اچھڑو تھر

اچھڑو تھر میں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پینے کا پانی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔۔۔

سندھ کے گھوٹکی، سکھر اور خیرپور میرس اضلاع سے لے کر سانگھڑ اور عمرکوٹ اضلاع تک کی مشرقی پٹی، دودھیہ رنگ کے سفید ٹیلوں پر مشتمل پٹی کو اچھڑو تھر کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کے ایک طرف مشرق میں ہندوستان کی سرحدیں ہیں تو دوسری طرف مغرب میں فطرتی گوناں گونی سے مالامال نارا ویلی۔

یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ دنیا کے منفرد ایکو ریجن میں سے ایک ہے۔ اچھڑو تھر کے مغرب میں نارا وادی ساتھ ساتھ چلتی ہے، جہاں کئی جھیلیں، سفید ٹیلے، ہرے بھرے کھیت اور کئی قسم کے جانور پودے اور چرند پرند ملتے ہیں جو اچھڑو تھر کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔

اچھڑو تھر کی معنی ہیں سفید ریگستان۔ یہ خطہ شمال میں صالح پٹ تحصیل سے لے کر جنوب میں عمرکوٹ تک وسیع اراضی میں پھیلا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں اور تنگ زمینی پٹیوں پر مشتمل یہ علاقہ کئی سالوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جب قحط اور خشک سالی کی صورت حال پورے تھر میں جنم لیتی ہے، تو ملکی سیاست دان، بیورو کریسی اور میڈیا کی توجہ تھرپارکر والا تھر بنا ہوتا ہے، جہاں پھر بھی سڑکیں، اسکول، بجلی اور پینے کے پانی کی سہولیات کسی حد تک موجود ہیں، لیکن یہاں اچھڑو تھر میں تو ویرانی ہی ویرانی ہوتی ہے، جو کسی کو نظر نہیں آتی۔

یہاں کی جیالاجیکل ساخت اس طرح ہے کہ پانی کی زیر زمین سطح بہت کم ہوتی ہے، اس لیے یہاں تھرپارکر والے تھر جیسی گھاس، پودے یا درخت نہیں ہوتے البتہ بھرٹ، پھوگ، بوھہ، کنڈی وغیرہ جیسے مقامی گھاس پودے اور درخت کہیں کہیں نظر آتے ہیں، جنھیں سندھ کے سریلے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری میں سر ''عمر مارئی'' میں گایا ہے۔

جیسے آپ شمال سے جنوب جائیں گے تو راستے میں آنے والے ٹیلوں کی اوچائی بھی بڑھتی جائے گی۔ یہاں دور دور تک آپ کو آبادی نظر نہیں آئے گی، لیکن مال مویشی ٹولیوں کی شکل میں چرتے ہوئے ملیں گے۔ اس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ریتی کے Dunes بھی پائے جاتے ہیں، جو کسی بھی اجنبی مسافر یا جانور کو اپنی جکڑ میں لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بغیر شناسائی کے سفر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

پہلے یہاں تلور، ہرن، بٹیر وغیرہ بڑے وافر مقدار میں ملتے تھے، لیکن عرب شہزادوں کی آمد، مقامی وڈیروں اور سیاستدانوں کے شوق نے انھیں تقریبا ناپید کر دیا ہے۔ رات کی چاندنی میں چمکتی ہوئی ریتی پر دور کہیں آپ کو جیپوں کی آوازیں اور سرچ لائیٹوں کی تیز روشنیاں نظر آئیں تو آپ سمجھیں گے کہ شہر شناسا ہے لیکن اصل میں یہ شکاری ہوتے ہیں جو ہرنوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ہرن ہتھے چڑھ گیا تو اس کی خیر نہیں، دراصل جب ہرن رک کر جلتی ہوئی بتیوں کو دیکھتا ہے تو تیز سرچ لائیٹوں میں اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، یوں وہ اپنی بصارت کچھ دیر کے لیے کھو بیٹھتا ہے اور بھری بندوق کی گولی اس کے جسم میں پیوست ہو جاتی ہے۔ باقی آپ کو یہاں زمیں اور آسمان کی گہری خاموشی ملے گی۔

اچھڑو تھر میں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پینے کا پانی نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے یہاں کے اکثر لوگوں میں شعور و آگہی کم پائی جاتی ہے، جب کہ غربت اور بیماری ڈیرے ڈالے ہوتی ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے پنوں عاقل چھاؤنی سے لے کر چھور چھاؤنی تک سڑک تعمیر کی گئی ہے، جو یہاں کی مواصلات کا کل اثاثہ ہے، باقی فور بائی فورجیپیں، اونٹ اور گدھے سفید ریتی کو چیرتے ہوئے، سواری اٹھاتے ہوئے نظر آئیں گے، جن میں سفید میلی پگڑیاں باندھے ہوئے مرد اور اور گج پہنی ہوئی عورتیں جانوروں کی طرح لدی ہوئیں پائیں گے۔


یہاں زیادہ تر خوبصورت ڈھاٹکی لہجے والی سندھی بولی جاتی ہے، جس کے لوک گیت سننے والوں کے اندر کی تاریں چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ خطہ جغرافیائی طور پر ڈھٹ کا علاقہ بھی کہلاتا ہے، جہاں کی ڈھاٹی نسل کی اونٹنی صحرا میں تیز رفتاری کی وجہ سے بڑی مشہور رہی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے تعلق رکھنے والے اسمگلر ہندوستانی بارڈر کراس کر کے وہاں سے سونا، شراب، صندل شربت، الائچی اور بیڑی کے پتے لے آتے تھے، جو کھپرو شہر کے بازار میں بکتے تھے۔

یہ سب کچھ اسی برق رفتار اونٹنی کی بدولت ممکن ہوتا تھا۔ یہاں کے ڈھاٹی ڈاکو بھی راجستھان میں ڈاکے مارکے اسی اونٹنی کے ذریعے رات کے پچھلے پہر میں واپس لوٹ آتے تھے۔ یہاں کا مقامی ڈاکو بھائی خان راجڑ اسی قسم کے ڈاکے ڈالتا تھا۔ اسی صحرا سے متصل شہر چوٹیاری کسی دور میں سندھ میں موجود اہم علمی مراکز میں سے ایک تھا، جہاں اب ٹیلے کی چوٹی پر اب بھی اسی مدرسے کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ اسی چوٹیاری شہر کے نزدیک قدرتی جھیلوں کو قید کر کے چوٹیاری ریزروائر بنایا گیا ہے، جس کا مقصد چھور چھاؤنی اور اس کے ارد گرد موجود آبادیوں کو زمینوں کے لیے پانی فراہم کرنا ہے۔ لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں اور کچھ سالوں سے برسات کم ہونے کی وجہ سے یہ ریزروائر بھی مؤثر ثابت نہ ہو سکا البتہ جنگلی اور آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔

اس علاقے میں راجڑ، مہر، منگریو، بھمبھرو، گاہو، ھنگورو، سمیجو سمیت اور بھی برادریاں آباد ہیں جو اکثر ڈھاٹکی لہجہ بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھتری، ٹھاکر جیسی ہندو برادریاں بھی موجود ہیں۔

یہ لوگ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ روحانی طور پر ملتان اور ہالا کے مخدومین، ٹنڈوالہیار کے جیلانی اور پیر پگارا کے مرید ہیں۔ یہاں کی عورتوں کا لباس بھی اس علاقے کے ثقافت کی عکاسی کرتا ہے، جو دستکاری اور دوسرے ہاتھ کے ہنروں کا ایک شاہکار لگتا ہے، یہ لباس کراچی اور اسلام آباد کے شاپنگ مالز میں ہزاروں روپے میں بیچا جاتا ہے، لیکن اصل مزدور کو اس کی مزدوری چند سو روپے ملتی ہے، شادی کے مواقعے پر گائے جانے والے تھری لوک گیت مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، جب کچھ عورتیں ایک ہاتھ اپنے گالوں پر رکھ کر مشہور لوگ سنگر مائی بھاگی کی طرح انھیں الاپتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کئی صدیوں کی محرومیاں، دکھ اور تکلیفیں بیان کر رہی ہوں۔

ان کے گانے کا انداز آپ کو راجستھانی لوک گائیکوں سے لے کر اسپینش زبان کے مشہور زمانہ سنگر گروپ،، جپسی کنگز،، سے ملتا جلتا لگے گا۔ یہاں جب آپ سفید ریتی کے ٹیلوں سے گزریں گے تو کہیں کہیں بیچ میں آپ کو نیلے پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں نظر آئیں گی۔ جو یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔ جن میں سے نمک نکال کر پورے پاکستان میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں کی جھیلوں کا پانی کڑوا اور نمکیات سے بھرپور ہوتا ہے، اس لیے یہاں کے مکینوں کا بڑا مسئلہ پینے کا پانی ہے۔

البتہ اس نمکین پانی میں خارش کے مریض نہاتے ہیں، جس سے انھیں شفا مل جاتی ہے۔ ویسے تو یہاں تو گرمیوں میں تپتی ہوئی دھوپ، اڑتی ہوئی گرم ریتی اور ویرانی ملے گی۔ہاں بارش کے چھینٹے یہاں کی زمینوں سے لے کر لوگوں کی دلوں تک بہار ضرور لاتے ہیں، کنوؤں میں موجود بارش کا یہ پانی انسانوں اور جانوروں کی پیاس بجھاتا ہے، تو سفید ریتی پر بھی کہیں کہیں کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں، جو مال مویشیوں کے چارے کے کام آتی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب یہاں عرب شکاری آکے کیمپیں لگاتے ہیں تو جنگل میں منگل کا سماں ہو جاتا ہے، جو یہاں کے چند لوگوں کو روزگار ضرور فراہم کرتا ہے، لیکن جانوروں اور پرندوں کی نایاب نسلوں کا صفایا کر دیتا ہے۔

کاش! اس پیاسے اور دکھی خطے پر بھی کسی حکمران سیاستدان یا میڈیا کے ادارے کی نظر کرم ہو تو یہاں کے دکھی انسانوں، بے یار و مددگارجانوروں اور پرندوں کی مدد ہو سکے، اور اس علاقے میں تھرپارکرکی طرح سڑکوں، اسکولوں، اسپتالوں کا جال بچھایا جائے اور پینے کے پانی کا مسئلہ بھی نارا سے پائپ لائن بچھاکر کسی حد تک حل کیا جا سکے۔ سندھ حکومت کی یہاں کے غریب و محروم لوگ راہ تک رہے ہیں۔
Load Next Story