نیا اور پرانا پاکستان

وہ کون دانش مند تھے جنہوں نے سیاسی حل کے بجائے عسکری ثالثی کو بہتر راستہ گردانا ...


Syed Talat Hussain August 30, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

QUETTA: حالات اسی طرف گئے جس کا خدشہ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے نیا پاکستان بنانے کا جو بِیڑہ اٹھایا ہوا تھا اس نے رُخ تبدیل کیا اور اب پاکستان کی صورت تھائی لینڈ یا مصر سے تو ملتی ہے مگر ان دعووں سے بہت مختلف ہے جو تمام ہڑبونگ کے دفاع میں بار بار کیے گئے تھے۔ کیا کہا جا رہا تھا اس کی سمری کچھ یوں ہے۔

نواز شریف بطور وزیر اعظم فارغ ہو جائیں گے۔

حکومت لکڑی کے برادے کی طرح ہوا میں اُڑ جائے گی۔

قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔

صوبائی اسمبلیاں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی جائیں گی۔

عوام خواص میں بدل جائیں گے اور خواص طالبان نما احتسابی عمل کے ذریعے کھمبوں سے لٹکتے نظر آئیں گے۔

ایک نیا آئین تشکیل ہو گا۔

عبوری حکومت بنے گی۔

گہری اصلاحات ہوں گی۔

نئے انتخابات کے ذریعے ایک نیا نظام تشکیل پائے گا۔

نواز شریف،آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، آفتاب شیر پائو، اسفند یار ولی کی جگہ نئے چہرے سامنے آئیں گے۔ یعنی چوہدری پرویز الٰہی، شجاعت حسین، سردار آصف احمد علی، غلام مصطفی کھر، شیخ رشید، جہانگیر ترین، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، نئی نسل کے یہ سیاستدان ملک کو ان عظیم الشان بنیادوںپر چلائیں گے جس طرح پرویز خٹک خیبر پختونخوا چلا رہے ہیں۔ اور ہاں انقلاب کی تصویر کچھ ایسی بننی تھی۔

پاکستان ٹیلی ویژن عوامی تحریک کے قبضے میں۔

وزیر اعظم ہائوس تحریک انصاف کے جھنڈوں اور ڈنڈوں سے لدا ہو۔

پارلیمنٹ میں انقلابی کرسیوں پر براجمان ہوں۔

جج صاحبان کی کرسیوں پر نئے منصف براجمان وغیرہ وغیرہ۔

طاہر القادری نے اپنی انگریزی میں بھرپور تقریر کر کے مغرب کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ جیسے وہ سائبیریا کی جیلیں کاٹ کر ملک میں واپس آنے والے لینن ہیں۔ جس کے ریڈ گارڈز زار کے ونٹر پیلس میں گھس کر جدید دنیا میں اپنی طرز کا واحد انقلاب لانے والے ہیں۔ ذرایع ابلاغ نے یہ تصورات اور وعدے نشر کیے۔ سپریم کورٹ پر لٹکی ہوئی شلواریں، بنیانیں، پٹکے اور چادریں فخر سے دکھائیں اور پھر نشر مکرر کے طور پر نام نہاد تجزیہ نگار کرسیوں پر بیٹھ کر یہ مناظر بار بار دکھاتے ہوئے تعریف اور توصیف کی تسبیحیں ایسے پڑھنے لگے جیسے قبولیت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔

کسی نے اس ظلم کو جس کا نشانہ بچے اور عورتیں بنے حقیقت کے تناظر میں نہیں دکھایا۔ کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ شہادت کی پٹیاں ماتھے پر بندھوا نے اور زندہ لوگوں سے اپنی قبریں کھدوانے اور ریاست سے ٹکرانے والوں، مارنے اور مر جانے کی ترغیب دینے والوں کا موازنہ ان گروپوں سے کریں جو معصوم بچوں کو بارود سے بھری جیکٹیں پہنا بھیجتے ہیں۔ ان میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں کے مقاصد انسانی جانوں کو زیر استعمال لا کر نظام کو تہس نہس کرنا تھا۔ مگر ایک کو انقلابی کہہ دیا دوسروں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔

مگر اس تمام اہتمام کے باوجود آخر میں جو ہوا وہ آپ سب نے دیکھا، تمام معتبر سیاسی حلقوں کو دھتکارنے، نظام کو للکارنے اور آخری بگل بجانے کے بعد ۔۔۔۔ ایک ٹیلی فون آیا اور کہا گیا کہ اب آپ فوج کی بات سن لیں۔ ایک نے انقلاب موقوف کر دیا دوسرے نے بات چیت کا پھر سے آغاز کر دیا۔ جلدی جلدی کمیٹیاں متحرک ہو گئیں اور آخری خبریں آنے تک استعفوں کے علاوہ وہ تمام مطالبات جو حکومت پہلے ہی مان چکی تھی اور جن پر قومی اتفاق رائے بھی بن چکا تھا بطور حتمی نتیجے کے قبول کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔

وہ کون دانش مند تھے جنہوں نے سیاسی حل کے بجائے عسکری ثالثی کو بہتر راستہ گردانا، اس کی تاریخ وقت آنے پر تمام تفصیل کے ساتھ بیان کر دی جائے گی۔ ابھی تجزیوں کی بھرمار ہے، کوئی اس کو حکومت کی کامیابی کہہ رہا ہے اور کوئی جمہوریت کی سبکی۔ کوئی عمران خان اور طاہر القادری کو اس ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دے رہا ہے اور کوئی حیرت زدہ ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا۔ کیونکہ حالات غیر یقینی ہیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا میں تفصیلی تجزیے سے گریز کر رہا ہوں۔

لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے منظر نامے پر بہر حال میں نے ٹوئٹر کے ذریعے مسلسل خیالات کا اظہار کیا ہے۔ تفصیل آپ پڑھ کر جان سکتے ہیں کہ اس تمام ہنگامے میں حقیقت کیا تھی اور اس کا افسانہ کیا بنایا گیا۔ انقلاب ایک سنجیدہ موضوع ہے تبدیلی دیر پا عمل ہے۔ بہترین جمہوریت کا حصول مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ عوام کے حقوق کی جہدوجہد طاقت اور تشہیر کے پیاسوں کی ترجیع کبھی نہیں بنتی۔ موجودہ نظام جو بدترین خرابیوں اور ناہمواریوں سے بھرپور ہے، دو ہفتوں میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ میں جب اصل پاکستان کے بانیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کی عظمت کو سلام کرنے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔

میں قائد اعظم کی دیانت داری اور ہمت کو اپنے سیاسی ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں علامہ اقبال کے افکار اس بلند ذہن کی پیدا وار ہے جو صدیوں میں کبھی ایک بار جنم لیتا ہے اور پھر میں ٹی وی اسکرین پر یا میدان میں جا کر نئے پاکستان کے بانیوں کو دیکھتا ہوں، دونوں کا موازنہ کرتا ہوں۔ مجھے ایک لمحے میں سمجھ آ جاتی ہے کہ پاکستان 1947ء میں کیوں کر بن پایا ۔ یقینا اس تمام ہنگامے میں سوچنے سمجھنے اور تھوڑی سی عقل رکھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں