرام و اطمینان کے ساتھ بحفاظت اپنے اپنے گھروں کا رخ کرتے اور کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی کسی کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
ہم اکثر اختتام ہفتہ اپنے احباب اور دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات کو گھر واپس آیا کرتے تھے اور کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ شہر میں نہ کوئی لسانی تفریق تھی اور نہ فرقہ ورانہ منافرت۔ سب لوگ باہم شیر و شکر ہو کر ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح پیار و محبت کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے سے سرشار ہو کر سکھ، چین کی زندگی گزارتے تھے۔
پھر جیسے اس شہر کو کسی کی نظر بد لگ گئی اور اس کے گلی کوچے خون ناحق سے سرخ ہونا شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خون ریزی کے اس خوفناک سلسلے کے رکنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ گزشتہ روز کراچی میں 4 پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں بحق ہو گئے۔
بد قسمتی سے کراچی میں بد امنی یا بے امنی کے اس لا متناہی منحوس سلسلے کا آغاز 1985ء میں سڑک کے ایک حادثے سے ہوا تھا جس کے بعد شہر میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک طوفان پھوٹ پڑا جس نے بہت جلد لسانی فساد کی صورت اختیار کر لی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، قتل و غارت گری ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''گربہ کشتن روز اول'' کراچی کے حالات کے حوالے سے یہ کہاوت حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ واقعی اگر حکومت اور انتظامیہ نے شروع ہی میں اصلاح احوال کی جانب خلوص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی ہوتی اور مخلصانہ کوشش کی ہوتی تو حالات اتنے خطرناک اور پیچیدہ کبھی نہ ہوتے۔ صورت حال کی اس خرابی اور ابتری کے لیے کسی مخصوص حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر جانب داری اور زیادتی ہو گی، سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ہر حکومت نے محض اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور اپنی اپنی مدت پوری کر کے چلتی بنی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے حالات بگڑتے گئے اور معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب ملک کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں لوگوں کا کراچی کا رخ کرنے کا سلسلہ بھی سست ہونے کے بجائے تیز سے تیز تر ہوتا چلا گیا۔
دوسری جانب کراچی کی جانب سے بے رخی اور بے نیازی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے اس شہر کے وسائل کم سے کم اور مزید ناکافی ہوتے چلے گئے۔ صحت اور صفائی کی سہولتیں بری طرح متاثر ہوتی چلی گئیں۔ اور طرح طرح کے مافیاز جنم لیتے رہے جس کے باعث جرائم کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اتنا خوفناک اضافہ ہو گیا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی اور نہ کسی کے مال کو تحفظ حاصل رہا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ شہر جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا دنیا کا خطرناک ترین شہر بن گیا۔ کیفیت یہ ہے کہ بزبان نظیر اکبر آبادی:
قزاق اجل کا لوٹے ہے، دن رات بجا کر نقارہ
آپ کسی شاہراہ سے گزر رہے ہوں، یا گلی کوچے سے، ایک خوف آپ کا ہر جگہ پر تعاقب کرتا رہتا ہے اور مکمل عدم تحفظ کا احساس آپ کو ہر آن ستاتا رہتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والا ہر شہری اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور کفن سر سے باندھ کر نکلتا ہے۔ اگر آپ صحیح سلامت واپس اپنے گھر پہنچ جائیں تو سجدہ شکر ادا کریں۔
شہر کی سڑکیں عملاً قتل گاہیں اور جرائم پیشہ عناصر کی کمین گاہیں بن گئیں ہیں جہاں عام شہری خود کو بالکل نہتا اور بے بس پاتا ہے۔ پولیس کی نفری اول تو کراچی کی آبادی کے تناسب سے انتہائی کم اور ناکافی ہے اور دوسری جانب سیاسی عمل دخل اور اثر و رسوخ نے اس کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ہمارے علم میں ایسے کئی معاملات ہیں جن میں فرض شناس اور دیانت دار پولیس افسران نے بعض مجرموں کی سر کوبی کرنے کی ہمت و جرأت کی مگر جب یہ عقدہ کھلا کہ انھیں انتہائی با اثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے تو انھوں نے محض اپنی کھال بچانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ہماری پولیس کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی خاصی بڑی تعداد اکثر و بیشتر وی وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات رہتی ہے۔
کراچی کا بے ہنگم ٹریفک بھی اس شہر کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ آئے دن کے جلسوں جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں نے ٹریفک کے نظام کو بد سے بدتر بنا دیا۔ آپ جب اپنے گھر یا دفتر سے اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو آپ کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں اور کب تک کوئی جلوس یا ریلی آپ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس ناگہانی صورت حال کے نتیجے میں ٹریفک کا نظام اس بری طرح سے درہم برہم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اسے نارمل ہونے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور ٹریفک پولیس اس کے آگے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔
وی وی آئی پی موومنٹ بھی ٹریفک کو معطل اور درہم برہم کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے جس کے نتیجے میں ہم نے نزع کی حالت میں مریضوں کو ایمبولینس میں دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے وی وی آئی پی حضرات عام شہریوں پر رحم کھاتے ہوئے مصروفیت کے اوقات میں سڑکوں کے راستوں سے سفر کرنے کے بجائے ہیلی کاپٹر کا استعمال کریں؟ احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے منتظمین کی خدمت میں بھی بصد احترام یہی گزارش ہے کہ وہ ممکنہ حد تک اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی وجہ سے بے چارے عام شہریوں کو خوامخواہ تکلیف نہ پہنچے۔
ہمارے ٹریفک کے نظام کی خرابی کے لیے وہ شہری بھی بڑی حد تک ذمے دار ہیں جو انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ ٹریفک کے قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرتے۔ ون وے کی پابندی کی پرواہ نہ کرنا اور ٹریفک سگنل کو توڑتے ہوئے بے نیازانہ گزر جانا تو ہمارے یہاں معمول کی بات ہے۔ گستاخی معاف ہمارے موٹر سائیکل سواروں کی غالب اکثریت نے تو ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں بکھیرنا اپنی عادت بنا رکھی ہے۔ ان میں سے ہر شخص خود کو موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے والا چیمپئن سمجھتا ہے۔
اس غلط روش کے باعث شہر میں جگہ جگہ حادثات ہوتے رہتے ہیں، جنھیں ٹریفک کے قوانین کی پابندی کے ذریعے با آسانی روکا جا سکتا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کراچی کی پولیس کے غیر موثر ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ضرورت کے مقابلے میں اس کی نفری بہت کم اور ناکافی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی پولیس کی کل تعداد 30 ہزار افراد پر مشتمل تھی جب کہ شہر کی آبادی دگنی ہو جانے کے بعد اس میں اس تناسب سے اضافے کے بجائے محض چند ہزار کا ہی اضافہ ہوا ہے ۔
جس کی حیثیت آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ البتہ رینجرز فورس کا اضافہ ضرور ہوا ہے مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے پولیس فورس کے مورال میں بلندی کے بجائے گراوٹ آئی ہے۔ کیوں کہ پولیس والے انھیں اپنا حلیف سمجھنے کے بجائے اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ تاہم اس بحث میں پڑے بغیر ہماری گزارش ہے کہ پولیس کی نفری میں دو کروڑ کی آبادی والے شہر کے تحفظ کے تقاضوں کے پیش نظر خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ پولیس فورس کے مورال کو بلند کرنے کے لیے جلد از جلد مناسب اقدامات بھی کیے جائیں جن میں جرائم کی بیخ کنی کرنے والے ایماندار اور بلند حوصلہ جوانوں اور افسران کی ترقی اور انھیں انعام و اکرام سے نوازنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ہمارے پراسیکیوشن کے شعبے کا ریکارڈ بھی بہت اچھا اور تسلی بخش نہیں ہے جو بلا شبہ فوری اصلاح کا متقاضی ہے۔ اس سے بھی برا حال ہماری جیلوں کا ہے جس کے تذکرے آئے دن اخباروں میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ہماری عدالتوں کا انفرا اسٹرکچر بھی وسائل اور کارکردگی کے لحاظ سے اصلاح طلب ہے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ان کے تناسب سے ججوں کی تعداد بہت کم اور عملاً ناکافی ہے۔
اس کے علاوہ ججوں اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کا نظام بھی بہت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے جس کی جانب فوری اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کراچی جسے شہر قائد ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے، نہ صرف ماضی میں وطن عزیز کا دارالخلافہ رہ چکا ہے عملاً پاکستان کی صنعتی اور کاروباری راج دھانی ہے۔ یہ محض ایک شہر نہیں بلکہ منی پاکستان ہے۔ یہ پاکستان کی ترقی کا محور اور تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جسے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کراچی محفوظ و مضبوط ہے تو گویا پاکستان محفوظ و مضبوط ہے۔ اس لیے صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ کراچی کے مکمل تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں۔