خیالی پلاو ڈسٹ بن
جنریشن گیپ کا رونا رونیوالےاس بات سےنابلد ہیں کہ ان کی زندگی جنریشن گیپ کے باعث نہیں کمیونیکیشن گیپ کیوجہ سےبے رنگ ہے،
کالج کے زمانے میں ہمارا ایک دوست ہواکرتا تھا، عامر۔ وہ نفسیات کا شیدائی تھا۔ اُس نے کالج اور یونیورسٹی میں بھی نفسیات پڑھی اور اس کے علاوہ بھی ہر وقت وہ اسی مضمون سے متعلق مواد پڑھتا رہتا۔ ہر نئی تحقیق اور تکنیک جو دریافت ہوتی، اُسے وہ ازبر کر لیتا اور اپنی پریکٹس میں شامل کر لیتا۔ اُس نے یونیورسٹی سے وقوفی نفسیات میں ڈاکٹریٹ کیا اور پھر بیرونِ ملک سے پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کر کے آیا۔ جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوا تو عملی زندگی میں آنے کے بعد، گردشِ ایام میں ایسا پھنسا کہ دوست،رشتہ دار سب بھول گئے۔ عامر سے یارانا ہونے کے با وجود اُس سے تعلق منقطع ہو گیا البتہ ہماری بہن اور اُس کی بہن چونکہ سہیلیاں تھیں اس لیے کبہی کبہی اُس کی خبر مل جایا کرتی تھی۔ پچھلے دنوں میں آمنہ کے گھر گیا تو وہ بتانے لگی کہ عامر بھائی پاکستان آئے ہوئے ہیں اور رابعہ بتا رہی تھی کہ اب وہ ہر ہفتے ایک دیہات میں کچھ دن گزارنے جاتے ہیں اور اس بات سے آنٹی بہت پریشان ہیں۔ مجھے یہ سُن کر خاصا اچھنبا ہوا، پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کسی این۔جی۔او کا پروگرام ہوگا اور اسی وجہ سے وہ اُس گاوں میں جاتا ہوگا مگر ایک ہفتہ بعد عامر کی امی رابعہ کے ساتھ آمنہ کے گھر آئی ہوئیں تھیں کہ میں بھی اتفاقاً ایک کام سے وہاں چلا گیا۔ عامر کا تذکرہ چھڑہ تو آنٹی کہنے لگیں کہ وہ تو کملا ہو گیا ہے،پیری مریدی شروع کر دی ہے اُس نے، ہر ہفتے کسی گاوں،کسی گوٹھ میں جا پہنچتا ہے اور لوگوں کو دم درود کرتاہے،اب تو وہ دیہاتی ہمارے گھر میں بھی آنے لگے ہیں۔اوروہ اسرار کرنے لگیں کہ تم ذرا اس کا پتہ کرو،کن چکروں میں پڑ گیا ہے۔
آنٹی کی بات سُن کر مجھے کافی حیرانی ہوئی،پہلے تو یقین ہی نہ آیا مگر آنٹی اور رابعہ کے تاثرات دیکھ کر مجھے شدید خفگی ہوئی۔ میں نے رابعہ سے تفصیلات لیں اور اگلے دن اُس گاوں جا پہنچا۔ یہ پنجاب کا کوئی دور افتادہ گاوں تھا۔ غُربت اور افلاس نے فضا تک کو تیکھا کر رکھا تھا۔ لوگوں کے چہروں پرنا اُمیدی،حسرت اور مایوسی کہ گہرے سائے تھے۔ میں نے علاقے میں پہنچ کر لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی عامر صاحب نامی ڈاکٹرموجود ہیں؟ اپنی چادر دائیں سے بائیں کندھے پر ڈال کر،اُس نے صاف انکار کر دیا، کہنے لگا صاحب ڈاکٹر تو یہاں کوئی نہیں۔یہ سُن کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی میں سمجھا کہ میں کسی غلط جگہ آگیا ہوں۔ میں اسی عالم میں میز سے اُٹھا،اُسے پیسے دیے اورباہر کی جانب نکلنے والا تھاکہ اُس نے مجھے کہا،صاحب! یہاں پچھلے دو ماہ سے ایک پیر صاحب آرہے ہیں، آپ جیسے شہری بابو ہیں پر اُن کی نظر میں بڑا ہی اثر ہے، اُن کی خاموشی بھی بندے کے مسائل حل کردیتی ہے۔آپ ایک دفعہ ضرور اُن سے مل کر جائیں۔میرے دماغ کی بتی جلی اور مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ جس پیر کا یہ ذکر کر رہا ہو وہ عامر ہی ہو۔ میں نے اُسے کہا کہ تم مجھے اُس کے پاس لے جاو۔ میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور ہم کچھ دیر بعد ایک کچے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے۔کچھ فاصلے پر کھڑی عامر کی گاڑ ی سے میرا بچا کچا شک بھی رفو ہو گیا اور میں اُس طرف چلنے لگا۔ گاوں کی عورتوں کا ایک جمگھٹا لگا تھا۔ میں بھاری قدموں اورگنجلک ذہن کے ساتھ چلتا چلتا اُس کی چوکھٹ پر پہنچا، مگر اندر کا ماحول دیکھ کر میرے ذہن میں بنی تصویریں فنا ہو گئیں۔ صاف اور کشادہ کمرے میں عامر ایک خوبصورت میز سامنے رکھے، کاوٰچ پر بیٹھا تھا۔ اور ایک دیہاتی عورت سامنے کرسی پر بیٹھی، رو رہی تھی۔ میں قدم بڑھاتا رہا۔ اوراُس میز کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ عامر نے مجھ پر ایک نظر ڈالی ،ورطہ حیرت میں گمُ،خوشی سے معمور اُٹھ کھڑا ہوا۔ پُر تپاک انداز میں ملا۔ سالوں کی دوری اور مسافت ہم نے چند لمحوں کی خاموشی اور مسکراہٹ میں طے کر لی۔ کہنے لگا: تم کہاں سے ٹپک پڑے؟ میں بولا: بس میں نے کہا ذرا پیر صاحب سے دم کروا لوں۔ وہ کھلکھلا کہ ہنسا، کہنے لگا: بیٹھو،دیکھو،بابا کے کرامات۔ میں پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ عورت،جو مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئی تھی، پھر سے اپنی کتھا سنانے لگی، وہ اپنے حالات کا رونا رو رہی تھی، اپنے خاوند کے مظالم، ساس اور سسر کی زیادتیاں، بچوں کی کوڑ مغزی اور اپنی زندگی کے اجیرپن کا رونا روتی رہی۔ عامر چپ سادھے سنتا رہا۔ اُس عورت نے پیٹ بھر کر اپنے رشتہ داروں کی چغلیاں کی اور جب اُس کے دل کا سارا غبار نکل گیا۔ وہ اُٹھی،اپنی آنکھیں صاف کیں اور مطمئن چہرے کے ساتھ نکل گئی۔ میں منھ کھولے سارا منظر دیکھتا رہا۔ جب وہ چلی گئی، میں استفہامیہ نظروں سے عامر کو دیکھنے لگا، میں اب اس سب سے اُکتا گیا تھا، میں نے سنجیدگی سے اُس کو مخاطب کیا، عامر! یہ تم کیا کر رہے ہو، تمہارے گھر والے سب پریشان ہیں، آنٹی کو بھی فکر لگی ہوئی ہے۔ تم نے یہ کیا پیری مریدی شروع کی ہوئی ہے؟
وہ اب تک مسکرا رہا تھا، کہنے لگا ،یار! یہ سب بڑے غریب اور بے بس لوگ ہیں۔ ہر پل گُھٹ گُھٹ کے جیتے ہیں۔ ہر دم زندگی سے جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ ان میں غم،غصہ اورخیبت کسی آتش فشاں کی مانند ٹھاٹے مارتی رہتی ہے۔ اور ان کا یہی اضطراب ،قتل وغارت؛ وحشانا ظلم اور طلاق جیسی صورتوں میں نکلتا ہے اور یہ اپنی بے بسی اور بے کسی کے ہاتھوں اپنی زندگیاں برباد کر دیتی ہیں۔
مجھے عامر کی بات گو کہ سمجھ نہ آئی تھی،مگر میں نے کچھ علم جھاڑنے کی کوشش کی، تو کیا تم انکی سائکو تھراپی کرتے ہو یہ تحلیل نفسی کے تحت ان کے ذہن کی گتھیاں کھولتے ہو؟ ارے نہیں یار۔۔ عامر نے بات کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا۔ دراصل ان لوگوں کے وجود میں حالات اور واقعات بہت سا گند چھوڑ جاتے ہیں۔ اور یہ گند اکھٹا ہوتے ہوتے ان کے اندر کی دنیا کو متعفن اور زہریلا بنا دیتا ہے۔ میں یہاں صرف وہ گند صاف کرنے آتا ہوں۔ ان کے باطن کو ہلکا کرنے آتا ہوں۔ مگر کیسے؟میں نے بے چینی میں سوال کیا؟ میں صرف یہاں ایک ڈسٹ بن کر آتاہوں۔ ایک کوڑا دان، جس میں لوگ آکر اپنے اندر کا سارا کچرا پھینک جاتے ہیں۔ اور میں ان کی صفائی کا سبب بن جاتا ہوں۔ عامر کی بات دلچسپ تھی مگر میں وضاحت چاہتا تھا۔ سو وہ کہنے لگا، یار! یہاں اکثر میرے پاس عورتیں ،بچے اور بوڑھے آتے ہیں۔ یہ سب بچارے انتشار کا شکار ہوتے ہیں،ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے مگر سننے والا کوئی نہیں۔ عورتیں اپنے خاوندوں سے ڈری،دھمکی رہتی ہیں اور بوڑھے اولاد کی بے قدری اور تنہائی کے مارے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس باتیں کرنے والا، انہیں اہمیت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور یہ اس غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ میں بس انہیں اس بات سے رہائی دیتا ہوں۔ یہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے دل کھول کر اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں،اپنے بندھے اور مقید باطن کو جھاڑتے ہیں اور اپناسارا گند اس ڈسٹ بن میں ڈال جاتے ہیں۔اور جب یہ لوگ یہاں سے جاتے ہیں تو صاف ستھرے اور ہلکے پھلکے ہو کر جاتے ہیں۔ عامر نے توقف کیا، اُس کے بات بے حد پُر اثر تھی۔ میں اپنا آخری شک دور کرنا چاہا، مگر تمہیں تو گاوں کے لوگ پیر سمجھتے ہیں۔ شہر والا بابا اور اس طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہے؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ارے یار اب یہ مجھے سائکولاجسٹ، کاگنیٹو اکسپرٹ یہ سائکو اینالسٹ کہنے سے تو رہے، انہیں جو آسان لگتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں۔ اصل میں تو میں نہ سائکو ایکسپرٹ بن کر آتا ہوں نہ کوئی عارف، بس میں تو یہاں ایک ڈسٹ بِن بن کر آتا ہوں اور ان کا تما م گند صاف کر جاتا ہوں۔
عامر کی وضاحت مکمل ہو چکی تھی اورمیرے تمام سوال ختم ہو گئے تھے۔ میں نے اور عامر نے اب چلنے کا فیصلہ کیا اور ہم اُس کمرے سے نکل کر اپنی گاڑیوں کی طرف چل پڑے،میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں سننے والوں کی کتنی کمی ہو گئی۔ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے،مگر سننے کو کوئی تیار نہیں،جنریشن گیپ کا رونا رونے والے اس بات سے نابلد ہیں کہ ان کی زندگی جنریشن گیپ کے باعث نہیں کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے ادھوری اور بے رنگ ہے، جہاں اچھے سننے والے موجود ہوں وہاں بہت سے مسائل خود بہ خود ختم ہو جاتے ہیں ۔ عامر گاڑی میں بیٹھ چکا تو میں اپنی گاڑی کی جانب بڑھااور اسی دوران میرے کانوں میں دو دیہاتی عورتوں کی آواز سنائی دی۔ سکینہ! رب دی سوں،اس بابا جی دے کول بے کے بڑا سکون ملدا اے،اے سب ریاضتاں دا نتیجہ اے،انا دی خاموشی وی دل نوں بڑا سکون دیندی اے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آنٹی کی بات سُن کر مجھے کافی حیرانی ہوئی،پہلے تو یقین ہی نہ آیا مگر آنٹی اور رابعہ کے تاثرات دیکھ کر مجھے شدید خفگی ہوئی۔ میں نے رابعہ سے تفصیلات لیں اور اگلے دن اُس گاوں جا پہنچا۔ یہ پنجاب کا کوئی دور افتادہ گاوں تھا۔ غُربت اور افلاس نے فضا تک کو تیکھا کر رکھا تھا۔ لوگوں کے چہروں پرنا اُمیدی،حسرت اور مایوسی کہ گہرے سائے تھے۔ میں نے علاقے میں پہنچ کر لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی عامر صاحب نامی ڈاکٹرموجود ہیں؟ اپنی چادر دائیں سے بائیں کندھے پر ڈال کر،اُس نے صاف انکار کر دیا، کہنے لگا صاحب ڈاکٹر تو یہاں کوئی نہیں۔یہ سُن کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی میں سمجھا کہ میں کسی غلط جگہ آگیا ہوں۔ میں اسی عالم میں میز سے اُٹھا،اُسے پیسے دیے اورباہر کی جانب نکلنے والا تھاکہ اُس نے مجھے کہا،صاحب! یہاں پچھلے دو ماہ سے ایک پیر صاحب آرہے ہیں، آپ جیسے شہری بابو ہیں پر اُن کی نظر میں بڑا ہی اثر ہے، اُن کی خاموشی بھی بندے کے مسائل حل کردیتی ہے۔آپ ایک دفعہ ضرور اُن سے مل کر جائیں۔میرے دماغ کی بتی جلی اور مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ جس پیر کا یہ ذکر کر رہا ہو وہ عامر ہی ہو۔ میں نے اُسے کہا کہ تم مجھے اُس کے پاس لے جاو۔ میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور ہم کچھ دیر بعد ایک کچے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے۔کچھ فاصلے پر کھڑی عامر کی گاڑ ی سے میرا بچا کچا شک بھی رفو ہو گیا اور میں اُس طرف چلنے لگا۔ گاوں کی عورتوں کا ایک جمگھٹا لگا تھا۔ میں بھاری قدموں اورگنجلک ذہن کے ساتھ چلتا چلتا اُس کی چوکھٹ پر پہنچا، مگر اندر کا ماحول دیکھ کر میرے ذہن میں بنی تصویریں فنا ہو گئیں۔ صاف اور کشادہ کمرے میں عامر ایک خوبصورت میز سامنے رکھے، کاوٰچ پر بیٹھا تھا۔ اور ایک دیہاتی عورت سامنے کرسی پر بیٹھی، رو رہی تھی۔ میں قدم بڑھاتا رہا۔ اوراُس میز کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ عامر نے مجھ پر ایک نظر ڈالی ،ورطہ حیرت میں گمُ،خوشی سے معمور اُٹھ کھڑا ہوا۔ پُر تپاک انداز میں ملا۔ سالوں کی دوری اور مسافت ہم نے چند لمحوں کی خاموشی اور مسکراہٹ میں طے کر لی۔ کہنے لگا: تم کہاں سے ٹپک پڑے؟ میں بولا: بس میں نے کہا ذرا پیر صاحب سے دم کروا لوں۔ وہ کھلکھلا کہ ہنسا، کہنے لگا: بیٹھو،دیکھو،بابا کے کرامات۔ میں پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ عورت،جو مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئی تھی، پھر سے اپنی کتھا سنانے لگی، وہ اپنے حالات کا رونا رو رہی تھی، اپنے خاوند کے مظالم، ساس اور سسر کی زیادتیاں، بچوں کی کوڑ مغزی اور اپنی زندگی کے اجیرپن کا رونا روتی رہی۔ عامر چپ سادھے سنتا رہا۔ اُس عورت نے پیٹ بھر کر اپنے رشتہ داروں کی چغلیاں کی اور جب اُس کے دل کا سارا غبار نکل گیا۔ وہ اُٹھی،اپنی آنکھیں صاف کیں اور مطمئن چہرے کے ساتھ نکل گئی۔ میں منھ کھولے سارا منظر دیکھتا رہا۔ جب وہ چلی گئی، میں استفہامیہ نظروں سے عامر کو دیکھنے لگا، میں اب اس سب سے اُکتا گیا تھا، میں نے سنجیدگی سے اُس کو مخاطب کیا، عامر! یہ تم کیا کر رہے ہو، تمہارے گھر والے سب پریشان ہیں، آنٹی کو بھی فکر لگی ہوئی ہے۔ تم نے یہ کیا پیری مریدی شروع کی ہوئی ہے؟
وہ اب تک مسکرا رہا تھا، کہنے لگا ،یار! یہ سب بڑے غریب اور بے بس لوگ ہیں۔ ہر پل گُھٹ گُھٹ کے جیتے ہیں۔ ہر دم زندگی سے جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ ان میں غم،غصہ اورخیبت کسی آتش فشاں کی مانند ٹھاٹے مارتی رہتی ہے۔ اور ان کا یہی اضطراب ،قتل وغارت؛ وحشانا ظلم اور طلاق جیسی صورتوں میں نکلتا ہے اور یہ اپنی بے بسی اور بے کسی کے ہاتھوں اپنی زندگیاں برباد کر دیتی ہیں۔
مجھے عامر کی بات گو کہ سمجھ نہ آئی تھی،مگر میں نے کچھ علم جھاڑنے کی کوشش کی، تو کیا تم انکی سائکو تھراپی کرتے ہو یہ تحلیل نفسی کے تحت ان کے ذہن کی گتھیاں کھولتے ہو؟ ارے نہیں یار۔۔ عامر نے بات کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا۔ دراصل ان لوگوں کے وجود میں حالات اور واقعات بہت سا گند چھوڑ جاتے ہیں۔ اور یہ گند اکھٹا ہوتے ہوتے ان کے اندر کی دنیا کو متعفن اور زہریلا بنا دیتا ہے۔ میں یہاں صرف وہ گند صاف کرنے آتا ہوں۔ ان کے باطن کو ہلکا کرنے آتا ہوں۔ مگر کیسے؟میں نے بے چینی میں سوال کیا؟ میں صرف یہاں ایک ڈسٹ بن کر آتاہوں۔ ایک کوڑا دان، جس میں لوگ آکر اپنے اندر کا سارا کچرا پھینک جاتے ہیں۔ اور میں ان کی صفائی کا سبب بن جاتا ہوں۔ عامر کی بات دلچسپ تھی مگر میں وضاحت چاہتا تھا۔ سو وہ کہنے لگا، یار! یہاں اکثر میرے پاس عورتیں ،بچے اور بوڑھے آتے ہیں۔ یہ سب بچارے انتشار کا شکار ہوتے ہیں،ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے مگر سننے والا کوئی نہیں۔ عورتیں اپنے خاوندوں سے ڈری،دھمکی رہتی ہیں اور بوڑھے اولاد کی بے قدری اور تنہائی کے مارے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس باتیں کرنے والا، انہیں اہمیت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور یہ اس غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ میں بس انہیں اس بات سے رہائی دیتا ہوں۔ یہ میرے پاس آتے ہیں اور مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے دل کھول کر اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں،اپنے بندھے اور مقید باطن کو جھاڑتے ہیں اور اپناسارا گند اس ڈسٹ بن میں ڈال جاتے ہیں۔اور جب یہ لوگ یہاں سے جاتے ہیں تو صاف ستھرے اور ہلکے پھلکے ہو کر جاتے ہیں۔ عامر نے توقف کیا، اُس کے بات بے حد پُر اثر تھی۔ میں اپنا آخری شک دور کرنا چاہا، مگر تمہیں تو گاوں کے لوگ پیر سمجھتے ہیں۔ شہر والا بابا اور اس طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہے؟ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ارے یار اب یہ مجھے سائکولاجسٹ، کاگنیٹو اکسپرٹ یہ سائکو اینالسٹ کہنے سے تو رہے، انہیں جو آسان لگتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں۔ اصل میں تو میں نہ سائکو ایکسپرٹ بن کر آتا ہوں نہ کوئی عارف، بس میں تو یہاں ایک ڈسٹ بِن بن کر آتا ہوں اور ان کا تما م گند صاف کر جاتا ہوں۔
عامر کی وضاحت مکمل ہو چکی تھی اورمیرے تمام سوال ختم ہو گئے تھے۔ میں نے اور عامر نے اب چلنے کا فیصلہ کیا اور ہم اُس کمرے سے نکل کر اپنی گاڑیوں کی طرف چل پڑے،میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں سننے والوں کی کتنی کمی ہو گئی۔ہم میں سے ہر شخص کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے،مگر سننے کو کوئی تیار نہیں،جنریشن گیپ کا رونا رونے والے اس بات سے نابلد ہیں کہ ان کی زندگی جنریشن گیپ کے باعث نہیں کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے ادھوری اور بے رنگ ہے، جہاں اچھے سننے والے موجود ہوں وہاں بہت سے مسائل خود بہ خود ختم ہو جاتے ہیں ۔ عامر گاڑی میں بیٹھ چکا تو میں اپنی گاڑی کی جانب بڑھااور اسی دوران میرے کانوں میں دو دیہاتی عورتوں کی آواز سنائی دی۔ سکینہ! رب دی سوں،اس بابا جی دے کول بے کے بڑا سکون ملدا اے،اے سب ریاضتاں دا نتیجہ اے،انا دی خاموشی وی دل نوں بڑا سکون دیندی اے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔