جمہوریت کے رنگ ڈھنگ

پاکستان میں جمہوریت کی ایک نئی قسم ایجاد کی گئی جس کو خاندانی جمہوریت کہتے ہیں...


Anis Baqar August 30, 2014
[email protected]

PESHAWAR: دنیا میں جمہوریت کی کئی اقسام موجود ہیں، ایک نظام پارلیمانی طرز جمہوریت ہے جو انگریز نے برصغیر سے جاتے جاتے بھارت اور پاکستان کے سپرد کیا۔ دوسرا نظام جمہوریت صدارتی طرز حکومت ہے جو امریکا میں رائج ہے، جمہوریت کی ایک اور قسم میں عنان حکومت پرولتاریہ کے ہاتھ ہوتی ہے یعنی مزدور طبقات کے ہاتھ جیسا کہ کیوبا کے فیڈل کاسترو برس ہا برس اس نظام کو چلاتے رہے اور چین میں انقلاب کے بعد ماؤزے تنگ نے یہ حکومت قائم کی اور ان سب سے بڑھ کر روس نے عوامی جمہوریت کو دنیا میں پھیلانے کا بیڑہ اٹھایا۔

پاکستان میں جمہوریت کی ایک نئی قسم ایجاد کی گئی جس کو خاندانی جمہوریت کہتے ہیں اس جمہوریت میں خاندان کے لوگ مختلف شعبوں کے سربراہ ہوتے ہیں اس کی ابتدائی شکل تو پی پی پی نے تشکیل دی مگر اس کو وہ رنگ نہ دے سکی جو (ن) لیگ نے پیش کیا۔

پی پی پی اتنی بڑی تنظیم میں کوئی بھی اتنا لائق اور فائق نہ رہا جو کہ ان کے شہید نانا جان کے ساتھیوں میں ہو، قیادت نہ کر سکا مگر پارٹی بلاول پر متفق ہو گئی مگر (ن) لیگ تو نقطہ عروج پر لے گئی ذرا غور فرمائیں نواز شریف صاحب وزیر اعظم اور ان کے برادر یعنی وزیر اعظم کے بھائی شہباز شریف صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب اور پھر حمزہ شریف وزیر اعظم کے بھتیجے اب آگے آئیے۔مریم نواز نوجوانان پاکستان کے قرضے کے خواہش مند لوگوں کی سربراہ زر کا تمام کنٹرول ان کے دست مبارک میں۔

کیپٹن صفدر کے دروازے تک چلیے ایم این اے اور داماد وزیر اعظم چند قدم آگے مزید چلیں بلال یاسین صوبائی وزیر خوراک وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ کے قریبی عزیز اور عابد شیر علی وزیر مملکت پانی و بجلی وغیرہ وغیرہ اب کہاں تک چلیں یہ کہلاتی ہے خاندانی جمہوریت۔ یہ دراصل بادشاہت کی ایک شکل ہے یقیناً پی پی پی کئی درجے اس سے کم ہے۔

وزارت خزانہ کا قلمدان تو ڈار صاحب کے پاس اب اس رشتے داری پر تبصرہ مزید کرنا تو بے سود ہے مگر اس عزیزداری کا ایک فائدہ تو ہے مگر یہ عزیز داری بعض سیاسی پہلوؤں کی وجہ سے شدید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اب دیکھیے وسط جون 2014ء میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو پولیس کارروائی کی گئی اس میں 14 افراد گولیوں کا نشانہ بنے اور سیکڑوں زخمی ہوئے جس نے تحریک میں روح پھونک ڈالی اور معاملات شدت اختیار کر گئے۔

حکومت کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ایک متنازعہ معاملہ بن گیا اور صوبائی انتظامیہ کے اس عمل نے نواز شریف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پنجاب حکومت کی غلطی سے وزارت عظمیٰ پر ضرب لگ گئی اسی لیے قرابت داری سیاسی معاملات پر ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئی۔

دوسری جانب حمزہ شہباز اور دیگر (ن) لیگ کے لیڈروں نے عوامی قوت کا جو مظاہرہ کیا وہ نہایت بے اثر ثابت ہوا کیونکہ نیا بجٹ آئی ایم ایف کے دباؤ کی بنا پر بنایا گیا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کر رکھی ہے پھر الیکشن میں دھاندلی کا عام لوگوں کو بھی ادراک تھا اس لیے مینڈیٹ چوری کا شور جس طریقے سے عمران خان نے مچایا اور شواہد جمع کیے اس کی مثال نہیں ملتی۔

اتفاق کی بات ہے کہ افضل خان کے ٹی وی پر بیانات اور عمر کوٹ میں جس طرح الیکشن کا عملہ یرغمال تھا اس کے انکشاف نے حکومتی مینڈیٹ کو بری طرح مجروح کر دیا اسی لیے عوام کے ایک بڑے گروہ نے عمران خان اور علامہ کے کہنے پر اسلام آباد میں اسمبلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا اور وہ 15 روز گزرنے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ ہر روز مجمع نئی مزاحمتی قوت سے سرشار نظر آتا رہا اور حکومتی خوف اس کے نزدیک نہ رہا۔

علامہ طاہر القادری نے جب کفن لہرایا تو ایسا لگا جیسے بندوق کی نالیاں ٹوٹ کے گر پڑیں عزم اور استقلال یقیناً سربلند رہتا ہے دوسری طرف عمران خان جدید دور کے جدید انداز میں سینہ سپر اور انقلابی اصلاحات کے ساتھ اپنے بندھن کو قریب تر کرتے رہے امریکا کے دباؤ اور مسٹر منٹر کے بیان کو جس طرح عمران خان نے رد کیا وہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد انداز تھا کیونکہ یہ امریکا ہی تھا جس نے یوکرین میں دھرنے کی حمایت کی اور یوکرین کی منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا۔

اس طرح دوہرے معیار نے منطقی طور پر اس کی سفارتکاری کو بے توقیر کر دیا امریکی سفارتکاری اوباما دور میں مسلسل روبہ زوال ہے لہٰذا فوجی مداخلت کی جو دھمکی امریکا نے لگائی تھی وہ بے سود رہے گی اور پاکستانی فوج دباؤ میں ہرگز نہیں آئے گی۔

علامہ طاہر القادری نے عورتوں اور بچوں سے پاک افواج کے لیے جو نعرے لگوائے اس نے اسمبلی پر اگر یلغار ہوتی ہے تو فوج امید ہے کہ عوام پر گولی نہ چلائے گی کیونکہ معرکہ عضب پر علامہ کی پر جوش حمایت جاری ہے اور عمران خان اپنی سیاسی قوت اور بے عیب زندگی اور ان کے عزیز و اقارب فوج میں اچھی پوسٹوں پر ہونے کی وجہ سے ان تک اپنا موقف سمجھانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جب کہ دوسری جانب خاندانی جمہوریت ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت بھنور میں پھنس چکی ہے کیونکہ موجودہ جمہوری حکومت خاندانی نظام ہے اور اگر ایک کڑی کو بھی توڑنے کی کوشش کی گئی تو زنجیر کی تمام کڑیاں ٹوٹ جائیں گی۔

اگر یہ لوگ الگ الگ خاندانوں اور میرٹ (Merit) بھی ایک معیار کی بنیاد پر آئے ہوتے تو ایک وزیر کو فارغ کر دیتے اور باقی حکومت چلتی رہتی مگر یہ سب ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں اور کئی کئی رشتے داریاں ہیں۔ لہٰذا وزیر اعظم نہ خود استعفیٰ دے سکتے ہیں اور نہ کسی کو استعفیٰ دلوا سکتے ہیں کیونکہ یہ تمام عملہ ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے سیاسی اور ان کا معاشی مفاد ان میں پرویز رشید نے البتہ زمانہ طالب علمی میں کچھ کام کیے ہیں مگر ان میں بھی سیاسی مفادات اور معاشی مفادات کا سایہ ہے وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ایک مقدس جمہوری گائے ہے جب کہ قطعاً ایسا نہیں۔

یہ ایک معاملہ فہم کاروباری گروہ ہے اسی لیے دنیا کے بڑے ملکوں میں کاروباری حضرات کو کبھی بھی سربراہ مملکت نہیں بنایا جاتا کیونکہ ان میں خود اپنے کاروبار کی ترقی اور دوسروں پر سبقت لے جانے کا جذبہ ہوتا ہے ایک کاروباری دوسرے کے کاروباری کام نہیں آتا اس لیے معاملات کا رخ تصادم کا واضح ہے اور جو لوگ دھرنے میں بیٹھے ہیں وہ کچھ نہ کچھ اصلاحات پر عمل درآمد کرائے بغیر اٹھنے کو نہیں ایک اور کروٹ وقت آخر میں یہ نظر آتی ہے کہ ایم کیو ایم کو بھی انقلاب کی دستک سنائی دے رہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ بھی اپنی پتنگ ہوا میں لہرا دیں، صورتحال یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج ہو چکا ہے مگر قادری صاحب کو کیا معلوم کہ یہ مقدمے موجودہ دور حکمرانی میں کاغذ کی ناؤ ہے جو کچھ دیر بعد پانی میں ڈوب جائے گی۔

لہٰذا اس بنیاد پر فیصلہ کیا ہو سکتا ہے، عمران خان نے 24 اگست کو یہ اعلان کیا کہ عوام بجلی کے بلوں کی مزاحمت کریں اور ان کے وعدے کے مطابق پاکستان کو فلاحی ریاست بنا کے دم لیں گے اور اس حکومت کو گرا کے دم لیں گے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہو گا اگر حکومت نے دھرنے کے شرکا پر طاقت کا استعمال کیا تو حکومت کا چراغ گل ہو کے رہے گا اور خاندانی جمہوریت نہ چل سکے گی۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ فوج کی ثالثی اور ضمانت کار بننے کے بعد کیا ہو گا، اس کا فیصلہ اب جلد ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں