پاکستان کا بیٹا
ایک عام امریکن، برطانوی اور آسٹریلین بچّے کو ان گنت سہولتیں ملتی ہیں
نہیں ہے میرے پاس وہ سب کچھ جو انگلینڈ امریکا جیسے ملکوں میں پیدا ہونے والے بچّوں کے پاس ہے۔
یہ جانتا ہوں میں، ان ملکوں میں بچّہ پیدا ہوتے وقت اگر ماں باپ اسپتال کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تو بہترین اسپتال میں بچّے کی پیدایش مفت ہوتی ہے۔
اس کے بعد اگر گھر میں تنگی ہے تو بچّے کے کپڑے، دودھ، کھانا یہاں تک کہ کھلونے تک اس کی حکومت کی ذمے داری ہے۔
اسکول میں تعلیم ہی نہیں کھانا اورکتابیں بھی مفت ملتی ہیں اور اگر ماں باپ بچّوں کو پالنا افورڈ نہیں کرسکتے یا پھر نشے یا کسی اور بری لت میں پڑے ہوں تو حکومت بچّوں کو کسی بہتر گھر اور خاندان کے حوالے کردیتی ہے۔ اِس کے علاوہ ماں باپ اگر بچّے پر کسی بھی طرح کا تشدد کریں تو بچّے کے صرف ایک فون نمبر ملانے پر گھر پر ہر طرح کی مدد پہنچ جاتی ہے۔
ایک عام امریکن، برطانوی اور آسٹریلین بچّے کو ان گنت سہولتیں ملتی ہیں، اس کے پیدا ہونے سے بڑے ہونے تک لیکن میں ان سب سہولتوں سے بہت دور ہوں کیونکہ میں پاکستان میں پیدا ہوا ہوں۔
میرا نام محمد شفیق ہے اور میری پیدایش پنجاب کے علاقے شجاع آباد کے ایک بہت غریب خاندان میں ہوئی۔ اِس وقت میری عمر سولہ سال ہے اور میں نے زندگی میں آنکھ کھولتے ہی مشکلات کا سامنا کیا۔
میرے علاوہ میرے والدین کے پانچ اور بچّے ہیں اور میں نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بہت محنت اور جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔
میرے والد ایک چھوٹی سی فیکٹری کے چوکیدار تھے اور میری والدہ گھروں میں برتن دھوتی ہیں۔ میرے ماں باپ کی ہر دن ایک ہی پریشانی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچّوں کو کیسے دو وقت کی روٹی کِھلاسکیں، کبھی وہ بھوکے سوتے تو کبھی ہم لیکن ہم میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے سے یہ نہیں کہا کہ آج میرا پیٹ خالی رہ گیا۔
برے حالات کا اثر پیٹ اور دماغ سے زیادہ دل پر ہوتا ہے اور ہم شاید پیٹ کی بھوک کا بتا کر ایک دوسرے کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔
بچپن میں دوسرے بچّوں کے پاس کھلونے ہوتے تھے، طرح طرح کے رنگ برنگے آوازیں نکالتے، بیٹری سے چلنے والے۔
وہ کھلونے جن کو ہاتھ لگانے کی تمنّا شاید میری طرح میرے بہن بھائیوں کو بھی تھی لیکن ہم اس ایک بال سے ہر شام کھیلتے جو ہم سب کا واحد کِھلونا تھی۔ وہ بال جس کے ہونے سے ہم خود کو یقین دِلاتے کہ ہمارے پاس کھلونے ہیں۔
گلی میں سب بچّوں کے عید بقرعید پر نئے کپڑے آتے، سولہ عیدیں آئیں اور چلی گئیں لیکن میں نے کبھی کسی بھی عید پر نئے کپڑے نہیں پہنے۔
میرے والدین میرے لیے نئے کپڑے نہیں لے سکتے تو کیا ہوا، میرے لیے وہ عیدی ہی کافی ہوتی جو دنیا کے لیے شاید بہت کم پیسے تھے لیکن میرے ماں باپ کا اس میں بے شمار پیار اسے ہزاروں لاکھوں سے زیادہ بنا دیتا۔
ہر صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک صاف پینے کا پانی، پیٹ بھر کھانا، پھٹی چپل تیزی سے بڑھتی مہنگائی، گھر کا کرایہ، طبیعت خراب ہو تو دوا کا خرچ... ہر دن ایک نئی طرح غربت میرے خاندان کا مذاق اڑاتی نظر آتی۔
انسان زندگی دو طرح گزارتا ہے جو نہیں ہے اس کے بارے میں سوچ کر خود کو کمزور محسوس کرنا اور ہر مقابلے کا حصّہ بننے سے پہلے ہی اس میں ہار جانا یا پھر وہ انسان جو کچھ اپنی زندگی میں حاصل کرسکتا ہے۔
اس کو دماغ میں رکھ کر خود کو طاقت ور سمجھنا اور اﷲ کا نام لے کر اس کام کی طرف آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا۔ ہوسکتا ہے کئی لوگوں کے حساب سے میں ایک کمزور لڑکا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں اپنے ارادے سے کیا کرسکتا ہوں۔ وہ ارادہ جو مجھے بہت طاقتور بناتا ہے، میں نہ صرف اپنے خاندان کو اِس غربت، اِس مجبوری سے نکالوں گا بلکہ اپنے جیسے پاکستان کے ہر مجبور گھر کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔
میرے تیرہ سال کے ہوتے ہوتے گھر میں حالات مزید خراب ہوگئے، میرے والد کی عمر اور خراب صحت کی وجہ سے اب وہ کام نہیں کرسکتے، والدہ بھی بیمار رہتی ہیں اور روز کئی گھنٹے گھروں کے برتن دھونا ان کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اِسی لیے اپنے گھر والوں کی مدد کے خیال سے میں نے ایک ہوٹل میں برتن دھونے کی نوکری کرلی، کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔
چھوٹی یا بڑی آپ کی سوچ ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا آنے والا کل بہت اچھا ہے لیکن اِس سوچ کے ساتھ کسی بھی کام کو چھوٹا سمجھ لینا غلط ہوگا، جو کام محنت سے کیا جائے اور جس میں حق حلال کی کمائی ہو، وہ کام کبھی چھوٹا نہیں ہوتا۔
خود کے اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے میں نے دل لگا کر پڑھائی کی۔ ہمارا دین بھی ہم کو تعلیم حاصل کرنے کی راہ دِکھاتا ہے، پھر میں اِس سے کیسے منہ پھیر لیتا۔ میرے لیے اسکول کی فیس دینا مشکل تھی لیکن میں نے پارٹ ٹائم نوکری کرکے خود اپنی فیس بھری۔
آج میں دن بھر ہوٹل میں برتن دھوتا ہوں، جس کے بعد شام میں کالج اور رات بھر پڑھائی کرتا ہوں۔ چاہے مشکلوں کا پہاڑ چھوٹا نہ ہو لیکن میں اس پہاڑ کے نیچے کھڑا اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہوتا رہا بلکہ میں اپنی محنت سے اپنی قسمت کی دیوار اتنی لمبی اور مضبوط کرنے میں مصروف ہوں جس کے سامنے ہر مشکل کا پہاڑ چھوٹا لگنے لگے گا۔
کہتے ہیں ''ہمتِ مرداں مددِ خدا'' شاید کچھ لوگوں کو میرے ارادے کی کامیابی مشکل لگے لیکن وہ چیلنج ہی کیا جو آسان ہو۔ ہر رات ہلکی سی روشنی میں ان گرمیوں کی راتوں میں نے صرف پاس ہونے کے لیے نہیں پڑھا۔ میں نے پڑھا اوّل آنے کے لیے۔ وہ میرٹ کا حق جو آپ کو صرف آپ کی محنت دِلاتی ہے، آپ کی فیملی کا بینک بیلنس نہیں۔
کچھ دن پہلے پنجاب میں انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ آیا اور ملتان بورڈ آرٹس گروپ میں میری دوسری پوزیشن آئی۔ ملک بھرکے اخباروں میں خبر چھپی ''ایک برتن دھونے والے لڑکے نے اپنی محنت سے سیکنڈ پوزیشن حاصل کی'' صرف میرے والدین کی ہی نہیں یہ خبر پاکستان کے ہر غریب شخص کی تمنّا بن گئی جو پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے بچّوں کو اسکول بھیج رہا ہے۔
تمنّا کہ شاید ہمارا آنے والا کل بہتر ہو۔ ہمارا کل بہتر ہوگا کیوں کہ پاکستانی قوم کے پاس میرے جیسے بیٹے ہیں، چاہے میرے ملک نے مجھے وہ کچھ نہیں دیا جو دوسرے ملک کے بچّوں کو زندگی کے ہر موڑ پر ملتا ہے لیکن میرے پاس وہ جذبہ ہے جس سے میں تقدیر بدل سکتا ہوں۔ اپنا کل بہتر کرسکتا ہوں، اپنے ملک کا کل بہتر کرسکتا ہوں اور مجھے ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ میں پاکستان کا بیٹا ہوں۔