جسٹس ر دیدار حسین شاہ حصہ اول
یا پھر ان کے لیے کوئی ہمدردی دکھائی۔ میں جب لاڑکانہ میں انفارمیشن
LONDON:
یوں تو دنیا میں کئی لوگوں سے ملاقات روزانہ ہوتی رہتی ہے جس میں صرف چند ایسے ہوتے ہیں جو اکثر یاد رہتے ہیں اور اگر ان کا مزاج اور کام بہتر ہے تو وہ ہمارے ذہن میں ڈیرا جمالیتے ہیں۔ جس میں ایک شخصیت جسٹس (ر) سید دیدار حسین شاہ کی بھی ہے جس کا سفر لاڑکانہ ضلع رتو ڈیرو سے ایک ٹیچر سے ہوا پھر انھوں نے وکالت شروع کی اور اس کے ساتھ چھوٹے پیمانے سے سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے اور دو مرتبہ ایم پی اے بنے پھر ہائی کورٹ کے جج، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بن کر ریٹائرڈ ہوئے اس کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے نیب کے چیئرمین بھی رہے مگر پی پی پی کی پرانی چھاپ کی وجہ سے اسے ہٹایا گیا حالانکہ وہ کبھی بھی کسی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم کی طرف نہیں جھکے۔
یا پھر ان کے لیے کوئی ہمدردی دکھائی۔ میں جب لاڑکانہ میں انفارمیشن افسر تھا تو ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی مگر بعد میں جب وہ جسٹس بنے یا اس سے پہلے ایم پی اے بنے تو کوئی خاص ملاقاتیں نہیں ہوئیں لیکن ان کا مزاج اور انداز ہمیشہ یاد رہا۔ ایک دن آج سے تقریباً چار مہینے پہلے وہ اپنی کتاب ''گوند رویا گناری'' کی مہورت کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے جس کی دعوت مجھے بھی دی گئی تھی آپ اندازہ لگائیں کہ وہ مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے آئے تھے اور ہر کام کو خود دیکھ رہے تھے۔ میں نے بڑے عرصے کے بعد کسی کتاب کی مہورت میں اتنے زیادہ لوگ دیکھے۔ یہ جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کی شخصیت تھی کہ ہر طرف زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ نظر آئے جنھیں وہ خود دروازے پر جاکر ویلکم کرتے رہے۔
شاہ صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کے بارے میں آگے چل کر بتاؤں گا اس سے پہلے ان کی شخصیت اور جد وجہد کے بارے میں بتاؤں کہ انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر کی شروعات ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کے طورپر کی اور کئی کمیٹیوں کے چیئرمین بنادیے گئے جس سے انھوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے علاقوں میں روڈ، پلیس، ا سکول بنوائے، جب انھیں رتو ڈیرو سے پی پی پی کی ٹکٹ پر ایم پی اے کی سیٹ کے لیے منتخب کیا گیا تو وہ حیران ہوگئے کہ وہ ممتاز بھٹو کے مقابلے میں ایک ادنیٰ ورکر کو بے نظیر صاحبہ نے ٹکٹ دیا ہے مگر یہ فیصلہ درست تھا کیوں کہ دیدار شاہ لوگوں میں کافی مقبول تھے اور پھر پی پی پی کی طاقت نے 1990 کی الیکشن میں ممتاز بھٹو کو شکست ہوئی لیکن 1993 والے الیکشن میں وہ ہار گئے جس کی کئی وجوہات تھی جس میں شاہ صاحب کا کوئی فالٹ نہیں تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شاہ صاحب کی سچائی، پارٹی کی لگن اور ان کی ایمانداری سے کافی خوش تھیں اس لیے انھوں نے انھیں 1994-95 کی بیچ میں ہائی کورٹ کا جج بنادیا، یہ ان کی خوبی تھی کہ انھوں نے بھی کبھی پی پی پی کی یا محترمہ کی کوئی سپورٹ نہیں کی بلکہ ایک غیر جانبدار جج بن کر کام کیا اور اپنے مخالفین کے ساتھ بھی انصاف کیا جس کی مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک انگریزی اخبار کے مشہور رائٹر کاؤس جی کے پلانٹ کا ایک کیس ان کے پاس آیا جس کے لیے ایک اتفاقی ملاقات کے دوران شاہ صاحب نے کاؤس جی سے کہا کہ وہ اپنا کیس کسی اور جج کے پاس شفٹ کروائیں کیوں کہ آپ نے تو میرے لیے لکھا ہے کہ میں تو جیالہ جج ہوں اور انصاف نہیں کرسکتا جس پر کاؤس جی بڑے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ وہ غلط تھے اور معافی مانگی ۔ شاہ صاحب نے ان کا کیس میرٹ پر چلایا اور حکومت کو کہا کہ وہ کاؤس جی کو اصلی قیمت ادا کریں۔
اس کے علاوہ جب نواز شریف کو عدالت میں ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا تو انھوں نے یہ حکم دیا تھا کہ سابق وزیراعظم کو ہر سہولت دی جائے اور انھیں آئندہ ہتھکڑی نہیں لگائی جائے۔ اگر وہ چاہتا تو پی پی کا جیالہ بن کر بدلہ لے سکتا تھا مگر اس نے ہمیشہ قانون اور انصاف کی بالادستی رکھی۔
2002 کو سپریم کورٹ کے جج تھے جہاں سے 2005 میں ریٹائرڈ ہوئے، اس کے بعد 18 اکتوبر 2010 میں چیئرمین نیب بنادیے گئے اور 6 مہینے کے بعد ہٹادیے گئے۔
جب وہ ایم پی اے تھے تو انھوں نے ایک Resolution پاس کروایا کہ سرکاری ملازمین پر جو ضیاء الحق نے پابندی لگائی تھی کہ وہ سندھ گریجویٹ اپوزیشن کے ممبر نہیں بن سکتے ہیں اسے اٹھا لیا جائے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے SGA کے لیے 60 لاکھ روپے منظور کروائے جس کا سہرا اس وقت کے چیف منسٹر سید عبداﷲ شاہ کو بھی جاتا ہے۔ اس رقم سے کئی عوام کی فلاح و بہبود کے پروجیکٹ مکمل کیے گئے اس کے علاوہ لاڑکانہ کی سندھ ہائی کورٹ بنچ کو قائم کرنے میں بھی ان کا بڑا رول ہے.
جس کے لیے وہ بے نظیر سے ہمیشہ کہتے رہے تھے۔ شاہ صاحب اپنے اسکول اور کالج کی دنیا میں بڑے ہوشیار رہے مگر وہ Mathematics میں کمزور رہے ہیں پھر بھی ٹیچری کے زمانے میں وہ لائبریری اور کلرک کی جاب بغیر پیسے کے اسکول میں سنبھالتے رہے ہیں۔ انھوں نے وکالت میں قدم رکھا تو اس وقت کے اچھے وکیل عبدالرزاق سومرو کے جونیئر کے طور پر کام شروع کیا۔ پی پی پی میں وہ بھٹو اور بے نظیر کے بہت قریبی لوگوں میں رہے اور وقت بہ وقت انھیں اچھے مشورے دیتے رہے جسے قبول کیا گیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران وہ جیل بھی گئے ۔ جب ممتاز بھٹو قائمقام چیف منسٹر بنے تو بھی انھیں جیل جانا پڑا اور تقریباً وہ سیاسی کیریئر میں ڈھائی سال جیل میں رہے۔
وہ شہید بھٹو مزار کمیٹی کے سیکریٹری رہ چکے ہیں، تعلیمی خدمات کے سلسلے میں انھوں نے شاہ عبداللطیف ایجوکیشن ٹرسٹ میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے اور اس کے آنریری سیکریٹری اور مخدوم بلاول کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے بھی اہم عہدے پر کام کررہے ہیں۔
شاہ صاحب 11 دستمبر 1939 میں گڑھی غلام حیدر قادری گاؤں میں سید محبوب علی شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے اور پھر رتو ڈیرو میں باقی بچپن اور جوانی کی زندگی گزاری۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم رتو ڈیرو میں حاصل کی، بی اے سچل سرمست کالج حیدر آباد سے، ایل ایل بی لاء کالج حیدرآباد سے کیا ۔ اسکول کے زمانے میں بڑے ذہین تھے اس لیے انھیں پڑھائی کے لیے 12 روپے ماہانہ اسکالر شپ ملتی تھی۔ انھوں نے 2مئی 1972 کو اپنی کزن سے شادی کی جس سے ان کی تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جو سب کے سب شادی شدہ ہیں، اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور اچھی اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
شاہ صاحب پہلا سندھی جسٹس ہے جس نے اپنی یاد داشتیں لکھی ہیں جو تقریباً 380 صفحات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو کمپوز کروانے سے پہلے ایک سندھی روزنامہ میں کئی قسطوں پر شائع کیا ۔ اپنی یاد داشتوں کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک اگر اردو اور انگریزی میڈیا میں رپورٹ اچھے طریقے سے ہوتی تو اس کے نتائج کافی مختلف اور جاندار ہوتے کیوں کہ بین الاقوامی سطح پر اس تحریک کے بارے میں معلومات اور ظلم کے بارے میں لوگ جانتے کہ جمہوریت اور منتخب وزیراعظم کے لیے لوگوں نے زندگی کی قربانی کیسے دی۔
(جاری ہے)