ڈاکٹر مصدق کی یاد آئی آخری حصہ
کسی انگریز نے اس پر کبھی بندوق نہیں اٹھائی۔‘‘ آخر کار وردی پوش غنڈے طلب کیے گئے...
سی آئی اے نے مصدق کے خلاف جو سازش تیار کی اسے ''آپریشن اجیکس ''AJAX کا نام دیا گیا۔ یونانی دیومالا کا شہرۂ آفاق سورما جس کی ڈھال پر سات گایوں کی کھال منڈھی ہوئی تھی اور تانبے کی پتریاں جڑی گئی تھیں۔ پولش صحافی اور ادیب ریشارد کاپوشنسکی کی کتاب 'شہنشاہ' کے نام سے اجمل کمال نے ترجمہ کی۔ کاپوشنسکی کا لکھتا ہے: ''مصدق نے اپنے پُر عزم اور غیر متزلزل فیصلوں سے انگریزوں کو بال نوچنے پر مجبور کر دیا تھا، مگر وہ اس کی عزت کرتے تھے۔
کسی انگریز نے اس پر کبھی بندوق نہیں اٹھائی۔'' آخر کار وردی پوش غنڈے طلب کیے گئے مصدق کو تین برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ پانچ ہزار لوگ دیوار کے ساتھ کھڑے کر کے یا گلیوں میں مار دیے گئے۔ یہ شاہی کو بچانے کی قیمت تھی۔ شاہ کی ایک غم ناک، خون آلود اور غلیظ واپسی۔'' آپ پوچھتے ہیں کہ کیا شکست مصدق کا مقدر تھی؟ اس کو شکست نہیں ہوئی۔ وہ جیت گیا۔ ایسے شخص کو لوگوں کے حافظے سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اسے عہدے سے معزول کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ حافظہ ایک ذاتی متاع ہے جس تک کسی حکومت کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ مصدق نے کہا تھا کہ جس زمین پر ہم چلتے ہیں وہ ہماری ہے، اور اس زمین پر جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ بھی ہمارا ہے۔
ایران میں کسی نے کبھی یہ بات اتنے واضح طور پر نہیں کہی تھی۔'' مصدق کا نام لینا اور لکھنا جرم تھا لیکن ایرانی اسے بھول نہیں سکے۔ ریشارد کاپوشنسکی کا کہنا ہے کہ آج ایران میں سب کہتے ہیں کہ مصدق درست تھا، مگر مشکل یہ تھی کہ اس نے ایک درست بات وقت آنے سے بہت پہلے کہہ دی۔ وقت آنے سے پہلے درست بات کہنا آپ کے اقتدار، بلکہ آپ کی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ سچ کے پھل کو پکنے میں بہت وقت لگتا ہے۔
اگست 2013ء میں قوم پرست مصدق کی معزولی اور ایران میں کامیاب فوجی انقلاب کو 60 برس مکمل ہوئے تو سی آئی اے نے مصدق حکومت کے خلاف ہونے والی سازش سے متعلق خفیہ کاغذات یو ایس فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت جاری کر دیے۔ آپریشن اجیکس کی تفصیلات ہمیں بتاتی ہیں کہ تیل کو قومیانے کے جرم میں مصدق کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے برطانوی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے مصدق کو کمیونسٹ اور بے دین ثابت کیا۔ تودہ پارٹی اور ایرانی بہائیوں کو کچلنے سے انکار بھی مصدق کے جرائم میں شامل ہوا۔ یہ راز افشا ہونے سے بہت پہلے دو امریکی صدر بل کلنٹن اور براک اوباما کئی موقعوں پر ایران میں ہونے والی اس سازش کا اعتراف کر چکے ہیں۔
امریکا دنیا میں ان ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی کرتا ہے جو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ شاہ ایران کو تخت پر بٹھانے کی غلطی کے بارے میں2011 ء میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ ہم اپنے اس کردار پر شرمسار ہیں جو ہم نے 1953ء میں ڈاکٹر مصدق کی معزولی کے حوالے سے ادا کیا۔ بہت سے اعلیٰ امریکی افسران یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایران میں جمہوریت کی فطری ترقی کو روک دیا۔ کچھ اسی طرح کی بات میڈلن البرائٹ نے بھی کہی تھی۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ادھر برطانیہ اور امریکا کے پرانے اتحادی ایران میں دو برس کے لیے ان کی مخالف مصدق حکومت آئی۔ ادھر امریکا نے ایران کے قرب وجوار میں نئے اتحادی ڈھونڈنے شروع کیے۔ پاکستان کی حیثیت ان میں سب سے نمایاں تھی۔ سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ یہ نو آزاد ملک بھی کہیں ہندوستان کی طرح اپنا قبلہ سوویت یونین کی طرف راست نہ کر لے۔ پاکستان کی معاشی پریشاں حالی بھی امریکا کے سامنے تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ُادھر ایران میں ڈاکٹر مصدق کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا تھا اور اِدھر امریکا خطے میں ایک نیا حلیف بنا رہا تھا۔ ہزاروں ٹن امریکی گیہوں کراچی کی بندرگاہ پر اتر رہا تھا۔ کروڑوں ڈالر کی فوجی امداد آ رہی تھی اور یہ دسمبر 1953ء کی آخری تاریخیں تھیں جب' امریکا نے پاکستان کو سیکڑوں فوجی طیارے اور 21 بحری جہاز دینے کا فیصلہ کیا۔ بغداد پیکٹ' سیٹو' سینٹو اس کے فوراً بعد کی کہانی ہیں۔ ڈاکٹر مصدق کی رخصت کے بعد صرف ایران میں ہی نہیں' پاکستان میں بھی حکمران اشرافیہ کے افراد ٹیل کوٹ اور سیاہ بوٹائی میں امریکی دستر خوان کے ریزہ چیں ہو چکے تھے۔
مصدق پر جو کچھ گزری وہ صرف ایران ہی نہیں ہمارے پورے خطے کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ مصدق حکومت اگر قائم رہتی اور سی آئی اے کی سازش کے ذریعے محمد رضا شاہ پہلوی کو واپس لا کر تخت نشین نہ کرایا جاتا تو آج ایران اور ہمارے خطے کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ ایران ایک جمہوری ملک ہوتا، اس کا سماج روشن خیال، ثروت مند اور جدید ہوتا۔ جبہ و دستار کے قبضۂ قدرت میں نہ جاتا اور اس کی کئی نسلوں کو وہ سب کچھ نہ سہنا پڑتا جو شہنشاہ ایران کی ساواک اور اُس کے بعد آنے والوں کے ہاتھوں ان کا مقدر ہوا۔
بے شمار ذہین پُر جوش' شعر و ادب' صحافت اور فنون لطیفہ سے جڑی ہوئی ایرانی لڑکیاں' عورتیں اور نوجوان اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ وطن سے دور امریکا اور یورپ میں زندگی گزاریں۔ وہ ایران کی تعمیر نو کے خواب دیکھتے ہیں' ہر شب خواب انھیں' قزدین' طہران' مشہد اور تبزیر کی گلیوں کی سیر کراتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر وہ اپنے خون سے ہی رقم کر سکتے ہیں۔ شاہ کا زمانہ تھا تو وہ باغی تھے' شہنشاہی کے غدار تھے اور اب جب کہ ملائیت کا دور دورہ ہے' تب بھی وہ غدار ہیں۔ موت پہلے بھی ان کا مقدر تھی اور آج بھی پھانسی گھا ٹ میں سولیاں ان کی منتظر ہیں۔
ایران کی فوج اور شاہ پرستوں نے ایرانی عوام کے ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منتخب کردہ وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق سے جس طرح غداری کی اس کے بعد کی نسلوں کو شدت سے اس کا احساس ہوا اور آج یہ عالم ہے کہ باشعور ایرانیوں نے امریکا میں Mossadegh Legacy Institute قائم کیا ہے جسے مشہور امریکی دانشور نوم چومسکی' پاکستان کے طارق علی اور دوسروں کی حمایت حاصل ہے۔
سٹیفن کنزر اپنی کتاب All The Shah's Men میں لکھتا ہے کہ شرقِ اوسط میں آج جو خوں ریزی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور مسلح تنازعات ہیں، اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اب سے 60 برس پہلے ایک محب وطن، قوم پرست' ایمان دار اور عوام کے ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو برطانیہ اور امریکا نے تیل کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا۔ انھوں نے یہ نہ سوچا کہ اس کے منفی اثرات کتنی دور تک جائیں گے اور یہ خون ناحق خود ان کے مفادات کو کتنا نقصان پہنچائے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف یورپی درالحکومتوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ اگر 50 کی دہائی میں ایرانی جمہوریت کو یوں نہ روند دیا جاتا تو آج شرق اوسط کے ملکوں میں امریکا اور برطانیہ پر بداعتمادی اور نفرت اتنی گہری نہ ہوتی اور انتہا پسند عناصر کو ان ملکوں میں قدم جمانے کا موقع نہ ملتا۔
رضا شاہ کو مصدق کی پھانسی کے نتائج سے خوف آتا تھا اسی لیے اسے پھانسی تو نہیں دی گئی لیکن اس کی سزا کے ابتدائی تین برس قید تنہائی میں گزرے اور اس کے بعد آخری سانس تک وہ اپنے آبائی گھر میں نظر بند رہا۔ کسی کو اس سے ملنے یا اس کے گھر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ریشارد کاپوشنسکی نے مصدق کا انٹرویو حاصل کرنے کے لیے اس کے گارڈز کو بھاری رشوت دی تھی۔
مارچ 1967ء میں موت جب ڈاکٹر مصدق کو رہائی دلانے کے لیے آئی تو اس کے پاس کوئی اس کا اپنا نہ تھا۔ اس کی مقبولیت کے خوف سے شاہ نے اس کا جنازہ نہیں اٹھنے دیا' نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی نہ وہ کسی قبرستان میں دفن ہوا۔ شاہ جانتا تھا کہ مصدق کو اگر کسی گورستان میں دفن کیا گیا تو اس کی قبر مرجع خلائق بن جائے گی۔ مظلوم اور مقتول کی قبر ظالم اور قاتل کو ڈراتی ہے۔ شاہی خوف کی کدال سے مصدق کے گھر میں ایک کمرے کا فرش کھودا گیا اور ایران کا عظیم دانشور اور کھرا سیاست دان خاک کے سپرد کردیا گیا۔
اس کی قبر سیاہ چادر سے ڈھکی ہوئی ہے جس پر دو قرآن اور دو شمع دان رکھے ہیں۔ یہ اس شخص کا اختتام ہے جس نے ایران کی اور اپنے خطے کی تقدیر بدلنی چاہی تھی۔ جب وہ فوجی عدالت میں کھڑا تھا تو اس نے کہا تھا 'میں اگر خاموش رہتا تو گنہگار ہوتا۔' امریکا اور یورپ میں رہنے والے بہت سے نوجوان اس بوڑھے کی تصویر والی قمیص پہن کر اپنی محبوباؤں سے ملنے جاتے ہیں جس پر لکھا ہے کہ 'میں اگر خاموش رہتا تو گناہ گار ہوتا'۔ عشق کی سرگوشیوں میں مصدق کا یہ جملہ ان نوجوانوں کو آزاد ایران کی خواہش سے سرشار کر دیتا ہے۔
مجھے مصدق کی یاد آتی ہے۔ ایک تنہا' لاغر اور کمر خمیدہ شخص کینسر جس کے حلقوم کو کھا رہا تھا۔ جس کو دو قدم چلنے کے لیے لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا لیکن جس نے دنیا کی دو عظیم طاقتوں اور شہنشاہ ایران کے سامنے سر نہیں جھکایا' جسے ایرانیوں نے بہت بھاری اکثریت سے اپنا نمایندہ منتخب کیا تھا اور مجلس نے جسے ایران کا وزیر اعظم چُنا تھا۔ ایسے رہنما کسی قوم کو صدیوں میں میسر آتے ہیں۔ ایرانی خوش بخت تھے کہ وہ ان کے یہاں پیدا ہوا اور بد نصیب تھے کہ انھوں نے ایک نابغۂ روزگار کی قدر نہ کی۔