تعمیراتی شعبہ خصوصی توجہ کا متقاضی
ریدار جو کہ پہلے ہی غریب تنخواہ دار طبقہ ہوتا ہے....
ISLAMABAD:
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں تعمیراتی صنعت کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، کیوں کہ تعمیرات کے ساتھ تقریباً 100 صنعتیں منسلک ہوتی ہیں۔ تعمیراتی شعبے جس میں ہر قسم کے افراد کی کھپت ہوجاتی ہے، محنت کش، ہنر مند، ناتجربہ کار ورکرز، مختلف ٹریڈ کے اسکلڈ پرسنز، ڈپلومہ ہولڈرز، انجینئرز اور دیگر افراد اس شعبے سے منسلک ہوکر اپنے لیے سامان زیست پیدا کرلیتے ہیں۔ مختلف اوقات میں مختلف جائزے لیے جاتے رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ملک میں مزید کتنے مکانوں کی ضرورت ہے۔کتنے رہائشی یونٹس درکار ہوں گے۔
1972 میں جب صنعتیں قومیا لی گئیں تو بہت سے صنعت کار تعمیراتی شعبے کی جانب متوجہ ہوئے اور ملک بھر میں فلیٹس کی تعمیر کا سلسلہ زور و شور سے شروع ہوا۔ صنعت کاروں نے اپنی بلڈرز کمپنیز بناکر لوگوں کو مکان تعمیر کرکے دیے اور مختلف سوسائٹیز کی بنیاد رکھی گئیں۔ جہاں ون یونٹ بنگلے یا مکانات وغیرہ تعمیر کرکے قسطوں میں دیے جانے لگے۔
لیکن اس سلسلے میں کئی قباحتیں بھی سامنے آتی رہیں کہ ان فلیٹس یا بنگلوں کی جو بھی قیمت ابتدا میں طے کی جاتی تھی کہیں اس سے 30تا 40 فی صد یا بعض اوقات دگنی قیمت کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے جس پر الاٹیز مجبور ہوجاتے کہ مطالبہ شدہ رقم کی ادائیگی کا فوری بندوبست کیا جائے بصورت دیگر رہائشی یونٹس پر قبضے کے حصول سے محروم رہ جاتے۔ بظاہر کوئی ایسا قانون بھی نہیں تھا جو کہ صارفین کے لیے تقویت کا باعث بنتا۔ تعمیراتی صنعتوں کے مالکان کی خواہش ہوتی کہ زیر تعمیر منصوبوں سے جتنا زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے کمالیا جائے۔
دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ سوسائٹیوں کے لیے بڑے بڑے قطعہ اراضی مختص کرلیے گئے اور کئی عشرے گزرنے کے باوجود وہاں پر آبادکاری کا کام نہ ہوسکا، پلاٹس بھی فروخت کردیے گئے اور لوگ برسہا برس سے منتظر رہے کہ کب یہاں تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوگا۔
اول ایسی جگہیں جو کہ پہلے زرعی پیداوار کے لیے مختص تھیں اور وہاں سے ہزاروں من زرعی پیداوار حاصل کی جاتی تھیں، یہ سلسلہ رک جانے کے باعث بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہر شہر کے گردونواح کی زمین خاص طور پر سبزیوں کی کاشت کے لیے مخصوص ہوتی ہیں، لیکن جب گرد و نواح کے علاقوں میں ان زرعی زمینوں کو خرید کر سوسائٹیز کے لیے مختص کردیا جائے اور پھر وہاں آباد کاری بھی کئی عشروں سے نہ ہو رہی ہو، ان وسیع ترین رقبہ اراضی کے بیکار پڑے رہنے کے باعث یہاں سے حاصل ہونے والی سبزیوں، پھلوں اور دیگر فصلوں سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے جس کے باعث شہر میں سبزیوں کی رسد میں کمی واقع ہو کر سبزیوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ملک میں تعمیراتی صنعت کو پھلنے پھولنے دینے کے لیے ابھی تک کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی ہے، جس کے باعث لوگوں کو رہائشی سہولیات میں دن بدن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان میں اگر مناسب منصوبہ بندی کرلی جائے تو تعمیراتی صنعت میں بے حد زیادہ سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور نقصان کا بھی اندیشہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے قومیائے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایکسپو کراچی میں ہونے والی نمائش میں 24 غیر ملکی تعمیراتی کمپنیوں نے بھی شرکت کی۔ کہا جارہا ہے کہ 800 ملین کی غیر ملکی سرمایہ کاری متوقع ہے جب کہ مختلف تعمیراتی کمپنیوں نے مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے کے تعمیراتی منصوبے ڈیزائن کرلیے ہیں اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر غیر ملکی سفارت کاروں نے بھی دورے کرکے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
معاشی منصوبے بنانے والوں کو اس بات کا بھرپور خیال کرنا ہوگا کہ صرف تعمیرات کے شعبے پر بھرپور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ تعمیراتی میٹریل کی پاکستان میں تیاری کو بھی مد نظر رکھا جائے،عموماً کئی عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے کہ تعمیراتی کمپنیز جب اپنے منصوبے شروع کردیتی ہے تو اس میں میٹریل کے استعمال کے لیے غیر ملکی مصنوعات پر انحصار کیا جاتا ہے، منصوبہ شروع کرتے وقت جب درآمدی میٹریل کی لاگت کا اندازہ لگایا جاتا ہے پھر جیسے ہی روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے غیر ملکی تعمیراتی میٹریل کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث پراجیکٹ کی لاگت میں بھی اضافہ ہوجا تا ہے اور یہ اضافہ خریداروں پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ خ
ریدار جو کہ پہلے ہی غریب تنخواہ دار طبقہ ہوتا ہے۔ ماہانہ کمیٹیز کی بنیاد پر ہر ماہ کمیٹی دیکر پھر انھیں کچھ رقم ہاتھ آتی ہے وہ رقم تعمیراتی کمپنی کے حوالے کردیتے ہیں اور میٹریل کے مہنگے ہونے پر جب ان سے مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو لوگ اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ میٹریل ملک میں تیار کیا جائے اور اس کی کوالٹی بھی معیاری ہو جو کہ در آمدی میٹریل کا مقابلہ کرتا ہو تو لوگ اس کی خریداری کی جانب متوجہ ہوں گے۔
ملک میں بھی تعمیراتی میٹریل تیار کیا جاتا ہے جس میں سے بہت سامان انتہائی اعلیٰ معیار کا بھی ہوتا ہے حتیٰ کہ بیرون ممالک فروخت کے لیے بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن ان باتوں کے باوجود مکان بنانے والے، بنگلے بنانے والے درآمدی سامان استعمال کرتے ہیں کہ ان پر تفاخر کیا جاسکے کہ یہ جرمنی سے در آمد شدہ ہے، اٹلی سے منگوایا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ملک کی مجموعی آبادی کا 60 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان نوجوانوں کے لیے تعمیراتی شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، شہروں میں خاص طور پر منصوبہ بندی کے تحت سوسائٹیز تعمیر کی جانی چاہئیں کیوں کہ ملک کے بڑے شہر ایسے ہیں جہاں کچھ آبادیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں کچی آبادیوں کا حصہ کہیں 50 فی صد اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہے موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر جب کہ ملک میں سیاسی کشیدگی کے باعث ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ تقریباً 700 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
راقم کی رائے میں ابھی تک ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی کشیدگی کے باعث تقریباً 50ارب کا معیشت کو نقصان ہوچکا ہے لیکن ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث واجب الادا قرضوں کی مالیت میں 180 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ لہٰذا اسے بھی نقصان میں شامل کرلیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ معیشت کو تقریباً 7 سو ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری منصوبہ بندی کے تحت تعمیراتی شعبے کو فوقیت دی جائے اور اس شعبے کو مراعات فراہم کی جائیں۔
ملک کی تعمیراتی صنعت کی تعمیر و ترقی میں پاکستان اسٹیل کا بھی خصوصی کردار ہے اس پر ضروری ہے کہ حکومت خصوصی توجہ دے۔ گزشتہ دنوں پاکستان اسٹیل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) ظہیر احمد خان نے کہاکہ پاکستان اسٹیل کی صورت حال عمومی نہیں بلکہ خصوصی توجہ کی متقاضی ہے، ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ''جنوری 2015 تک 77 فی صد پیداوار کا ہدف حاصل کیا جائے'' امید کی جاتی ہے کہ پاکستان اسٹیل اگر اپنا پیداواری ہدف حاصل کرلیتا ہے تو یہ تعمیراتی شعبے کے لیے معاون ہوگا۔
لہٰذا حکومت کو پاکستان اسٹیل کے تمام تر مسائل کا جائزہ لے کر اسے ہر طرح کی سہولیات مہیا کرنا ہوں گی۔ کیوں کہ اسی شعبے میں اتنی وسعت ہے کہ ملک کے لاکھوں بیروزگار نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہوکر اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تعمیراتی شعبے سے وابستہ جتنے بھی شعبے ہیں ان کی ترقی کے لیے بھی بھرپور کوشش کی جائے۔ تاکہ معیشت کو حالیہ دنوں میں جو نقصان پہنچا ہے اس کا بھی ازالہ کیا جاسکے اور ملک میں بیروزگار نوجوانوں کی جو کھیپ تیار ہورہی ہے ان کا کھپانے کا بھی مستقل انتظام کیا جاسکے۔ تعمیراتی شعبہ تعمیراتی میٹریل تیار کرنے کی صنعتیں اور پاکستان اسٹیل یہ سب حکومت کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔