سیاسی ساختوں کی تشکیل … آخری حصہ

کیونکہ ترقی یافتہ سماج میں انٹیلیجنسیا کا کردار ہمیشہ سے سیاسی و سماجی ساختوں کی تعینات میں...


Shabana Yousuf August 31, 2014
[email protected]

ڈاکٹر طاہر القادری اپنی تقاریر میں قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں جو عملی سطح پر ایک غریب انسان کو میسر ہو اور عوامی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سماجی و سیاسی فیصلے کیے جائیں ،مگر معیشت کی کمزور ساختوں کی مضبوطی کے بنا عملی سطح پر یہ سب کس حد تک ممکن ہوگا اس کا فیصلہ وقت کا بہتا ہوا تبدیلی کے دھاروں پر مبنی دریا کرے گا۔

پاکستانی معاشرہ اور سیاسی و سماجی ساختیں جس ٹوٹ پھوٹ کا آج شکار ہیں مغربی معاشرے ایک صدی سے بھی قبل اس انتشار سے گزر کر نئی ساختوں میں ڈھل چکے ہیں ۔ اس لیے سیاسی و معاشی، مذہبی و سماجی ساختیں تاریخ کے دھارے میں بہتی ہوئی کیسے نئی نئی ہئیت میں ڈھلتی آئی ہیں اور منتشر سیاسی ادوار میں دوسری قومیں یا سماجوں کے حکمرانوں نے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کس طرح سے کیا کیا حکمتِ عملی اپنائی تھی اور ان کی غلطیوں کے نتیجے میں پھیل جانے والے اندھیرے اور بہتر فیصلوں کی روشنی میں ابھرنے والے روشن پس منظر میں ہم اپنے سیاسی پیش منظر کو سمجھنے کے لیے ان کی انٹیلی جینسیا کی تحاریر سے مستفید ہوسکتے ہیں اور عملی سرگرمی میں پیش پیش وہ لیڈر جن کے کردار نے کسی سماج کی سیاسی ساختوں میں تبدیلیاں ممکن بنائی ان کے مقابل اپنے سیاسی و سماجی لیڈروں کے کردار پرکھنے کے بھی قابل ہوسکتے ہیں ۔

کیونکہ ترقی یافتہ سماج میں انٹیلیجنسیا کا کردار ہمیشہ سے سیاسی و سماجی ساختوں کی تعینات میں گہرے اثرات مرتب کرتا رہا ہے ۔ ان کے متون نے ان معاشروںکی ساختوں کو متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی عملی سرگرمی مختلف تصورات پر مبنی متون کی روشنی میں متشکل ہوتی رہی ہیں اور عملی سرگرمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مادی وسیاسی صورتحال ان کے خیالات اور تصورات پر اثر انداز ہوتی آئی ہیں۔لہذا ہمارا یہ سیاسی منظر نامہ جہاں پر عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری اور ریاستی گروہان کے کرداروں نے عوام کو کنفیوژن میں مبتلا کر رکھا ہے وہاں بدلتے وقت کی تبدیل ہوتی ساختوں کا تجزیہ کریں تو ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ اب سیاسی ساختوں میں واحد قوت یا واحد متکلم جسے سولو پرفارمر یا لیڈر شپ کہہ سکتے ہیں کی گنجائش نہیں رہی یا کم ہوگئی ہے۔

جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے جس میں ایک ڈکٹیٹر تو ڈکٹیٹر ہوتا ہی تھا مگر سیاسی حکمران بھی جمہوریت کا لبادہ پہن کر آمرانہ سرگرمی انجام دیتے رہتے تھے اور اس وقت کی سیاسی ساخت سے اس لیے ہم آہنگ رہتے تھے کہ عوام ان کے بہت سے عملی اقدامات سے بے خبر ہوتے تھے کیونکہ اس وقت حکومتی نشریاتی ادارے ہی واحد رابطے کا ذریعہ تھے جو عوامی پہنچ سے دور بیٹھے حکمرانوں کی ان سرگرمیوں کو نشر نہیں کرتے تھے جو عوام میں کسی انتشار کا باعث بن سکتی تھیں، اب نشریاتی ساختوں کی کلیت میں بھی دوسرے تخالف پیدا ہوچکے ہیں جن کی موجودگی میں روایتی سولو لیڈر شپ کا چلتے رہنا ممکن نہیں رہا۔

موجودہ حکمرانوں نے ایک طرف تو وقت کی تبدیل ہوتی ساخت میں جنم لینے والی آزاد میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ان ساختوں کے کردار کو نظر انداز کیا ہے جو لوگوں کے اذہان پر گہرے اثرات مرتب کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں تو دوسری طرف جدید سیاسی بصیرت کی کمی اور سیاسی تاریخ سے لاعلمی کے نتیجے میں حکمرانی کے اس سنہرے اصول کو سمجھ کر اس کی روشنی میں فیصلے نہیں کیے جسے ایک صدی پیشتر بہت سے دائیں اور بائیں بازو کے مفکر اپنے سیاسی متون میں بیان کرتے آرہے ہیں۔

جب کہ مقابل پیدا ہونے والی اختلافی ساختوں کی بنیاد میں ان متون کی روشنی میں اپنے قائدانہ کردار کو ادا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنی گفتگو میں اکثر یہ اظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے مغربی معاشروں اور امریکی ریاستوں کے معاشی و سیاسی نظاموں کا گہرا مطالعہ کیا ہے خصوصاََ جمہوری نظاموں کا اور کچھ یہی عمل ہمیں عمران خان کی اقدامات میں نظر آتا ہے جو اپنے عوام کے ساتھ ان ہی کی سطح پر زندگی گزارتا ہے یا نہیں مگر ان جیسا نظر ضرور آتا ہے۔

دونوں لیڈروں کے ساتھ کھڑے عوام میں بڑی تعداد خواتین کی نمایاں ہے جس کی عملی سطح پر شمولیت کسی بھی تاریخی فیصلے اور تبدیلی میں ضمانت ہوتی ہے ۔ موجودہ دونوں لانگ مارچ کے اجتماعات میں خواتین کی کثیر تعداد اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ دونوں لیڈر خواتین کی سیاسی و سماجی ساختوں کی از سرِ نو تشکیل میں عملی کردار کی اہمیت کا بخوبی علم رکھتے ہیں، کیونکہ عوامی رضا کا قریبا َحصہ خواتین پر مبنی ہے ۔عوامی سوچ پر غلبہ یا فتح کا سنہری اصول ایسا اصول ہے جسے گرامشی نے جو اٹلی کی کیمونسٹ پارٹی کا لیڈر تھا نے اپنے تصورِ hegemony کے ذریعے واضح کیاتھاکہ کیسے عوامی سوچ پر غلبہ پانے کے بعدکوئی حکمران اپنی حکومت کو جائز جواز بخش سکتا ہے ایک سول سوسائٹی کی مرضی کے ذریعے اور ریاستی مشینری کو وسیع سطح پرپھیلانے کے لیے مہذب انداز پر مبنی عوامی دماغ شوئی ممکن بنا سکتا ہے۔

گرامشی کے اس تصورِ hegemony سے مغربی یورپی ریاستوں اور امریکی ریاستوں نے بہت استفادہ کیا ہے، مثلاََ امریکا نے جب غیر مسلم ریاستوں پر معاشی غلبہ حاصل کرنا چاہا تو پہلے جہاد کے نام پر سی آئی اے نے اپنے ایک اہم آپریشن ''سائیکلون'' کے تحت تقریباََ پینتس ہزار اسلامی مذہب سے انتہا پسندی کی حد تک محبت کرنے والے (زائیلوس) کوجہاد کے نام پر بھرتی کرکے اسامہ بن لادن کی قیادت میں تربیت دے کر اپنے مفادات کی جنگ لڑی، یعنی پہلے تصورِ جہاد کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی دنیا کی سوچ پر غلبہ حاصل کیا پھر ان کرداروں کے ذریعے اپنی مرضی کا کام کرایا، اس کے بعد جب اسلامی ریاستوں میں اپنی آزاد منڈی کا پھیلاؤ ممکن بنانا چاہا تو ان ہی جہادیوں کو انتہا پسند اسلامی طالبان کا ٹائٹل دے کر ایسے کام کرائے کہ مسلم ریاستوں کے عوام سوچنے لگے کہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔

غرض یہ کہ عوام کی سوچ پر پھر غلبہ اس طرح حاصل کیا کہ طالبان کی تخریبی کارروائیوں کے نتیجے میں پوری اسلامی دنیا کے عوام وہی سوچنے لگے جو امریکا نے چاہاکہ ہمارے درمیان دہشت گرد موجود ہیں لہذا ان کے خاتمے کے لیے امریکا کی در اندازی جائز ہے ۔غرض یہ کہ امریکا اور مغربی یورپی ریاستوں کے حکمران اپنے عوام اور پوری دنیا کے عوام کی سوچ کو پہلے فتح کرتے ہیں پھر حکمرانی کے ذریعے معاشی مفادات جو ان کا اصل ہدف ہوتے ہیں کو حاصل کرتے ہیں۔ دوسری طرف معاشی طاقت ہی کے ذریعے اپنے تخالف کا کردار متعین کرتے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب تک امریکا پاکستان کو ''عطیات'' کے نام پر بھیک دیتا رہے گا تب تک پاکستان کا پاک ایران گیس پائپ لائن کا خواب پائپ لائن ہی میں رہے گا۔

موجودہ سیاسی بحران میں بین الاقوامی سیاسی ساختوں کو متعین کرنے کے لیے معیشت کا اہم کردار ہے جو ہماری اندرونی ساختوں کی شکست و ریخیت اور تعمیر میں اثر انداز ہورہا ہے۔بہرحال گرامشی کا خیال تھا کہ حکمرانوں اور عوام کا رشتہ اس لیے بہت پیچیدہ ہو چکا ہے کہ اس کی قومی سیاست کی ساختیں بین الاقوامی سرحدوں کی حدوں تک پھیل رہی ہیں اور ان کے متوازی عوامی رائے کو متحرک کرنے والی رابطے کی نئی ساختوں کے استحکام کی وجہ سے مغربی ریاستوں کا معاشی و سیاسی پھیلاؤ ممکن ہوا ہے جو مختلف معاشروں کی ثقافت میں منعکس ہوتا ہے۔

پاکستان کی اندرونی سیاسی ساختوں میں ہونے والی تبدیلی بیرونی اثرات کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کی ثقافت و سماجت میں مادی سرگرمی کی صورت واضح تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان ساختوں کی تبدیلی نے عوامی اذہان اور ان کے سیاسی شعور کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کو سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں کی وجہ سے بہت برے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ ناگزیر ہوچکا تھا ، کیونکہ ، عوامی سوچ پر غلبہ پانا کسی بھی گورنمنٹ کو یا الیکشن کو فتح کرنے کے لیے پہلا اور ضروری اصول ہے ،اس کی روشنی میں عمران خان کا کردار سمجھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کا کردار بھی واضح ہوتا ہے جو وقت کی بدلتی ساختوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور عوامی رضا کی بنیاد پر اپنے سماجی و سیاسی مطالبات کی تکمیل چاہتے ہیں اور اسی بنیاد پر دونوں لیڈر سیاست کی روایتی ساختوں کو توڑنے میں کافی حد تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں ، ان کوششوں کے نتیجے میں موجودہ حکومت اگر شکست و ریخت سے دوچار ہوگی تو عوامی سیاسی شعور بھی بلند ہوگا اور مستقبل میں حکمرانوں کو عوامی رضا کے بغیر حکومت میں رہنا اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں