دنیا بھر سے جب غیرت پنکچر ہو جائے

جب تک عافیہ کو بیچنے والے ہماری رہنمائی سے دستبردار نہیں ہوتے ہماری قومی غیرت کا استہزا اسی طرح اڑتا رہے گا!

جب تک عافیہ کو بیچنے والے ہماری رہنمائی سے دستبردار نہیں ہوتے ہماری قومی غیرت کا استہزا اسی طرح اڑتا رہے گا!۔ فوٹو فائل

KARACHI:
ستم گر عالمی میڈیا گاہے گاہے پاکستان کے مجروح قومی وقار پر سنگ باری کرتا رہتا ہے ۔ عالمی میڈیا کو ہماری کمزوریوں کا پورا پورا ادراک ہے اس لیے یہ ہمیں زیادہ وقت ہوائی قلعوں میں نہیں گزارنے دیتا۔ ابھی ہم ایک زخم کی دوا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور تیر ہماری غیرت کی قبا کو چھلنی کرتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہم پرانے زخم کو بھول کر نئے کی دوا دھونڈنے لگتے ہیں ۔ شاید عالمی میڈیا یہ جان چکا ہے کہ اس قوم کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے 2003 کے موسمِ بہار میں پاک سر زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی 2008 ء کو جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر 650 کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں، اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر سکتی۔

اب عافیہ صدیقی کی اسیری کو گیارہ سال ہوچکے ہیں۔ پاکستان قوم اس دوران ایک آمریت اور ایک عدد جمہوری حکومت کی برکات سے پوری طرح مستفید ہو کر دوسری جمہوری حکومت کے پھل کھا رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بڑی 'درمندی 'سے کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن امریکی جبر و سطوت کے سامنے کیا یہ پدیاں اور کیا ان کا شوربہ ! پاکستان کی عدالتیں، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، مذہبی اور سیاسی جماعتیں یک زبان ہیں کہ عافیہ کو امریکی قید سے رہائی ملنی چاہیے لیکن عالمی استعمار کے نقار خانے میں ان طوطیوں کی آوازبھلا کون سنتا ہے !


ایک لاحاصل جدوجہد کے بعد اب عافیہ کے لیے اٹھنے والی آوازیں ماند پڑتی جارہی ہیں اور پاکستان قوم نے اپنی گھائل غیرت پر لگنے والے اس زخم کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر ا س سے نظریں چرانی شروع کر دی ہیں لیکن عراق و شام میں برسرِ پیکار عسکریت پسندوں نے ایک اغوا شدہ امریکی خاتون کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر کے ہمارے پرانے زخموں کو پھر کرید دیا ہے ۔ جب عدل و انصاف مر جائے اور جس کے ہاتھ لاٹھی ہو وہی دنیا کو ہانکنے لگے تو انصاف حاصل کرنے کے لیے ایسی آوازوں کااٹھنا کچھ اچنبھے کی بات نہیں لیکن پاکستانی قوم دہشت گردی کے ساتھ نتھی ہونے پر بجا طور پر برا نگیختہ ہے۔ ہمیں عافیہ کی رہائی چاہیے لیکن عالمی قوانین کی مرگھٹ کے اندر رہ کر کیوں کہ ہم امن پسند جمہوری قوم ہیں!

2011ء میں ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ہو یا 2014ء میں جوئل کاکس کی گرفتاری و رہائی ایک امر طے ہو چکا ہے کہ امریکہ نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر قاعدے اور ہر قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔امریکہ نے اپنی قومی غیرت کے جھوٹے سچے تصور کے تحفظ کے لیے اپنی راہ میں آنے والی ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ کو روندا اور ساری دنیا کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص یہ بلواسطہ پیغام دیا کہ قومی حمیت کا تحفظ مطالبات اور مظاہروں سے نہیں کیا جاتا۔ ہم کئی سالوں سے عافیہ کے لئے مِن مِن کر رہے ہیں، ہمارے وزرا ، ہمارے وزرائے اعظم ، ہمارے جج صاحبان ، ہمارے دانشور اور ہمارے مذہبی رہنما کئی سالوں سے ٹہنیاں پھاندتے پھر رہے ہیں لیکن ساری تگ و دو لا حاصل ہے کیوں کہ ہماری قومی غیرت غیروں کی کاسہ لیسی کے سبب پنکچر ہو چکی ہے۔ ہم لاکھ کوشش کریں کہ ان چھیدوں کو بلند بانگ نعروں سے چھپا سکیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ جو ایک دفعہ بیٹیاں بیچ دیں وہ کبھی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتے ۔ جب تک عافیہ کو بیچنے والے ہماری رہنمائی سے دستبردار نہیں ہوتے ہماری قومی غیرت کا استہزا اسی طرح اڑتا رہے گا!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story