عظیم ملک کے بدنصیب لوگ
بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی اچانک رحلت کی وجہ سے حکمرانی ایسے لوگوں کے سپرد ہوگئی.....
ہمارا وطن عزیزدنیا کے نقشے پر نمودار ہونے کے دن سے لے کر اب تک نجانے کتنے بحرانوں اور مصیبتوں سے گذرتا رہا ہے کہ ہم نے کبھی کوئی اچھا اور سنہرا دور اُس کے نصیب میں نہیں دیکھا۔ہر دور اُس کے لیے ایک نازک دور ہی رہا ہے۔کبھی کہیں سے یہ صدا سنائی نہیں دیتی کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے یہ چند سال خیریت سے گذر گئے اور اِس دوران کوئی آفت اور بلا ہماری سر زمین پر نازل نہیں ہو پائی۔
ابتدا سے لے کرآج تک کوئی نہ کوئی مصیبت ہمارے وطن کو گھیرے رکھتی ہے۔ابھی پچھلی مصیبت اپنی تباہ کاریاں ختم بھی نہیں کر پاتی کہ ایک نئی آفت اُسے مکمل طور پر دبوچ لیتی۔کبھی سیلاب، کبھی زلزلے اور کبھی طوفان تو قدرتی آفتیں ہیں جن پر کسی کا زور نہیں چل سکتا مگر اپنوں کے ہاتھوں لائی گئی مصیبتوں نے ہمیںانتہائی لاغر اور کمزور کرکے رکھ دیا ۔شروع شروع میں حکومتی نظام کی ناپائیداری اور عدم استحکام کی وجہ سے ہم اپنے ملک و قوم کوکوئی خوشخبری نہ دے سکے۔
بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی اچانک رحلت کی وجہ سے حکمرانی ایسے لوگوں کے سپرد ہوگئی جنھیں شاید حکومت کرنے کا کوئی خاطر خواہ تجربہ نہ تھا۔ اُن کی اِس ناپختگی اور نااہلی کی بدولت اقتدار کے ایوانوں میں ہمیشہ ہلچل اور بے چینی ہی گردش کر تی رہی۔ مزید براں اندرونِ خانہ سازشوں اور مکارانہ سیاسی چالوں کے ذریعے کسی بھی وزیرِ اعظم کوآزادی اور دل جمعی سے کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ ہر روز نت نیا فتنہ کھڑا کر کے اُس کی راہوں میں بڑے بڑے روڑے اٹکائے گئے۔
آزادی سے لے کر آج تک تقریباً67برس بیت چکے لیکن ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی سکون کا سانس لینے کا موقعہ نہیں دیا گیا۔بیرونی دشمن اور سامراجی قوتیں تو پہلے ہی ہماری تباہی و بربادی کی خواہشمند رہی ہیں۔ وہ ہر چند سال بعد ہمارے وطنِ عزیز کے حصے بخیے کرنے اور اُسے مختلف اکائیوں میں تقسیم کرنے پیشنگوئیاں کرتی رہی ہیں۔ اُن کے تھنک ٹینک آئے دن ہمارے ملک کو کئی حصوں میں بانٹنے اور اُس کی وحدت وسالمیت کے خاتمے کی تاریخیں دیتے رہے ہیں۔کبھی کہا جاتا تھا کہ پاکستان 2012 تک ایک ملک کی حیثیت سے قائم نہیں رہے گا۔
وہ تین چار حصوں میں تقسیم ہو کر اپنی اصل حالت کھو بیٹھے گا۔اور کبھی کہا جاتا ہے کہ 2025 تک پاکستان روئے زمین پر اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔لیکن یہ ملک جس کے اتنے سارے دشمن ہوں اللہ کے فضل وکر م سے ابھی تک قائم و دائم ہے۔ہاں البتہ اپنے ہی لوگوں کی نااہلیوں، غلطیوں اور غیر دانشمندانہ حکمتِ عملیوں کی بدولت1971 میں یہ ملک دولخت ہوگیا۔ جس دو قومی نظریے کو لے کر قائدِ اعظم نے انگریزوں سے یہ پاکستان حاصل کیا تھا وہ دو قومی نظریہ اگر پاش پاش نہیں ہوا تو کم از کم کمزور اور شکستہ ضرور ہوگیا۔
مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ اپنی تاثیر اور افادیت کھو بیٹھا۔ ہندوستان میں آج کتنے صوبے اور فرقے ہیں لیکن وہ ایک اکائی کی شکل میں ہنوز مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم آزادی کے صرف 25برس بعد اپنی ایک مسلم مملکت کی حیثیت برقرار بھی نہ رکھ پائے۔
وطن دشمنی کا یہ سلسلہ اِس اندوہناک واقعے کے بعد بھی نہ تھم سکا اور ہم پھر سے اِس بچے کچے پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں بیرونی سازشوں کی آلہِ کار بن گئے۔ہمارے ملک کے صرف چار صوبے ہیں اور وہ بھی ایک ساتھ مل جل کر رہنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے ہیں۔بنگلہ دیش کے بعد اب بلوچستان میں بھی علیحدگی کے نعروں کو جلا بخشی جانے لگی اورایک منظم تحریک کے ذریعے علیحدگی پسندرجحانات کو ہوا دی جانے لگی۔مختلف دور میں وہاں آپریشنز کیے گئے مگر مسئلہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ایسے ہی وطن دشمن خیالات باقی ماندہ پاکستان میں بھی پروان چڑھتے رہے ہیں۔
کبھی کوئی ڈیم بنانا ہو یا کبھی کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنا ہو تو صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دی جانے لگتی ہے۔کبھی دستورِ پاکستان میں کوئی ترمیم کرنی ہو تو یا پانی کی تقسیم کا معاملہ طے کرنا ہو تو صوبے آپس میں دست و گریباں ہوئے جاتے ہیں ۔ملک کا جغرافیہ بدلنے کی باتیں گردش کرنے لگتی ہیں۔بین الصوبائی مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے تو خوف رہتا ہے کہ کہیں ملک توڑنے کی باتیں نہ شروع ہو جائیں۔ ایسے اہم اجلاس جنھیں صوبوں کے درمیان محبت و آشتی کا ذریعہ ہونا چاہیے وہ بجائے اِس کے نفرت و نفاق کا باعث بننے لگتے ہیں۔
ایسے ماحول میں کس طرح کوئی قوم ترقی وخوشحالی کے مراحل طے کرکے سرخرو اور کامیاب ہو سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم ابھی تک کوئی مقام حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ ہم صوبائی اور لسانی تعصب میں پھنسی ہوئی ایک ایسی قوم ہیں جنھیں پاکستانیت سے زیادہ اپنی صوبائی شناخت پر فخر ہے۔اِن تمام مشکلات اور مصائب کے باوجود اگر آج ہمارا وطن عزیز دنیا کے نقشے پر قائم و دائم ہے تو اِس میں ہماری اپنی کوئی کاوش اورحکمت ِ عملی کارفرما نہیں ہے۔ یہ سب ربِ کریم کی ہم پر مہربانی ہے کہ اُس نے ہمیں ایک ایسامضبوط ملک اور وطن دیا ہے جو بے شمار ملکی و غیر ملکی سازشوں کے نرغے میں رہتے ہوئے بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
دو عالمی طاقتوں کی لڑائی ہو تو نشانہ ہمارا وطن پاکستان ہو۔ سویت یونین افغانستان پر حملہ کرتا ہے تو اُس سے نبرد آزما ہونے کی ذمے داری بھی ہم پر ڈالی جاتی ہے۔ نائن الیون کا واقعہ امریکا میں ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کی ساری جنگ ہمارے علاقے میں لڑی جاتی ہے۔ دس سال تک ہماری معیشت پر کاری ضربیں لگائی جاتی ہیں اور وصول کنندہ کوئی اور ہوتا ہے۔
ایران سے دشمنی کسی اور کی مگر اُس سے گیس سپلائی کا معاہدہ ہم نہیں کر سکتے۔کاشغر سے گوادر تک کوئی راہداری بنانی ہو تو پہلے کسی کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوں کو غور سے پڑھنا ہوگا۔پھر بھی باز نہ آئے تو پھر وہی کچھ ہوگا جو آج کل ہمارے یہاں ہو رہاہے۔ملک کے اندر ہونے والی حالیہ افراتفری اور سیاسی بے چینی کے پیچھے کونسے عوامل اورعزائم کارفرما ہیں جن کا پتہ ہمیں آج نہیں کئی سال بعد معلوم ہوگا۔
بالکل اُسی طرح جس طرح بنگلہ دیش بننے کی اصل سازش کا انکشاف ہنری کسنجر نے کئی سال بعد اپنی کتاب میں کیا۔انقلاب کے سحر انگیز نعروں کے پیچھے عوام کی حالتِ زار بدلنے کی کوئی خواہش کارفرما نہیں ہے۔ ایسے انقلاب کے کئی شوشے گزشتہ چند برسوں میں سارے عالمِ اسلام میں چھوڑے گئے لیکن کسی کا نتیجہ بھی وہاں کے لوگوں کی خواہش کے مطابق برآمد نہیں ہوا۔
اب یہ طلسماتی انقلاب ہماری سرزمین پر لینڈ کرنے والا ہے دیکھتے ہیں اِس کا نتیجہ بھی کہیں مصر کے انقلاب کی مانند تو برآمد نہیں ہوگا۔انقلاب کے علمبرداروں میں سے بیشترکی خواہش تو یہی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ، انقلاب آئے یا نہ آئے موجودہ سسٹم ضرور لپیٹ دیا جائے۔ دوہفتوں سے جاری اِس ساری ہنگامہ آرائی میں کسی کا نقصان ہو یا نہ ہو ہمارے وطن پاکستان کا نقصان ضرور ہوچکا ہے۔معاشی و اقتصادی طور پر وہ یقینا کئی سال پیچھے چلا گیا ہے۔