میرے قارئین

جب دکان کھول کر بیٹھا ہے تو زیادہ نہ سہی کم پیسے بھی گھر لے کرجاتا ہوگا


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate September 26, 2012
[email protected]

SUKKUR: محلے میں دوحلوہ پوری والے تھے۔ ایک کی دکان بہت چلتی تھی اوردوسرا بے چارہ مکھیاں مارا کرتا تھا۔

یہ ہمارے بچپن کا خیال تھا۔ جب نانا سے ذکر کیا تو انھوں نے مجھ سے سوال کیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا دوسرا حلوہ پوری والا اپنا سامان واپس گھر لے کر جاتا ہے؟

بھئی اس کی دکان پر بھی کچھ نہ کچھ گاہک آتے ہوں گے۔ جب دکان کھول کر بیٹھا ہے تو زیادہ نہ سہی کم پیسے بھی گھر لے کرجاتا ہوگا۔ جس نے لکھنا شروع کیا تو کچھ نہ کچھ لوگ تو پڑھتے ہوں گے۔

کم یا زیادہ، کچھ نہ کچھ پڑھنے والے اور پھر ان میں سے پسند و ناپسند کرنے والے ہوں گے۔ ان ہی پڑھنے والوں کو ہم نے ''میرے قارئین'' کا عنوان دیا ہے۔

میرے قارئین میں جو نوجوان ہیں ان میں سے کچھ قلم کار بننا چاہتے ہیں، کالم لکھنا چاہتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ کیا کریں؟ جواب ہوتا ہے پڑھیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پڑھیں؟

جواب ہوتا ہے کہ ادب، شاعری، سیاست، معیشت، مزاح، تاریخ اور سوانح عمریاں پڑھیں۔ بعض نوجوان تاریخ کی کسی کتاب کے بارے میں پوچھتے ہیں۔

ان کا اشارہ ایک آدھ کتاب کا نام لکھنے تک ہوتا ہے۔ پھر جواب دینا پڑتا ہے کہ کتابیں تو سیکڑوں ہزاروں ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم آپ کو پیسے بھجوادیتے ہیں، آپ ہمیں کتابیں خرید کر بھجوادیں۔

نوجوان کو سمجھانا پڑا کہ پیسے لے کر آپ اپنے علاقے کی کتابوں کی دکان پر جائیں اور اپنی پسند کی کتابیں خرید لیں۔

پھر سوال ہوتا ہے کہ کیسے لکھیں؟ ہم تو ایف اے کے طالب علم ہیں۔ انھیں جواب دینا پڑتا ہے کہ پہلے اخبارات میں خطوط لکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کے علاقے، محلے میں یا کالج میں کوئی مسئلہ ہو تو اسی پر اظہارِ خیال کریں۔

اگر ایسے خط شایع ہوجائیں تو سیاسی معاملات پر اخبارات کے ان ہی خطوط والے صفحے پر اپنی رائے لکھیں۔یہ تحریر پچھلی سے کچھ طویل ہوگی۔ بچّوں کے لیے لکھنا کوئی بچّوں کا کھیل نہیں ہوتا۔ پھر اسپورٹس یا نوجوانوں کے صفحے پر طبع آزمائی کریں۔ اسی طرح پڑھتے رہیں اور لکھتے رہیں تو تحریر میں بہتری پیدا ہوتی جائے گی۔

اگلا مرحلہ اخبارات کے سیاسی صفحے پر کوشش ہے۔ جس صفحے پر لکھنا چاہیں اسے غور سے پڑھیں تاکہ اخبار کا مزاج اور پالیسی سمجھ میں آئے۔ ذاتی معاملے سے گریز کریں اور سیاسی و مذہبی شخصیات پر بے جا تنقید سے بچنے کی کوشش کریں جب وقت آئے گا تو مناسب الفاظ میں بے شک کسی کو رعایت نہ دیجیے گا۔ ''چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر۔ آہستہ آہستہ۔''

کچھ قارئین ذاتی مدد، نوکری اور علاج کے لیے مدد مانگتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں سے معذرت کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ دوسرے بیمار، معذور اور بے روزگار لوگوں کے لیے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔

کئی مرتبہ دو تین سطروں میں ان کا تذکرہ مع موبائل فون کے کردیا۔ اسی طرح چند مخیر حضرات یا سرکاری اداروں نے ان کا مسئلہ حل کردیا۔ یہ سلسلہ ایک حد تک ہی ہوسکتا ہے۔

کچھ قارئین دوسرے کالم نگاروں کے فون نمبر مانگتے ہیں۔ انھیں اخبارات کے دفتر سے رجوع کرنے کا کہا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی صفحے پر برابر برابر میں شایع ہونے والے کالم نگار ایک ہی دفتر میں برابر برابر نشستوں پر بیٹھ کر کالم لکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔

کالم نگار اپنے کالم ڈاک، فیکس کے ذریعے، اسکین کرکے یا دوسرے ذرایع سے روانہ کردیتے ہیں۔ وہ مختلف شہروں کے رہایشی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو کیا اکثر ان کی ہیلو ہائے یا فون پر بھی گفتگو نہیں ہوتی ہے۔ اب ایسے عالم میں دوسرے کا نمبر یا پتہ کیسے دیا جائے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔کالم نگاری کی ابتدا میں صرف قلم کار کا نام ہوتا تھا۔

پھر تصاویر کی اشاعت ہوئی تو ایک سینئر کالم نگار نے اسے یوں قرار دیا۔

پھر کالم نگاروں کے ای میل ایڈریس شایع ہونے لگے۔ ابتدا میں کمپیوٹر پر سلسلہ جاری رہا۔ بے شمار میلز لایعنی اور فضول ہوتیں۔ یوں محسوس ہوتا کہ وقت ضایع ہوا ہے۔

بے شمار تنظیمیں اپنے مسائل اور پبلسٹی کے لیے درجنوں و سیکڑوں پیغام بھجواتے۔ ایسے میں کام کی بات رہ جاتی۔ برادے میں سے سوئی کی تلاش کی سی نوعیت تھی۔ پھر کرسی پر بیٹھ کر اسکرین کو جھانکنا کہ یہ قبل از آئی پیڈ کی بات ہے۔ یوں ایک بڑا رسک لے کر موبائل نمبر دیا۔ خطرہ تھا کہ یار لوگ تنگ کریں گے۔

لیکن آفرین ہے میرے قارئین پر جن کی 95 فیصد تعداد نے تہذیب و شائستگی سے پیغامات بھیجے، باقی 5 فیصد نے فون کی گھنٹی بجا کر طبع آزمائی کی۔ کہیں کوئی بدتمیزی اور اخلاق سے گری ہوئی بات نہ ہوئی۔

سیکڑوں معصوم اور بھولے شہریوں سے بات ہوئی۔ کہیں پنجاب کا کوئی بھولا دکان دار تھا تو کہیں کوئی پٹھان طالب علم، کہیں فیصل آباد کی بیٹی تھی، کہیں جیکب آباد کا پروفیسر،کہیں اسلام آباد کا کوئی طالب علم تھا تو کہیں پسنی کا کوئی شکایت کنندہ۔ اب تک ہزاروں لوگوں کے پیغامات ملے اور سیکڑوں لوگوں سے بات ہوئی۔

ان ہی قارئین کی بدولت پیغامات ارسال کرنے کا پیکیج لیا اور یوں قارئین کو کالم کی تعریف کرنے یا تجویز دینے پر شکریہ کا پیغام ارسال کردیا۔ امن و سکون غارت ہوجانے کا رسک تھا لیکن سلام ہے پاکستان کے شہریوں کو اور خراجِ تحسین ''ایکسپریس'' کے قارئین کو جنھوں نے کبھی اس فیصلے کے غلط ہونے کا خیال ذہن میں نہیں آنے دیا۔

کبھی دوسرا نمبر لے کر اس نمبر کو رخصتی دینے کا نہیں سوچا؟ عمران کی تعریف کرنے پر لیگیوں نے ناپسندیدگی کے پیغامات بھیجے لیکن ان میں وقار تھا، شائستگی تھی۔ کبھی نہیں سوچا کہ موبائل نمبر بدل لوں۔ پاکستان زندہ باد۔ ویل ڈن سٹیزنز آف پاکستان۔ شاباش میرے قارئین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں