دنیا بھر سے قبضہ سب کے لیے ناجائز ہے

روس کو یوکرین میں فوجی مداخلت ترک کر دینی چائیے ،کیونکہ کبھی بھی کسی ملک میں فوجی مداخلت سے امن قائم نہیں ہوا۔


سہیل اقبال خان August 30, 2014
بیرونی مداخلت چاہے کسی کی بھی طرف سے ہو وہ غلط اور ناجائز ہے پھر چاہے قبضہ کرنے والاملک پاکستان ہو، بھارت ہو امریکہ یا پھر پھر افریقہ کا کوئی ملک ہو۔ اُصول تو سب کے لیے برابر ہی ہونے چاہیے۔ فوٹوَ: فائل

دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جن کے نزدیک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات،سرحدوں کی خلاف ورزی کرناجرم نہیں بلکہ طاقت کے اظہار کا طریقہ ہے۔ان ممالک میں امریکہ، روس، اسرائیل، بھارت سہرفہرست ہیں۔ان ممالک کو تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی،اور بین الاقوامی اداروں کے روکے جانے کے باوجود دوسرے ممالک میں مداخلت جاری رکھی۔آج ایک جانب اسرائیل فلسطین میں ہزاروں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتھار دیتا ہے تو دوسری جانب بھارت کشمیر پر اور امریکہ عراق پر قبصہ جمائے ہوا ہے۔

آج کے دور میں جن ممالک پر جنگی جنون سوار ہے ان میں سے ایک روس بھی ہے،آج کل روس سوچ رہا ہے کہ آخر کس طرح یوکرین میں داخل ہو کر قبصہ جمایا جائے۔آج روس یوکرین میں بظاہر تو امن کی فضاء کا خواہش مند دیکھائی دیتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ روس کی یہ بھی خواہش ہے کہ روسی فوج کو یوکرین میں داخل ہونے کا کوئی موقع مل جائے۔ ویسے تو یوکرین جیسا کوئی بھی ملک اپنے وسائل بروے کار لا کرملک کے اندر مسائل پر قابو پا سکتا ہے مگر جانے بیرونی طاقتوں کو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کی یہ بیماری آخر کار کیوں ہے۔

میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ بیرونی مداخلت چاہے کسی کی بھی طرف سے ہو وہ غلط اور ناجائز ہے پھر چاہے قبضہ کرنے والاملک پاکستان ہو، بھارت ہو امریکہ یا پھر پھر افریقہ کا کوئی ملک ہو۔ اُصول تو سب کے لیے برابر ہی ہونے چاہیے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ۔ امریکا نے پہلے ویتنام، پھر اب افغانستان اور عراق میں کیا ہے اور اِس اقدام کو کم از کم الفاظ میں بھی بربریت ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اِن واقعات میں لاکھوں افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مگر کسی سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا گیا اور نہ ہی امریکا کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جناب آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ اور فوری طور پر اِس کو روکا جائے اور قبضے کو ختما کیا جائے۔ مگر اب تو سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوتا ہے اور روس پر یوکرین کا قبضہ ختم کرنے کے لیے زور بھی دیا جارہا ہے یہاں خون خرابے کا آغاز بھی نہیں ہوا۔

سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں روس پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں فوجی مداخلت سے باز رہے۔سلامتی کونسل میں اس بات پر زور دیا گیا کہ روس فوجی مداخلت سے گریز کرے،کیونکہ روس کے اس اقدام سے معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہوں گئے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس سے پہلے فلسطین،کشمیر، عراق، افغانستان کے معاملے پر کبھی توجہ نہ دی جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سالوں گزرنے کے بعد بھی ان ملکوں سے فوج کا اخراج ممکن نہیں بنایا جا سکا۔اس کو میں اقوام متحدہ کی عدم توجہ اور دلچسپی کا نام دوں تو ہر گز غلط نہ ہو گا کیونکہ آخر گھر کا بھیدی کس طرح لنکا ڈھا سکتا ہے؟۔

میرا خیال ہے کہ روس کو یوکرین میں فوجی مداخلت ترک کر دینی چائیے ،کیونکہ کبھی بھی کسی ملک میں فوجی مداخلت سے امن قائم نہیں ہوا سکا۔فوجی مداخلت ہمیشہ انتشار،بدامنی کی طرف لیکر جاتی ہے۔جس سے پورے خطے میں ایک بے یقینی کی صورتحال جہنم لیتی ہے۔ اور اقوام متحدہ کو یوکرین کے علاوہ باقی ممالک کا بھی سوچ لینا چائیے،کیونکہ اگر اقوام متحدہ کو یوکرین میں روس فوجی مداخلت نظر آرہی ہے تو پھر کشمیر سمیت دوسرے ممالک کے مسائل،اور ان کی آزادی کیوں نہیں نظر آتی۔ پاکستا ن کی جانب سے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اتنی بار اٹھانے کے باوجود اس کا کوئی حل تلاش کرنی کی کوئی کوشش نہ کی جا سکی۔ اِن تمام مسائل کا حل تو صرف یہی ہے کہ جہاں جہاں طاقت ور ریاستوں کا قبضہ ہے وہ فوری طورپر ختم کرواکر مختلف ممالک کی ثالثی میں اُن ممالک میں انتخابات کروائیں جائیں اور پھر جو جماعت بھی وہاں منتخب ہوں اُن کو ملک کا نظام سپرد کرکے آزاد مملک کی حیثیت سے جینے دیا جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔