گروہ
برداشت مساویانہ سلوک سے حاصل ہوتی ہے اور مساویانہ سلوک کے لیے ایک اعلیٰ فکری سوچ کی ضرورت ہے ...
عقیدے، نظریات، فکری تضادات، فقہ، مذہب سے قطع نظر ہر ملک کے کچھ اصول، ہر سوسائٹی کے کچھ قواعد وضوابط ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے بھیڑوں کے ریوڑ نہیں ہیں، اشرف المخلوقات کے تہذیبی ترقی کے مالک گروہ ہیں۔
گروہ کو مثبت معنی میں سمجھیے گا کیونکہ آج کل گروہ کا لفظ بدنام ہوچکا ہے تفصیل سے گریز کرتا ہوں نفس مضمون کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم مہذب معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ آپ اتفاق کریں گے کہ مہذب معاشرے کے اجزائے ترکیبی میں امن اول شرط ہے امن اعتدال سے وجود میں آتا ہے۔ اعتدال برداشت سے پیدا ہوتا ہے۔
برداشت مساویانہ سلوک سے حاصل ہوتی ہے اور مساویانہ سلوک کے لیے ایک اعلیٰ فکری سوچ کی ضرورت ہے جو قوم کے راہ نما اس قوم کو دیتے ہیں۔ یہ قدرت کا اصول ہے، ہم نبی پیغمبروں کی گفتگو کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دین کی اساس ہے۔ دوسرے معاشروں کا تصور الگ ہونے کے باوجود مصلح کا تصور موجود ہے۔
یہ لوگ جو قدرت کے پیدا کردہ منتخب کردہ ہوتے ہیں کیا کرتے ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کی زندگیوں کے حالات پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ سب سے پہلے اصولوں کو خود پر لاگو کرتے ہیں۔ مثال بن کر ابھرتے ہیں۔ یعنی محض فلسفہ بیان کردینا تو مجھ جیسے لوگوں کو بھی آتا ہے بس فلسفہ بیان کردو اورگھر بیٹھ جاؤ قوم خود سدھر جائے گی یا ترقی کرلے گی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میدان عمل ضروری ہے اور اس میں عمل کا مظاہرہ بھی۔
کیوں ہم دنیا بھرکے لوگوں کا نام مثال میں لیتے ہیں ایک نام نیلسن منڈیلا مثال کے طور پر میں لیتا ہوں محض بات کرنے کے لیے انھوں نے جو جدوجہد کی اس کا تقاضا بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ آخری سانس تک قوم کے رہنما رہتے اور قوم کے صدر رہتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک خاص عرصے کے بعد انھوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے ساتھ جو ان کے ذہن میں تھا یہ عہدہ چھوڑ دیا اور اپنی جگہ اپنی کسی خاص پسندیدہ شخصیت کو جس سے وہ آیندہ فائدہ اٹھاسکتے تھے یہ مقام نہیں دیا بلکہ Public Choice پر سارا معاملہ چھوڑ دیا۔ یہ کیا تھا۔ یہ لیڈروں اور عوام کی تربیت کا ایک انداز تھا ہزار سال کی بھی کسی لیڈر کی عمر ہو تو اس کے بعد بھی تو ایک لیڈر چاہیے اور اس کے لیے کوئی باقاعدہ عمل بہت ضروری ہے کہ جس کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رہے۔
وہاں سب کچھ اچھا ہے یا سب کچھ اچھا رہے گا۔ یہ کہنا میرا مقصد نہیں ہے صرف ایک نظر اس فلسفے پر ڈالنے کے لیے مثال پیش کی اگر وہ اس فلاسفی سے روگردانی کریں گے جو ان کے عظیم راہ نما نے پیش کی اور عمل کرکے دکھایا تو وہ نقصان اٹھائیں گے جو ایسا کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔
ایک اچھے معاشرے میں آپ کتنی بھی کوشش کرلیں غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ کم ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ ہے تمام لوگوں کا یکساں رویہ نہ ہونا اور وہ نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل کے ظالمانہ معاشرے میں بھی کچھ لوگ اس معاشرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہ آوازیں کبھی کبھار سننے میں آتی ہیں۔ برخلاف معاشرہ آپ کے سامنے ہے تمام تر جبر یا کسی اور طرف قوم کو متوجہ رکھنے کا عمل اور یہی قابل غور ہے۔
جبر کی مذمت تو اس کے ہوتے ہوئے بھی ہوتی ہے اور لوگ پابند قید و سلاسل ہوتے ہیں۔ یہ ہر معاشرے کا المیہ ہے اور جبر کی مذمت پھر تاریخ کے صفحات میں لکھی جاتی ہے جو قیامت تک جبر کے ذمے داروں کے چہرے کی کالک ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ضیا الحق کا دور تاریخ کا سیاہ ترین دور سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی ''تشکیل اور ہمواریت'' کی ذمے دار 2 چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کو دین اسلام کے توسط سے عرض کرتا ہوں دوسرے معاشروں میں بھی ہوگا یہی نام دوسرے ہوں گے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اسلام ایک Perfect Religion ہے مگر اس کے آج کے Practice کرنے والے ایسے نہیں ہیں کہ قابل فخر انداز میں ان کا ذکر کیا جاسکے۔ فلسطین اور عرب دنیا یہ دو تین لفظ کافی نہیں سمجھانے کو۔ وہ دو چیزیں ہیں شکر کا کلمہ ادا کرنے والی زبانیں اور برائی کو روکنے والے ہاتھ۔
شکر کا کلمہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کام نہ کرو بھوکے رہو اور شکر ادا کرتے رہو۔ یہ تو سراسر ناانصافی ہے کام کرنا، کمانا اور شکر ادا کرنا اصل شکر کا کلمہ ہے۔ ساری دنیا میں بھوکوں کے ریوڑ ہیں اور وجہ ہے انسان کا کام نہ کرنے کا جذبہ اور سہل پسندی۔ میں صرف اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا۔ وہ امریکا جو دنیا بھر کو ''سدھارنے'' کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہے پہلے اپنے ملک سے تو بھوکوں اور بھوک کا خاتمہ کرلے۔
چھوٹا ٹھیکیدار برطانیہ سدا کا بھوکا، وہ ختم کرلے اپنے یہاں سے سب کچھ۔ ہندوستان کو لوٹ کر اور اس کے حصے بخرے کرکے بھی اس کا پیٹ اب تک نہیں بھرا۔ بھوکے کا بھوکا ہی ہے اب مشرق وسطیٰ کے وسائل پر بھوکے کتے کی طرح نظر جمائے بیٹھا ہے کہ بھیڑیوں سے جو بچے گا وہ مجھے ملے گا۔
بہت افسوس ہے مجھے، بہت کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سچ نہ بولوں مگر ہاتھ کا قلم اور دل کی دھڑکن ایک ساتھ ہوجاتے ہیں تو میں بھی مجبور ہوجاتا ہوں کہیں کہیں ان کو راستہ دینا پڑتا ہے ورنہ دل بند ہو جائے گا قلم رک جائے گا۔
برائی کو روکنے والے ہاتھ۔ اب پھر کشمکش ہے۔ سب سے بڑے ہاتھ ''اقوام متحدہ'' جو کچھ اور ''ہاتھوں'' کے ہاتھ ''گروی'' ہیں۔ ''ویٹو'' ناانصافی کا سب سے بڑا ''سکہ'' کیوں ویٹو؟ سب انسان نہیں ہیں؟ سب دنیا کے ممالک نہیں ہیں؟ سب ایک نہیں ہیں؟ Unity اور Humanity کی باتیں کرنے والے جب ''مفاد'' کا سوال آتا ہے اپنا اور اپنے ساتھ کے مفاد حاصل کرنے والوں کا تو "Veto" کردیتے ہیں انصاف کا۔ یعنی ''یہی ہوگا چاہے کچھ بھی ہو'' تو یہ انصاف تو نہ ہوا نا؟ پھر کیوں منصفانہ سلوک کے دعوے دنیا کے ساتھ؟
ہمارے ملک کی بات کرلیں کہ آخر تو کتابوں سے دل نہیں بہلے گا۔ حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے یہاں سب سے بڑی خرابی ہمارے عوام میں ہے۔ زبان۔ چھوٹے چھوٹے ''مفادات'' کے لیے ''گروی'' رکھ دی بولتے نہیں۔ برداشت کرتے ہیں ظلم اور اسے ''کلمہ شکر'' کہتے ہیں۔
قوت کس کے پاس ہے عوام کے پاس؟ چھوڑ بیٹھے قوت۔ دے دی چند لوگوں کو جاؤ تم فیصلہ کرو ہم آرام کرتے ہیں۔ اسمبلی کے اندر بھی اور باہر بھی۔ دونوں جگہ یہی کیا ہے۔ کوئی ایک تو غلط ہے تو جو غلط نہیں ہے اور جو غلط ہے دونوں برابر
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
یعنی بادشاہ بابر نے کہا بابر عیش کرو یہ دنیا دوبارہ کب ملے گی۔ یہ ہیں ہم۔ بک جاتے ہیں "Book" ہوجاتے ہیں۔ غلامی سے آزاد ہوکر۔ غلام ہی ہیں۔ پہلے غیروں کے اور اب اپنوں کے۔ کھلی دعوت ہے۔ آؤ ہمیں استعمال کرلو!
برائی کو دیکھتے رہنا، کسی بھی قسم کی ہے، اور خاموشی اختیار کرنا برائی میں شمولیت کے برابر ہے۔ کام نہ کرنا اور معاوضہ لیتے رہنا بددیانتی ہے۔
دین اور دنیا میں ان دو خصوصیات رکھنے والوں کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے۔ آگے کچھ نہیں کہوں گا کہ قوم کو غصہ بڑی جلدی آجاتا ہے سچی باتوں پر۔ میرا فرض میں نے پورا کیا آپ اپنا فرض پورا کریں یا نہ کریں یہ آپ جانیں۔
گروہ کو مثبت معنی میں سمجھیے گا کیونکہ آج کل گروہ کا لفظ بدنام ہوچکا ہے تفصیل سے گریز کرتا ہوں نفس مضمون کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم مہذب معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ آپ اتفاق کریں گے کہ مہذب معاشرے کے اجزائے ترکیبی میں امن اول شرط ہے امن اعتدال سے وجود میں آتا ہے۔ اعتدال برداشت سے پیدا ہوتا ہے۔
برداشت مساویانہ سلوک سے حاصل ہوتی ہے اور مساویانہ سلوک کے لیے ایک اعلیٰ فکری سوچ کی ضرورت ہے جو قوم کے راہ نما اس قوم کو دیتے ہیں۔ یہ قدرت کا اصول ہے، ہم نبی پیغمبروں کی گفتگو کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دین کی اساس ہے۔ دوسرے معاشروں کا تصور الگ ہونے کے باوجود مصلح کا تصور موجود ہے۔
یہ لوگ جو قدرت کے پیدا کردہ منتخب کردہ ہوتے ہیں کیا کرتے ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کی زندگیوں کے حالات پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ سب سے پہلے اصولوں کو خود پر لاگو کرتے ہیں۔ مثال بن کر ابھرتے ہیں۔ یعنی محض فلسفہ بیان کردینا تو مجھ جیسے لوگوں کو بھی آتا ہے بس فلسفہ بیان کردو اورگھر بیٹھ جاؤ قوم خود سدھر جائے گی یا ترقی کرلے گی۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میدان عمل ضروری ہے اور اس میں عمل کا مظاہرہ بھی۔
کیوں ہم دنیا بھرکے لوگوں کا نام مثال میں لیتے ہیں ایک نام نیلسن منڈیلا مثال کے طور پر میں لیتا ہوں محض بات کرنے کے لیے انھوں نے جو جدوجہد کی اس کا تقاضا بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ آخری سانس تک قوم کے رہنما رہتے اور قوم کے صدر رہتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک خاص عرصے کے بعد انھوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے ساتھ جو ان کے ذہن میں تھا یہ عہدہ چھوڑ دیا اور اپنی جگہ اپنی کسی خاص پسندیدہ شخصیت کو جس سے وہ آیندہ فائدہ اٹھاسکتے تھے یہ مقام نہیں دیا بلکہ Public Choice پر سارا معاملہ چھوڑ دیا۔ یہ کیا تھا۔ یہ لیڈروں اور عوام کی تربیت کا ایک انداز تھا ہزار سال کی بھی کسی لیڈر کی عمر ہو تو اس کے بعد بھی تو ایک لیڈر چاہیے اور اس کے لیے کوئی باقاعدہ عمل بہت ضروری ہے کہ جس کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رہے۔
وہاں سب کچھ اچھا ہے یا سب کچھ اچھا رہے گا۔ یہ کہنا میرا مقصد نہیں ہے صرف ایک نظر اس فلسفے پر ڈالنے کے لیے مثال پیش کی اگر وہ اس فلاسفی سے روگردانی کریں گے جو ان کے عظیم راہ نما نے پیش کی اور عمل کرکے دکھایا تو وہ نقصان اٹھائیں گے جو ایسا کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔
ایک اچھے معاشرے میں آپ کتنی بھی کوشش کرلیں غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ کم ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ ہے تمام لوگوں کا یکساں رویہ نہ ہونا اور وہ نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل کے ظالمانہ معاشرے میں بھی کچھ لوگ اس معاشرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہ آوازیں کبھی کبھار سننے میں آتی ہیں۔ برخلاف معاشرہ آپ کے سامنے ہے تمام تر جبر یا کسی اور طرف قوم کو متوجہ رکھنے کا عمل اور یہی قابل غور ہے۔
جبر کی مذمت تو اس کے ہوتے ہوئے بھی ہوتی ہے اور لوگ پابند قید و سلاسل ہوتے ہیں۔ یہ ہر معاشرے کا المیہ ہے اور جبر کی مذمت پھر تاریخ کے صفحات میں لکھی جاتی ہے جو قیامت تک جبر کے ذمے داروں کے چہرے کی کالک ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ضیا الحق کا دور تاریخ کا سیاہ ترین دور سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی ''تشکیل اور ہمواریت'' کی ذمے دار 2 چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کو دین اسلام کے توسط سے عرض کرتا ہوں دوسرے معاشروں میں بھی ہوگا یہی نام دوسرے ہوں گے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اسلام ایک Perfect Religion ہے مگر اس کے آج کے Practice کرنے والے ایسے نہیں ہیں کہ قابل فخر انداز میں ان کا ذکر کیا جاسکے۔ فلسطین اور عرب دنیا یہ دو تین لفظ کافی نہیں سمجھانے کو۔ وہ دو چیزیں ہیں شکر کا کلمہ ادا کرنے والی زبانیں اور برائی کو روکنے والے ہاتھ۔
شکر کا کلمہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کام نہ کرو بھوکے رہو اور شکر ادا کرتے رہو۔ یہ تو سراسر ناانصافی ہے کام کرنا، کمانا اور شکر ادا کرنا اصل شکر کا کلمہ ہے۔ ساری دنیا میں بھوکوں کے ریوڑ ہیں اور وجہ ہے انسان کا کام نہ کرنے کا جذبہ اور سہل پسندی۔ میں صرف اپنے ملک کی بات نہیں کر رہا۔ وہ امریکا جو دنیا بھر کو ''سدھارنے'' کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہے پہلے اپنے ملک سے تو بھوکوں اور بھوک کا خاتمہ کرلے۔
چھوٹا ٹھیکیدار برطانیہ سدا کا بھوکا، وہ ختم کرلے اپنے یہاں سے سب کچھ۔ ہندوستان کو لوٹ کر اور اس کے حصے بخرے کرکے بھی اس کا پیٹ اب تک نہیں بھرا۔ بھوکے کا بھوکا ہی ہے اب مشرق وسطیٰ کے وسائل پر بھوکے کتے کی طرح نظر جمائے بیٹھا ہے کہ بھیڑیوں سے جو بچے گا وہ مجھے ملے گا۔
بہت افسوس ہے مجھے، بہت کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ سچ نہ بولوں مگر ہاتھ کا قلم اور دل کی دھڑکن ایک ساتھ ہوجاتے ہیں تو میں بھی مجبور ہوجاتا ہوں کہیں کہیں ان کو راستہ دینا پڑتا ہے ورنہ دل بند ہو جائے گا قلم رک جائے گا۔
برائی کو روکنے والے ہاتھ۔ اب پھر کشمکش ہے۔ سب سے بڑے ہاتھ ''اقوام متحدہ'' جو کچھ اور ''ہاتھوں'' کے ہاتھ ''گروی'' ہیں۔ ''ویٹو'' ناانصافی کا سب سے بڑا ''سکہ'' کیوں ویٹو؟ سب انسان نہیں ہیں؟ سب دنیا کے ممالک نہیں ہیں؟ سب ایک نہیں ہیں؟ Unity اور Humanity کی باتیں کرنے والے جب ''مفاد'' کا سوال آتا ہے اپنا اور اپنے ساتھ کے مفاد حاصل کرنے والوں کا تو "Veto" کردیتے ہیں انصاف کا۔ یعنی ''یہی ہوگا چاہے کچھ بھی ہو'' تو یہ انصاف تو نہ ہوا نا؟ پھر کیوں منصفانہ سلوک کے دعوے دنیا کے ساتھ؟
ہمارے ملک کی بات کرلیں کہ آخر تو کتابوں سے دل نہیں بہلے گا۔ حقائق کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے یہاں سب سے بڑی خرابی ہمارے عوام میں ہے۔ زبان۔ چھوٹے چھوٹے ''مفادات'' کے لیے ''گروی'' رکھ دی بولتے نہیں۔ برداشت کرتے ہیں ظلم اور اسے ''کلمہ شکر'' کہتے ہیں۔
قوت کس کے پاس ہے عوام کے پاس؟ چھوڑ بیٹھے قوت۔ دے دی چند لوگوں کو جاؤ تم فیصلہ کرو ہم آرام کرتے ہیں۔ اسمبلی کے اندر بھی اور باہر بھی۔ دونوں جگہ یہی کیا ہے۔ کوئی ایک تو غلط ہے تو جو غلط نہیں ہے اور جو غلط ہے دونوں برابر
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
یعنی بادشاہ بابر نے کہا بابر عیش کرو یہ دنیا دوبارہ کب ملے گی۔ یہ ہیں ہم۔ بک جاتے ہیں "Book" ہوجاتے ہیں۔ غلامی سے آزاد ہوکر۔ غلام ہی ہیں۔ پہلے غیروں کے اور اب اپنوں کے۔ کھلی دعوت ہے۔ آؤ ہمیں استعمال کرلو!
برائی کو دیکھتے رہنا، کسی بھی قسم کی ہے، اور خاموشی اختیار کرنا برائی میں شمولیت کے برابر ہے۔ کام نہ کرنا اور معاوضہ لیتے رہنا بددیانتی ہے۔
دین اور دنیا میں ان دو خصوصیات رکھنے والوں کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے۔ آگے کچھ نہیں کہوں گا کہ قوم کو غصہ بڑی جلدی آجاتا ہے سچی باتوں پر۔ میرا فرض میں نے پورا کیا آپ اپنا فرض پورا کریں یا نہ کریں یہ آپ جانیں۔