ربڑ کے درخت

اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مغربی دنیا نے جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانی دی ہے ...


راؤ منظر حیات August 30, 2014
[email protected]

ہماری سیاسی صورتحال میں بے انتہا تغیر ہے۔ بے یقینی اسکو مزید مشکل بنا رہی ہے۔ کل حالات کی شکل کیا ہو گی؟ اس پر قطعی طور پر کچھ کہنا انتہائی مشکل ہے۔ ہم کسی ایک اَمر پر اتفاق کرنے کی اہلیت سے محروم لوگ ہیں۔ کل دوپہر مرد ِصحرا، ڈاکٹر ارشد بٹ سے طویل نشست ہوئی۔ نتیجہ وہی! کہ ہم بنیادی طور پر علم دشمن قوم ہیں۔ کتاب اور دانش سے کئی نوری سال دور، تحقیق اور تجسس سے مبرا، بے جان لوگ!

اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مغربی دنیا نے جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانی دی ہے۔ اسکو معاشرہ میں اقتدار کی بنیاد بنانے کا سفر ایک یا دو سال کا نہیں بلکہ کئی صدیوں کا ہے۔ فرانس اور برطانیہ کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیے۔ آپکو اس اَمر کا ادراک ہو جائے گا کہ آج ان کے حکومتی اور شخصی رویے ہم سے اس قدر مختلف کیوں ہیں؟ اس تمام نظام کی بنیاد ایک سوچ اور پھر مخصوص سوچ کی بنیاد پر اقتدار کو ووٹ کی طاقت سے چلانے کا سلیقہ اور قرینہ ہے۔

بنیادی طور پر جمہوریت ایک رویہ کا نام ہے۔ ایسا رویہ جس میں اخلاق اور تہذیب کی حدود میں آپکے پاس بے رحم تنقید کا حق موجود ہے۔ تنقیدی رویہ کے علاوہ ایک انتہائی اہم جزو بھی لازم و ملزوم ہے۔ "دلیل کی بنیاد پر اختلاف رائے کا حق"۔ آپ تھوڑا سا آگے سفر طے کیجیے تو مزید ایک نقطہ نمایاں نظر آتا ہے۔" معاشرہ میں کسی بھی مروجہ اصول کو منطق کی بنیاد پر رد کرنے کا حق"۔

مجھے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہمارے پُر تشدد معاشرہ میں ان تمام اصولوں میں سے جزوی طور پر بھی کوئی چیز موجود ہے؟ کیا ہم پاکستان میں دلیل کی بنیاد پر کسی حساس نقطہ پر اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا ہم اپنے منافق معاشرے میں کسی بنیادی قدر کو عقل اور تجزیہ کی بنیاد پر رد کر سکتے ہیں؟ میں سنجیدگی سے اس کا جواب تلاش کرنے کے بعد عرض کرونگا کہ "نہیں" قطعاً نہیں"۔

میں اپنے ملک کو مجموعی طور پر ایک ترقی پذیر ملک نہیں تسلیم کرتا۔ میں اس معاشرہ کو Primitive سوسائٹی کے درجہ پر محسوس کرتا ہوں۔ میرے پاس اس انگریزی لفظ کے برابر کا اردو میں کوئی ہم پلہ لفظ نہیں ہے۔ جب ہمارے پاس درست فکری اساس ہی موجود نہیں ہے تو ہم اپنے نظام کو کس بنیاد پر جمہوری قرار دے سکتے ہیں۔ جب ہمارے شخصی رویّے کسی بھی مروجہ، تہذیب یافتہ، اصول اور ضابطہ سے متضاد ہیں تو ہم محض ووٹ کی بنیاد پر حکومت کرنے کا اختیار کس طرح سے معاشرے پر مسلط کر سکتے ہیں۔

آپ ہمارے نظام اور طرز حکومت پر طائرانہ نظر دوڑائیے۔ آپ لوگوں کے رویے کو تحقیق کی سند پر رکھیے۔ آپکا نتیجہ بالکل ایک ہی ہو گا۔ ہمارے طرزِ حکمرانی کو آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں مگر اسکو آپ جمہوری نہیں کہہ سکتے۔ آپ اپنے نظام کو لاکھ بار اس محترم لفظ کا لباس پہنائیے۔ مگر آپ محض لباس اور ظاہری خد و خال سے مزین اس نظام کو جمہوریت نہیں کہہ سکتے۔ آپ کسی وزیر اعظم، صدر، وزیر اعلیٰ یا وزیر کے عملی رویہ کا تجزیہ کریں۔ وہ تمام اس اَمر پر قائل ہیں کہ ان کی کہی ہوئی بات سو فیصد درست ہے۔

وہ میرٹ سے محروم اپنے ہر حکم کو قطعی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کسی عادت اور روّش کو تبدیل کرنے کی مثبت طاقت سے محروم ہیں۔ ہمارے ملک میں دس پندرہ حکمران خاندان اپنے آپکو طاقت کا فطری سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کرنا صرف اور صرف ان کا حق ہے۔ وہ یہ حق کسی اور کو دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ وہ اپنی ذاتی سلامتی کو ملکی سلامتی کے متوازن گردانتے ہیں۔ یہ تمام عناصر جمہوری طرز حکومت کے بالکل منافی ہیں۔

ان دس پندرہ خاندانوں اور صدیوں پرانے حکمرانوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ میں طالبعلم کی حیثیت سے اس قدر مماثلت سے حیران ہو جاتا ہوں۔ وہ ہے "اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دولت کا ارتکاز"۔ یہ جبلت آج سے ہزاروں سال پہلے حکمرانوں میں بھی موجود تھی۔ آج پاکستان کے مقتدر خاندان بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمارے خطہ میں وقت تھم چکا ہے۔ ہم منجمد لوگ ہیں۔ ہم نے سڑکیں، پُل اور چند جدید استعمال کی اشیاء تعمیر کرنے کے علاوہ شعوری طور پر کوئی سفر طے نہیں کیا۔

آپ ہمارے حکمران طبقہ کو گزشتہ چالیس پچاس سال کے قلیل وقت کی عینک لگا کر دیکھیے۔ ان لوگوں نے صرف اپنے الفاظ کا چنائو تبدیل کیا ہے۔ انھوں نے مجبوری کے عالم میں مغربی نظام سے چند اچھے لفظ مستعار لے لیے ہیں۔ مگر حکومت کرنے کا طریقہ بھی وہی ہے اور مقصد بھی بالکل وہی۔ پاکستان میں ان چند لوگوں نے اپنی خواہشات کو ایک خوبصورت جمہوریت لفظ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔

اندر سے یہ بالکل وہی سفاک اور ظالم لوگ ہیں جنہوں نے لوگوں کی سوچ اور روزگار کو اپنا غلام بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ ملکی وسائل پر قبضہ کرنے کے بعد انتہائی معصومانہ شکل بنا کر جھوٹ سے گھڑی ہوئی باتوں سے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے تعجب یہ ہے کہ یہ لوگ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ صاحبان علم! کون سی جمہوریت، اور کیسا نظام، حقیقت میں سب کچھ صرف اور صرف دکھاوا ہے۔

لیو پولڈ(Leo Pold 11)11 بلجیئم کا بادشاہ تھا۔ وہ پنتالیس سال تک اپنے ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کرتا رہا۔ اسکو صرف ایک جنون تھا کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ امیر آدمی بن جائے۔ انیسویں صدی کے بلجیئم میں اتنی دولت پیدا کرنے کی استطاعت نہیں تھی۔ اس نے اپنے ارتکاز دولت کے جنون کو پورا کرنے کے لیے انتہائی بے رحمانہ فیصلے کیے۔ اس نے کانگو پر توجہ مرکوز کی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف کانگو کے ربڑ کے درخت تھے جو دراصل دولت پیدا کرنے کی قدرتی مشینیں تھیں۔ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ کانگو کی مدد کرنا چاہتا ہے۔

اس نے1885ء میں کانگو فری اسٹیٹ (Congo Free State) پر اپنے بنائے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر قبضہ کرلیا۔ یہ ملک بلجیئم سے حجم میں76 گنا بڑا تھا۔ اس کے قدرتی ذخائر بے نظیر تھے۔ اس ملک کی قدرتی ربڑ پیدا کرنے کی استطاعت بے مثال تھی۔ لیو پولڈ نے اس پورے خطہ پر شخصی حکومت قائم کر دی۔ وہ ساری دنیا کو بتاتا تھا کہ دراصل وہ کانگو کے لوگوں کا بہترین دوست ہے۔ اس کا مقصد محض یہ تھا کہ ربڑ کو بیچ کر اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کرلے۔ لیوپولڈ نے پورے ملک کی آبادی کو مکمل غلام بنا دیا۔

اگر یہ کہا جائے کہ اس نے پوری آبادی کو جانور کی سطح پر زندہ رہنے پر مجبور کر ڈالا، تو قطعاً بے جا نہیں ہو گا۔1885ء میں کانگو کی آبادی دو کڑوڑ تھی۔ وہ اکیس سال تک اس بدقسمت ملک کا بادشاہ بنا رہا۔ اس نے حکم دیا کہ ہر مرد، عورت اور بچہ روزانہ ایک خاص مقدار میں قدرتی ربڑ حکومت کے طے کردہ عمال کے حوالے کریگا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ دو کڑوڑ غلام کسی بھی طریقے سے اس کے لیے دولت کمانے کا ذریعہ بن جائیں۔ وہ اپنی اس ترکیب میں مکمل کامیاب رہا۔ اگر کوئی بھی شخص مقرر کردہ مقدار سے کم خام مال لاتا تھا تو اسکو شام کو سب کے سامنے قتل کر دیا جاتا تھا۔

لیوپولڈ اپنی اس صنعتی بادشاہت کو قائم رکھنے میں حد درجہ سفاک تھا۔ اس کے سپاہی عام لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے۔ وہ کسی بھی مزدور کا ہاتھ، کان، ناک یا پیر کاٹنے کا اختیار رکھتے تھے۔ وہ گائوں کے گاؤں نافرمانی پر زندہ جلا ڈالتے تھے۔ وہ لوگوں کو صرف اس قدر کھانے دیتے تھے کہ وہ محض زندہ رہ سکیں۔ اس کے دور ِحکومت میں تیس لاکھ مقامی لوگ محض فاقہ کشی سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے نزدیک بیمار لوگ بوجھ تھے۔ اس نے بیمار لوگوں کا علاج بند کروا دیا تھا۔

طبی سہولتیں آج سے ڈیڑھ صدی پہلے کیا ہونگی؟ مگر جو بھی دقیانوسی علاج کی سہولت موجود تھیں، اس نے وہ بھی مقامی لوگوں پر بند کر دیں۔ معمولی بیماریوں کی بدولت پانچ لاکھ لوگ بے موت لقمہ اَجل ہو گئے۔ وہ کہتا تھا کہ چھوٹے بچے کام نہیں کر سکتے اسلیے وہ کسی بھی کاروباری فائدہ کا باعث نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کی فوج نے ہزاروں بچوں کو بے رحمی سے قتل کر ڈالا۔ آپ اس کی دولت کی ہوس کا اندازہ لگائیے کہ دو کڑوڑ آبادی کے ملک میں سے ایک کڑوڑ لوگ قتل کر دیے گئے کیونکہ وہ اس کے ربڑ کے کاروبار میں مکمل معاونت نہیں کر سکتے تھے۔

آپ دنیا کے دس ایسے حکمران دیکھیے جنکا خواب اقتدار حاصل کر کے صرف اور صرف دولت کمانا تھا۔ ان کی تفصیل ہر جگہ موجود ہے۔ ان کا رویہ بالکل ایک جیسا تھا۔ آپ ششدر رہ جائینگے کہ ان میں کیسے کیسے سفاک اور بے رحم حکمران موجود رہے ہیں۔ الزبتھ باتھوری (Elizabeth Bathory) حقیقت میں اپنی رعایا کے لوگوں کا خون پیتی تھی۔ اسے آج بھی تاریخ کے اوراق میں کائونٹس ڈریکولا (Countess Dracola) کا لقب حاصل ہے۔

اب آپ اپنے ملک کے حالات کا تجزیہ کیجیے۔ غربت، بدحالی اور مفلسی کی بدولت ہمارے ملک میں روزانہ سات افراد خود کشی کرتے ہیں۔ ان میں وہ خواتین اور مرد شامل ہیں جن کو دو وقت کھانا نصیب نہیں ہے۔ جنکے بچوں کے پاس پہننے کے کپڑے نہیں ہیں۔ جن کے لیے اسکول ایک خواب ہے اور زندگی محض ایک کل وقتی عذاب۔ ہمارا غریب آدمی جب اپنے گھر کا پنکھا یا بلب جلاتا ہے تو وہ اس خطے کی مہنگی ترین بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ انڈیا، امریکا اور بنگلہ دیش سے زیادہ نرخ ادا کرتا ہے۔

دراصل وہ بجلی کا سوئچ نہیں آن کرتا، بلکہ وہ اپنی رگوں سے خون نکال کر حکومت کے حوالے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب ایک مزدور اپنی دیہاڑی کے لیے کسی کو فون کرتا ہے تو اس کے فون کے کارڈ پر بے رحمانہ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ حکومتی جبر کو ادا کرنے کے لیے وہ اپنے جسم کے ذرے ذرے کو بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال کرتا ہے مگر پھر بھی دو وقت کی باعزت روٹی اس کے بچوں کو میسر نہیں ہوتی۔

پہلے بادشاہ لوگوں کا خون پیتے تھے۔ ان کے اعضاء کاٹ دیتے تھے۔ اب اَن دیکھے قانونی طریقے سے عام لوگوں کا خون چوس لیا جاتا ہے! انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی بہتری کے لیے کیا جا رہا ہے! مجھے ایسے لگتا ہے کہ صدیوں سے صرف ظلم کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے! ہم تمام رعایا آج بھی ربڑ کے وہ درخت ہیں جو اگر بادشاہ وقت کو مقرر کردہ دولت مہیا نہ کریں تو انھیں کاٹ دیا جاتا ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں