آرمی چیف نے حکومت کی اجازت سے عمران خان اور طاہر القادری کی درخواست پر ملاقات کی چوہدری نثار
دھرنا دینے والوں سے مذاکرات صرف پارلیمنٹ کی قرارداد اور آئین و قانون کی روشنی میں ہوں گے، وفاقی وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف نے فوج کو غیر سیاسی رکھا ہے اور انہوں نے حکومت کی اجازت سے عمران خان اور طاہر القادری کی درخواست پر ملاقات کی ، دھرنا دینے والوں سے مذاکرات صرف پارلیمنٹ کی قرارداد اور آئین و قانون کی روشنی میں ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو اس ملک کے عوام نے عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیا اور پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے وزیراعظم کو مبارک باد دی۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ، ایک سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں، عدلیہ اور ادارے ایک جانب ہیں اور دو گروہ دوسری جانب۔ پارلیمنٹ کے دروازے پر نظام کی تبدیلی کے لئے غیر آئینی مطالبات کئے جارہے ہیں، اگر انہیں منع کیا جائے تو وہ یہاں قبریں کھودتے ہیں اور خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں، دھرنے والوں کا مطالبہ مان لیا تو کل کوئی اور گروہ ایسا کرے گا ، لشکر کشی کرکے مطالبے نہیں منائے جاسکتے، آج یہ ریت پڑگئی تو کیا ضمانت ہے کہ کل بڑا گروہ آکر ایسا مطالبہ نہیں کرے گا۔ احتجاج کرنے والوں کا ایجنڈا افراتفری پھیلانا ہے، گولی اور لاٹھی کی سیاست کی جارہی ہے۔ ڈھائی ہزار خواتین 200 بچوں کے ہمرا حصار بنا کر بیٹھی ہیں، لشکر کشی کرنے والوں کا ایجنڈا نظام لپیٹنا ہے، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ہتھیار بنالیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے پر آنے والے ان گروہوں سے نمٹنے کے لئے بطور وزیر داخلہ ان کی رائے مختلف تھی لیکن حکومت نے بہت زیادہ نرم رویہ اختیار کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ موقف تھا کہ کسی کی جمہوری آواز پر قدغن نہیں لگانی چاہیئے۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور انتشار نہیں چاہتے۔ حالیہ انتخابات مسلم لیگ (ن) نے نہیں کرائے چیف الیکشن کمیشن کے علاوہ ان کی جانب سے تجویز کیا گیا کوئی بھی نام ہماری جماعت کا نہیں تھا ، چیف الیکشن کمیشن کے لئے فخر الدین جی ابراہیم کا نام ہم نے پیش کیا تھا لیکن وہ نام بھی عمران خان نے دیا تھا۔ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ کمیشن فیصلہ دے کہ انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوئی ہم گھر چلے جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 6 مطالبات پیش کئے گئے جن میں سے ہم نے 5 پر اتفاق کیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ بھی صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے کے علاوہ تمام مطالبات پر پیش رفت ہوئی۔ صرف مقدمے کے اندراج سے کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہم نے تجویز دی کہ اپوزیشن کا جرگہ قائم کرلیتے ہیں تاکہ جن محدود نکات پر موجود اختلاف کو اتفاق میں بدلا جائے۔ ہم نے انہیں کہا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا حالانکہ اس سارے معاملے میں فوج کو کوئی بھی کردار ادا کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ ہم نے صورت حال کو گھمبیر کرنے کے بجائے ان کے مطالبے پر حکمت عملی بنائی کیونکہ پاک فوج حکومت، تحریک انصاف یا پاکستان عوامی تحریک کی نہیں پاکستان کی ہے۔ دونوں رہنماؤں کو پاک فوج نے نہیں بلایا بلکہ آرمی چیف سے ملاقات خود ان کی درخواست پر ہوئی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی آج پھر بات ہوگی، یہ مذاکرات اسی قرارداد کی روشنی میں ہوں گے جو ایوان نے منظور کی ہم اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ پارلیمنٹ کی بلوغت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے بھی زیادہ حکومت مخالف جماعتیں آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے ایک ساتھ کھڑی ہیں۔ سابق اور موجودہ آرمی چیف نے فوج کو غیر سیاسی رکھا ہے اور مستقبل میں بھی غیر سیاسی رکھنا چاہتے ہیں، 1977 سے آج تک فوج نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا، حالیہ صورت حال میں فوج کو دیا گیا کردار آئین اور قانون کے مطابق ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو اس ملک کے عوام نے عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیا اور پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے وزیراعظم کو مبارک باد دی۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ، ایک سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں، عدلیہ اور ادارے ایک جانب ہیں اور دو گروہ دوسری جانب۔ پارلیمنٹ کے دروازے پر نظام کی تبدیلی کے لئے غیر آئینی مطالبات کئے جارہے ہیں، اگر انہیں منع کیا جائے تو وہ یہاں قبریں کھودتے ہیں اور خواتین اور بچوں کو ڈھال بنا لیتے ہیں، دھرنے والوں کا مطالبہ مان لیا تو کل کوئی اور گروہ ایسا کرے گا ، لشکر کشی کرکے مطالبے نہیں منائے جاسکتے، آج یہ ریت پڑگئی تو کیا ضمانت ہے کہ کل بڑا گروہ آکر ایسا مطالبہ نہیں کرے گا۔ احتجاج کرنے والوں کا ایجنڈا افراتفری پھیلانا ہے، گولی اور لاٹھی کی سیاست کی جارہی ہے۔ ڈھائی ہزار خواتین 200 بچوں کے ہمرا حصار بنا کر بیٹھی ہیں، لشکر کشی کرنے والوں کا ایجنڈا نظام لپیٹنا ہے، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ہتھیار بنالیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے پر آنے والے ان گروہوں سے نمٹنے کے لئے بطور وزیر داخلہ ان کی رائے مختلف تھی لیکن حکومت نے بہت زیادہ نرم رویہ اختیار کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ موقف تھا کہ کسی کی جمہوری آواز پر قدغن نہیں لگانی چاہیئے۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور انتشار نہیں چاہتے۔ حالیہ انتخابات مسلم لیگ (ن) نے نہیں کرائے چیف الیکشن کمیشن کے علاوہ ان کی جانب سے تجویز کیا گیا کوئی بھی نام ہماری جماعت کا نہیں تھا ، چیف الیکشن کمیشن کے لئے فخر الدین جی ابراہیم کا نام ہم نے پیش کیا تھا لیکن وہ نام بھی عمران خان نے دیا تھا۔ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ کمیشن فیصلہ دے کہ انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوئی ہم گھر چلے جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 6 مطالبات پیش کئے گئے جن میں سے ہم نے 5 پر اتفاق کیا۔ پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ بھی صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفے کے علاوہ تمام مطالبات پر پیش رفت ہوئی۔ صرف مقدمے کے اندراج سے کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہم نے تجویز دی کہ اپوزیشن کا جرگہ قائم کرلیتے ہیں تاکہ جن محدود نکات پر موجود اختلاف کو اتفاق میں بدلا جائے۔ ہم نے انہیں کہا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا حالانکہ اس سارے معاملے میں فوج کو کوئی بھی کردار ادا کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ ہم نے صورت حال کو گھمبیر کرنے کے بجائے ان کے مطالبے پر حکمت عملی بنائی کیونکہ پاک فوج حکومت، تحریک انصاف یا پاکستان عوامی تحریک کی نہیں پاکستان کی ہے۔ دونوں رہنماؤں کو پاک فوج نے نہیں بلایا بلکہ آرمی چیف سے ملاقات خود ان کی درخواست پر ہوئی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی آج پھر بات ہوگی، یہ مذاکرات اسی قرارداد کی روشنی میں ہوں گے جو ایوان نے منظور کی ہم اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ پارلیمنٹ کی بلوغت کا نتیجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے بھی زیادہ حکومت مخالف جماعتیں آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے ایک ساتھ کھڑی ہیں۔ سابق اور موجودہ آرمی چیف نے فوج کو غیر سیاسی رکھا ہے اور مستقبل میں بھی غیر سیاسی رکھنا چاہتے ہیں، 1977 سے آج تک فوج نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا، حالیہ صورت حال میں فوج کو دیا گیا کردار آئین اور قانون کے مطابق ہے۔