بات کچھ اِدھر اُدھر کی ریویو میں اداکارہ بنوں گی

ہر کسی نے اپنا تماشا لگا رکھا ہے اور دنیا میرے تماشے سے بے حد خوش ہے۔


سدرہ ایاز August 30, 2014
ہر کسی نے اپنا تماشا لگا رکھا ہے اور دنیا میرے تماشے سے بے حد خوش ہے۔ فوٹو فیس بک

آخری 2 منٹ رہ گئے ہیں کھیل شروع ہونے میں، اندر جاتے ہوئے لڑکے کی آواز سن کر میں چونکی اور فوراَ ہی کھڑی پر نظر ڈورائی، 8 بج گئے اُف، شکر ہے آٹس کاؤنسل پہنچ تو گئے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی میں چاروں طرف نظریں گھمائی تو اوپر کی طرف آخری چند سیٹیں خالی تھیں۔ ڈور لگا کر وہاں جا بیٹھی، ویسے مجھے ہمیشہ ہی لگتا ہے کہ اوپر جاکر بیٹھے والوں کو کم آواز آتی ہے۔ اور اختتام تک میں اپنی ہی بات کی نفی کردیتی ہوں۔


عبداللہ فرحت اللہ کی آمد پر ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھا؛




صبا تم آرہی ہو نا صبا؟



لب و لہجہ، انداز، لفظوں کی ادائیگی عبداللہ کا انداز ہی نرالہ تھا اور پھر ثانیہ سعید کی آمد نے مزید چار چاند لگادیئے۔ ثانیہ اور عبداللہ کے درمیان جاری رہنے والے 90 منٹ کے کھیل میں ہال میں موجود شائقین کی نظرین شاید ہی اسٹیج کے علاوہ ادھر ادھر ہوئی ہوں گی۔


کھیل میں عبداللہ فرحت اللہ (ضیغم رفیقی) ایک استاد جبکہ ثانیہ سعید (نائلہ انجم) ایک ایسی لڑکی کا کاردار ادا کررہی ہیں جسے اداکارہ بننے کا بے حد شوق ہوتا ہے۔ نائلہ چونکہ 16 بہن بھائیوں کی مشتمل ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھی جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔


بمشکل آٹھویں جماعت پاس کرنے اور گلیوں میں کھیل کود کر پڑی ہونے والی نائلہ بیوٹی پالر کا کورس کرنے کے بعد بالاخر ایک پالر میں ملازمت حاصل کرلیتی ہے۔ وہاں اس کی ملاقات گنجی صاحب کی بیگم سے ہوتی ہے جو اپنے شوہر کے توسط سے نائلہ کو ضیغم رفیقی سے ملواتی ہیں۔



فوٹو؛ فیس بک


ضیغم کے کتابوں میں گم رہنے کے شوق کی وجہ سے اس کی بیگم صبا ایک سال قبل اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور اب وہ تنہائی کی زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہے، ایسے میں نائلہ کی آمد اس کی زندگی میں ہلچل کا باعث بنتی ہے۔ نائلہ کے مطابق وہ ہرفن مولا ہے اسے اداکاری، گلوکاری، رقص ہر چیز میں مہارت حاصل ہے بس کمی ہے تو صرف اور صرف تعلیم کی اور کسی ایسے شخص کی جو اداکارہ بنا دے۔



فوٹو؛ فیس بک


ضغیم نائلہ کے بولے گئے ہر لفظ میں املے کی غلطیاں نکالتا ہے جیسا کہ 'بوٹی پالر کو بیوٹی پالر' ' خاب کو خواب' وغیرہ وغیرہ ، وہ اسے منٹو، شیکسپیئر اور دیگر مصنفوں کی کتابیں اور ہالی ووڈ اداکاروں کے اداکاروں کی فلمیں دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے جس پر نائلہ فحاشی کا الزام لگاتے ہوئے اسے بالی ووڈ کی مووی 'جسم' دیکھنے کا مشورہ دیتی ہے۔ ساتھ ہی کیترینہ کیف کے گانے 'کملی کملی' پر رقص کر کے بھی دیکھاتی ہے۔



فوٹو؛ فیس بک


پھر ایک دن نائلہ غصے میں اپنا گھر چھوڑ کر ضیغم کے گھر آجاتی ہے اسی دوران ضیغم کی بیوی کا فون آتا ہے جیسے نائلہ غلطی سے اٹھا لیتی ہے۔ صبا جو پہلے ہی ناراض بیٹھی تھی مزید شک کا شکار ہوکر آنے سے انکار کردیتی ہے۔ ضیغم طیش میں آخر نائلہ کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ بعد ازاں نائلہ کی معذرت قبول بھی کرلیتا ہے مگر بات نہیں کرتا۔



فوٹو؛ فیس بک


کچھ دن گزر جانے کے بعد نائلہ رقص کرتی ضیغم کے پاس جاتی ہے کہ اسے ڈرامے میں کردار اور اشتہار مل گیا ہے، لیکن یہ سن کر اسے بے حد افسوس ہوتا ہے کہ صبا نے ضیغم کو طلاق کے کاغذات بھجوادیئے ہیں۔ نائلہ دکھ سے ساتھ لوٹ جاتی ہے۔ شب و روز گزرتے رہتے ہیں ضیغم شراب کے نشے میں ڈوبا اپن غم بھلانے کی کوشش کرتا ہے اور ایک روز تنہائی سے تنگ آکر نائلہ کو فون کرتا ہے جہاں اسے پتا چلتا ہے کہ وہ ڈیفینس منتقل ہوگئی۔


نائلہ ضیغم کا فون نہیں اٹھاتی جس پر ضیغم کو بے حد دکھ ہوتا ہے، پھر ایک دن یونہی نائلہ چلی آتی ہے، اس کا حلیہ، چال ڈھال، انداز سب بدل چکا ہے۔ اب وہ ایک بڑی اداکارہ بن چکی ہے جس کے پاس کسی کے لئے وقت نہیں ہے۔ ضیغم اس سے شکایت کرتا ہے کہ تمہارے پاس میرے لئے اپنی استاد کیلئے وقت نہیں؟ صبا بھی چلی گئی اب تم بھی جاری ہو۔


نائلہ جواب میں کہتی ہے کہ اس دنیا میں فنکار کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے، نہ وہ اپنی مرضی سے ہنس سکتا ہے نہ رو سکتا ہے۔ ہر کسی نے اپنا تماشا لگا رکھا ہے اور دنیا میرے تماشے سے بے حد خوش ہے۔ جس پر ضیغم کہتا تم اچھی ہو۔ نائلہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے کہ ضیغم اسے اچھا سمجھتا ہے، کیونکہ دنیا میں اسے کوئی اچھا نہیں سمجھتا وہ جہاں بھی گئی وہاں اسے اپنے برقعے کے ساتھ ساتھ کانوں کی بالیاں بھی اتارنی پڑیں۔


پھر نائلہ اپنا موڈ تبدیل کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں تو شوٹنگ کے لئے ملائیشیا جاری ہو اور آپ اپنا حلیہ تو درست کیجئے کیونکہ صبا آنے والی ہے۔ ضیغم پہلے تو ناراض ہوتا ہے کہ اس کو صبا کا نمبر کہاں سے ملا۔ پھر آنے کی خبر سن کرخوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ جس پر نائلہ زبرستی اسے رسی سے باندھ کر اس کے بال کاٹنے لگتی ہے کہ صبا ایسے دیکھی گی تو کیا کہے گی۔


اسی کھینچا تانی میں کھیل کا اختتام ہوا۔ ہال ایک دم زور دار تالیوں سے گونج اٹھا اور لوگ کھڑے ہوکر عبداللہ فرحت اللہ اور ثانیہ سعید کو دیر تک داد دیتے رہے۔ شاہد شفاعت کے اس کھیل نے مجھے یہ سوچنے پر ضرور مجبور کردیا کہ ہمارے ملک میں کتنی ہی نائلہ ہونگی جو اداکارہ بننے کے شوق میں بھٹکتی ہوئی ایسی جگہ پہنچ جاتی ہیں جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں