حد ادب ملحوظ رہے…
بچوں کا قہقہہ تو کیا نکلا، میری ہنسی بھی چھوٹ گئی جب وہ بیٹھتے ہی یوں اچھلے جیسے انھیں کسی چیز نے ڈنگ مار دیا ہو
وہ سب چھوٹے بچے تھے... سات سے آٹھ برس کی عمروں کے ، جس عمر میں پریشانیاں بھی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اور ان کے حل بھی آسان، کبھی ماں کے پاس، کبھی باپ کے پاس، کبھی اساتذہ ، کبھی بہن بھائی اور کبھی دوست ہی ان پریشانیوں کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو جاتے ہیں۔
اس عمر میں چھوٹی سی شرارت بھی قہقہے لگوا دیتی ہے جب کہ کام کار کی فکروں میں پڑ کر ہمیں مزاحیہ فلموں پر بھی ہنسی نہیں آتی۔ ہوٹل کی اس انتظار گاہ میں ہم اپنے مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے اور یہ بچے اندر بڑے ہال میں ہونے والی شادی کی تقریب سے بیزار ہو کر باہر نکل آئے تھے اور اپنے انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔
پہلے انھوں نے اس شرارت سے باری باری خود حظ اٹھایا، کسی بچے کے پاس کوئی کھلونا تھا جس میں باجہ تھا، یقینا یہ کھلونا ہال میں بیٹھے کسی معصوم بچے کی ملکیت ہو گا اور ان کے ہاتھ لگا تو انھیں یہ شرارت سوجھی تھی۔ انتظار گاہ میں پڑے صوفوں پر ایک خالی صوفے پر ، ہلکے سے کشن کے نیچے انھوں نے یہ کھلونا چھپا رکھا تھا، کچھ دیر کے بعد کوئی نہ کوئی آتا اور اس واحد خالی صوفے پر بیٹھتا... ساتھ ہی باجا بجتا اور اس کے ساتھ ان بچوں کا قہقہہ۔ کچھ دیر تک تو بیٹھنے والا سمجھ ہی نہ پاتا کہ ہوا کیا ہے، جونہی سمجھ میں آتا تو وہ کھسیا کر وہاں سے اٹھ کر یوں جاتا کہ پلٹ کر بھی نہ دیکھتا۔ ان کھسیانے والوں میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اور جب ان کے ساتھ ایسا ہوا تو وہ ارد گرد دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئیں مگر یہ کسی کو سمجھ میں نہ آیا تھا کہ یہ شرارت ان بچوں کی تھی اس لیے ان کی ''عزت افزائی ''نہ ہوئی تھی۔
جہاں ہر طرف افراتفری، ٹینشن اور کئی طرح کے مسائل ہیں ، ان حالات میں میں کئی بار ہنس دی، بچے اس بات سے حوصلہ افزائی پا رہے تھے کہ کوئی بڑا بھی ان کی شرارت سے لطف اندوز ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی شرارت دلچسپ تھی، مگر پھر ان کے ساتھ وہ ہواجو نہیں ہونا چاہیے تھا یا کم از کم نہ ہوتا اگر میں ہی ان کو منع کر دیتی تو۔ ہوا یہ کہ ایک ذرا سے بزرگ نما آدمی آئے، چہرے سے وہ نرم مزاج لگ رہے تھے، بچوں نے اپنی شرارت کا سامان تو پہلے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔
بچوں کا قہقہہ تو کیا نکلا، میری ہنسی بھی چھوٹ گئی جب وہ بیٹھتے ہی یوں اچھلے جیسے انھیں کسی چیز نے ڈنگ مار دیا ہو... اچھل کر دوبارہ نشست پر تقریباگرے تو پھر وہی ہوا اور پھر قہقہہ چھوٹا، انھوں نے اپنی عینک کے فریم کے اوپر سے مجھے گھوری ماری کیونکہ میں عین سامنے بیٹھی تھی، ''تمہاری شرارت ہے یہ بے وقوف خاتون؟؟؟ '' میں ان کا منہ دیکھ کر رہ گئی، میں انھیں کس طرح بے وقوف لگی تھی، ان کی اپنی زندگی سے اخذ کیا گیا نتیجہ تھا یا شاید انھیں یہی سکھایا گیا تھا کہ جب بھی کسی عورت کو مخاطب کرو تو اس کے لیے بے وقوف کے الفاظ سب سے بہترین اور مناسب ہوتے ہیں۔
کچھ کہنے کی بجائے میں نے جواب میں ان کی طرف اس طرح دیکھا کہ انھیں اپنے الفاظ کی سختی کا اندازہ ہو گیا... '' تو گویا تم نے نہیں کیا یہ!!!'' انھوںنے خود ہی نتیجہ نکالا، '' تو پھر یہ ہوں گے شیطان کے چیلے، نا ہنجاز، نا خلف، بد تمیز، بڑے گھڑوں کے بگڑے ہوئے نطفے، آوارہ ،لوفر، لفنگے، واہیات، بے شرم، بے حیا، مادر پدر آزاد، بے غیرت... '' ان کی لسٹ اتنی طویل تھی کہ مجھے ان میں سے اتنے ہی الفاظ یاد رہ سکے ہیں، بچے تو گویا تھر تھر کانپنے لگے مگر انکل کا جلال تو آسمان کو چھونے لگا، '' تم ہی نے کیا ہے نا لفنگو... گلی کے کتو!!!! تم نے ہی کی ہے نا یہ شرارت؟ ''
'' ن ن ن نہیں ... '' کسی ایک کی کانپتی آواز نکلی، '' ہم نے کچھ نہیں کیا!!'' میں نے انھیں سب کچھ کرتے ہوئے دیکھا تھا، پھر بھی میں نے نظروں ہی نظروں سے ان کی تائید کی... انکل غصے میں مزید مغلظات ... ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔
'' جھوٹ کیوں بولا آپ لوگوں نے؟ '' میں نے ان کے دور چلے جانے کے بعد پوچھا۔
'' انکل ہمیں مار دیتے آنٹی اگر ہم سچ بولتے... ''
'' وہ بہت غصے میں تھے اور بہت گالیاں دے رہے تھے... ''
''بابا جی بہت خوف ناک تھے آنٹی!!!'' میں ان کی ہر بات سے اتفاق کر رہی تھی مگر اس سارے قصے میں مجھے جو شخص سب سے زیادہ قصور وار نظر آیا، وہ میں ہی تھی۔
میں ان کی شرارت سے محظوظ ہوتے ہوئے یہ بھول گئی کہ بسا اوقات معصوم سی شرارت بھی نقصان کروا دیتی ہے... کسی کی انا پر چوٹ پڑ جانا بھی نقصان ہی تو ہے، بچوں کے ساتھ انسان کبھی کبھار بچہ بن جائے تو حرج کوئی نہیں کہ ' دل تو بچہ ہے جی!' مگر ' بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل ' ... ایک ماں کو ہمیشہ ماں کی طرح ہی بچوں کی راہنمائی کرنا چاہیے... نئی نسل کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ جب اٹھایا جاتاہے تو ایک استاد کو ہمیشہ استاد ہی طرح سوچنا چاہیے... میرے اپنے یا ہمارے ادارے کے بچوں میں سے اگر کوئی بچے یہ شرارت کر رہے ہوتے تو شاید میںانھیں سمجھاتی کہ یوں نہ کریں، اس سے بڑوں کی بے عزتی ہوتی ہے، شرارت اپنے ہم عمروں اور ہمجولیوں سے کرنا چاہیے، انجان لوگوں سے مذاق نہیں کرنا چاہیے اور مذاق دوسروں سے تب کرنا چاہیے اور اس نوعیت کا کرنا چاہیے جب ہم میں خود بھی ایسا مذاق برداشت کرنے کی عادت ہو۔
مگر یہ سوچ کر کہ کسی اور کے بچے ہیں میں نے ان کی قطعی اصلاح نہ کی اور اس کے نتیجے میں انھوں نے گالیوں اور مغلظات کا وہ ذخیرہ اپنے دامن میں سمیٹا کہ انھیں عمر بھر نہیں بھولے گا، بلکہ کئی ایسے الفاظ ہیں جو کہ ان کی '' گالیانہ لغت'' میں اضافے کا باعث بنے ہوں گے... کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ ان الفاظ کا استعمال کبھی نہیں اور کہیں نہیں کریں گے... کریں گے!!! ان سب بچوں کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ اچھے خاندانوں سے تھے اور اچھے اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
کیونکہ وہ ایک دوسرے کو بہت احترام سے 'آپ ' کہہ کر بات کر رہے تھے، مگر بابا جی تو انھیں وہ درس دے کر گئے تھے کہ جس کا اثر زائل ہونے میں بھی وقت لگے گا۔ہم عزت اور تکریم کی زبان استعمال کرتے وقت لوگوں کے لباس، کام، عہدے اور شخصیت کو کیوں ملحوظ رکھتے ہیں، خود سے بڑوں اور چھوٹوں کو عزت کے ساتھ بلانے میں کوئی حرج ہے نہ نقصان... گھر میں کام کرنے والے جمعدار کو بھی اگر ''آپ'' کہہ کر مخاطب کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس سے اس کی عزت میں کمی یا بیشی ہو نہ ہو کم از کم آپ کا ایک اچھا تاثر ضرور پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق اچھی جگہ سے ہے خواہ وہ اسکول ہے یا گھر۔ اوئے، تو،تم، ابے سن، ارے او... اور ایسے الفاظ کا استعمال کر کے ہم مخاطب کو اس کی ''اوقات'' یاد دلاتے ہیں اور یہ کہ اس کی اصلیت ہے اور وہ اس لیے لائق تضحیک اور اس طرح کے الفاظ کا حقدار ہے کہ وہ ہمارے ماتحت کام کرتا ہے، ہمارے ٹکڑوں پر پلتا ہے، ہمارا دیا کھاتا اور پہنتا ہے...
ہم بھول جاتے ہیں کہ اس سمیت ہم سب کا رازق اللہ تعالی ہے جو کہ رب العالمین ہے۔ اچھے اخلاق اور خوش کلامی... دو ایسی چیزیں ہیں کہ جس کی ملکیت ہوں اسے لوگ جانے کے بعد بھی یاد رکھتے ہیں۔ معصوم بچوں کی اصلاح کا جہاں اور جب موقع ملے ، ضرور کریں اور ان کی راہنمائی کریں چاہے آپ استاد ہوں یا نہ ہوں ، ماں باپ ہوں یا نہ ہوں کیونکہ کل کو ان ہی بچوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ ان کو راہ راست دکھانا یونہی ہے جیسے آپ اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوں جو اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہمیشہ منور رکھے گی۔
میں نے عہد کیا تھا کہ اب کالم میں سیاسی حالات کو زیر بحث نہیں لاؤں گی کیونکہ اس پربہت کچھ کہا، دکھایا اور لکھا جا چکا ہے مگر کالم لکھتے ہوئے جانے کیوں میرے ذہن میں سوچ آ گئی ہے کہ اس وقت ہمارے سیاسی افق پر چمکنے، ٹمٹمانے، نئے ابھرنے اور ڈوبنے والے ستاروں میں اکثر ایسے ہیں جن کی زبان کی اصلاح کسی نے نہیں کی، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے اور عمر بھر کے تجربات نے بھی انھیں کچھ نہیں سکھایا اور جہاں انھیں دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہوتا ہے اس وقت '' اوئے... بزدل... دغا باز... جھوٹے... تم... تو... مکار...'' ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے، گردن میں پھندا ڈالنے، نشان عبرت بنانے، سر عام لٹکانے، جیل میں ڈالنے جیسے عہد بھی on air کیے جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں سب سے اہم ضرورت ایک ایسا ادارہ بنانے کی ہے جہاں ہمارے سیاستدانوں کی تربیت اور تعلیم کا انتظام ہو تا کہ وہ بھی حد ادب ملحوظ رکھیں... کیا خیال ہے آپ کا؟؟؟
اس عمر میں چھوٹی سی شرارت بھی قہقہے لگوا دیتی ہے جب کہ کام کار کی فکروں میں پڑ کر ہمیں مزاحیہ فلموں پر بھی ہنسی نہیں آتی۔ ہوٹل کی اس انتظار گاہ میں ہم اپنے مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے اور یہ بچے اندر بڑے ہال میں ہونے والی شادی کی تقریب سے بیزار ہو کر باہر نکل آئے تھے اور اپنے انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔
پہلے انھوں نے اس شرارت سے باری باری خود حظ اٹھایا، کسی بچے کے پاس کوئی کھلونا تھا جس میں باجہ تھا، یقینا یہ کھلونا ہال میں بیٹھے کسی معصوم بچے کی ملکیت ہو گا اور ان کے ہاتھ لگا تو انھیں یہ شرارت سوجھی تھی۔ انتظار گاہ میں پڑے صوفوں پر ایک خالی صوفے پر ، ہلکے سے کشن کے نیچے انھوں نے یہ کھلونا چھپا رکھا تھا، کچھ دیر کے بعد کوئی نہ کوئی آتا اور اس واحد خالی صوفے پر بیٹھتا... ساتھ ہی باجا بجتا اور اس کے ساتھ ان بچوں کا قہقہہ۔ کچھ دیر تک تو بیٹھنے والا سمجھ ہی نہ پاتا کہ ہوا کیا ہے، جونہی سمجھ میں آتا تو وہ کھسیا کر وہاں سے اٹھ کر یوں جاتا کہ پلٹ کر بھی نہ دیکھتا۔ ان کھسیانے والوں میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اور جب ان کے ساتھ ایسا ہوا تو وہ ارد گرد دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئیں مگر یہ کسی کو سمجھ میں نہ آیا تھا کہ یہ شرارت ان بچوں کی تھی اس لیے ان کی ''عزت افزائی ''نہ ہوئی تھی۔
جہاں ہر طرف افراتفری، ٹینشن اور کئی طرح کے مسائل ہیں ، ان حالات میں میں کئی بار ہنس دی، بچے اس بات سے حوصلہ افزائی پا رہے تھے کہ کوئی بڑا بھی ان کی شرارت سے لطف اندوز ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی شرارت دلچسپ تھی، مگر پھر ان کے ساتھ وہ ہواجو نہیں ہونا چاہیے تھا یا کم از کم نہ ہوتا اگر میں ہی ان کو منع کر دیتی تو۔ ہوا یہ کہ ایک ذرا سے بزرگ نما آدمی آئے، چہرے سے وہ نرم مزاج لگ رہے تھے، بچوں نے اپنی شرارت کا سامان تو پہلے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔
بچوں کا قہقہہ تو کیا نکلا، میری ہنسی بھی چھوٹ گئی جب وہ بیٹھتے ہی یوں اچھلے جیسے انھیں کسی چیز نے ڈنگ مار دیا ہو... اچھل کر دوبارہ نشست پر تقریباگرے تو پھر وہی ہوا اور پھر قہقہہ چھوٹا، انھوں نے اپنی عینک کے فریم کے اوپر سے مجھے گھوری ماری کیونکہ میں عین سامنے بیٹھی تھی، ''تمہاری شرارت ہے یہ بے وقوف خاتون؟؟؟ '' میں ان کا منہ دیکھ کر رہ گئی، میں انھیں کس طرح بے وقوف لگی تھی، ان کی اپنی زندگی سے اخذ کیا گیا نتیجہ تھا یا شاید انھیں یہی سکھایا گیا تھا کہ جب بھی کسی عورت کو مخاطب کرو تو اس کے لیے بے وقوف کے الفاظ سب سے بہترین اور مناسب ہوتے ہیں۔
کچھ کہنے کی بجائے میں نے جواب میں ان کی طرف اس طرح دیکھا کہ انھیں اپنے الفاظ کی سختی کا اندازہ ہو گیا... '' تو گویا تم نے نہیں کیا یہ!!!'' انھوںنے خود ہی نتیجہ نکالا، '' تو پھر یہ ہوں گے شیطان کے چیلے، نا ہنجاز، نا خلف، بد تمیز، بڑے گھڑوں کے بگڑے ہوئے نطفے، آوارہ ،لوفر، لفنگے، واہیات، بے شرم، بے حیا، مادر پدر آزاد، بے غیرت... '' ان کی لسٹ اتنی طویل تھی کہ مجھے ان میں سے اتنے ہی الفاظ یاد رہ سکے ہیں، بچے تو گویا تھر تھر کانپنے لگے مگر انکل کا جلال تو آسمان کو چھونے لگا، '' تم ہی نے کیا ہے نا لفنگو... گلی کے کتو!!!! تم نے ہی کی ہے نا یہ شرارت؟ ''
'' ن ن ن نہیں ... '' کسی ایک کی کانپتی آواز نکلی، '' ہم نے کچھ نہیں کیا!!'' میں نے انھیں سب کچھ کرتے ہوئے دیکھا تھا، پھر بھی میں نے نظروں ہی نظروں سے ان کی تائید کی... انکل غصے میں مزید مغلظات ... ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔
'' جھوٹ کیوں بولا آپ لوگوں نے؟ '' میں نے ان کے دور چلے جانے کے بعد پوچھا۔
'' انکل ہمیں مار دیتے آنٹی اگر ہم سچ بولتے... ''
'' وہ بہت غصے میں تھے اور بہت گالیاں دے رہے تھے... ''
''بابا جی بہت خوف ناک تھے آنٹی!!!'' میں ان کی ہر بات سے اتفاق کر رہی تھی مگر اس سارے قصے میں مجھے جو شخص سب سے زیادہ قصور وار نظر آیا، وہ میں ہی تھی۔
میں ان کی شرارت سے محظوظ ہوتے ہوئے یہ بھول گئی کہ بسا اوقات معصوم سی شرارت بھی نقصان کروا دیتی ہے... کسی کی انا پر چوٹ پڑ جانا بھی نقصان ہی تو ہے، بچوں کے ساتھ انسان کبھی کبھار بچہ بن جائے تو حرج کوئی نہیں کہ ' دل تو بچہ ہے جی!' مگر ' بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل ' ... ایک ماں کو ہمیشہ ماں کی طرح ہی بچوں کی راہنمائی کرنا چاہیے... نئی نسل کی تربیت اور تعلیم کا ذمہ جب اٹھایا جاتاہے تو ایک استاد کو ہمیشہ استاد ہی طرح سوچنا چاہیے... میرے اپنے یا ہمارے ادارے کے بچوں میں سے اگر کوئی بچے یہ شرارت کر رہے ہوتے تو شاید میںانھیں سمجھاتی کہ یوں نہ کریں، اس سے بڑوں کی بے عزتی ہوتی ہے، شرارت اپنے ہم عمروں اور ہمجولیوں سے کرنا چاہیے، انجان لوگوں سے مذاق نہیں کرنا چاہیے اور مذاق دوسروں سے تب کرنا چاہیے اور اس نوعیت کا کرنا چاہیے جب ہم میں خود بھی ایسا مذاق برداشت کرنے کی عادت ہو۔
مگر یہ سوچ کر کہ کسی اور کے بچے ہیں میں نے ان کی قطعی اصلاح نہ کی اور اس کے نتیجے میں انھوں نے گالیوں اور مغلظات کا وہ ذخیرہ اپنے دامن میں سمیٹا کہ انھیں عمر بھر نہیں بھولے گا، بلکہ کئی ایسے الفاظ ہیں جو کہ ان کی '' گالیانہ لغت'' میں اضافے کا باعث بنے ہوں گے... کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ ان الفاظ کا استعمال کبھی نہیں اور کہیں نہیں کریں گے... کریں گے!!! ان سب بچوں کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ اچھے خاندانوں سے تھے اور اچھے اسکولوں سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
کیونکہ وہ ایک دوسرے کو بہت احترام سے 'آپ ' کہہ کر بات کر رہے تھے، مگر بابا جی تو انھیں وہ درس دے کر گئے تھے کہ جس کا اثر زائل ہونے میں بھی وقت لگے گا۔ہم عزت اور تکریم کی زبان استعمال کرتے وقت لوگوں کے لباس، کام، عہدے اور شخصیت کو کیوں ملحوظ رکھتے ہیں، خود سے بڑوں اور چھوٹوں کو عزت کے ساتھ بلانے میں کوئی حرج ہے نہ نقصان... گھر میں کام کرنے والے جمعدار کو بھی اگر ''آپ'' کہہ کر مخاطب کر دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس سے اس کی عزت میں کمی یا بیشی ہو نہ ہو کم از کم آپ کا ایک اچھا تاثر ضرور پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق اچھی جگہ سے ہے خواہ وہ اسکول ہے یا گھر۔ اوئے، تو،تم، ابے سن، ارے او... اور ایسے الفاظ کا استعمال کر کے ہم مخاطب کو اس کی ''اوقات'' یاد دلاتے ہیں اور یہ کہ اس کی اصلیت ہے اور وہ اس لیے لائق تضحیک اور اس طرح کے الفاظ کا حقدار ہے کہ وہ ہمارے ماتحت کام کرتا ہے، ہمارے ٹکڑوں پر پلتا ہے، ہمارا دیا کھاتا اور پہنتا ہے...
ہم بھول جاتے ہیں کہ اس سمیت ہم سب کا رازق اللہ تعالی ہے جو کہ رب العالمین ہے۔ اچھے اخلاق اور خوش کلامی... دو ایسی چیزیں ہیں کہ جس کی ملکیت ہوں اسے لوگ جانے کے بعد بھی یاد رکھتے ہیں۔ معصوم بچوں کی اصلاح کا جہاں اور جب موقع ملے ، ضرور کریں اور ان کی راہنمائی کریں چاہے آپ استاد ہوں یا نہ ہوں ، ماں باپ ہوں یا نہ ہوں کیونکہ کل کو ان ہی بچوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ ان کو راہ راست دکھانا یونہی ہے جیسے آپ اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوں جو اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہمیشہ منور رکھے گی۔
میں نے عہد کیا تھا کہ اب کالم میں سیاسی حالات کو زیر بحث نہیں لاؤں گی کیونکہ اس پربہت کچھ کہا، دکھایا اور لکھا جا چکا ہے مگر کالم لکھتے ہوئے جانے کیوں میرے ذہن میں سوچ آ گئی ہے کہ اس وقت ہمارے سیاسی افق پر چمکنے، ٹمٹمانے، نئے ابھرنے اور ڈوبنے والے ستاروں میں اکثر ایسے ہیں جن کی زبان کی اصلاح کسی نے نہیں کی، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے اور عمر بھر کے تجربات نے بھی انھیں کچھ نہیں سکھایا اور جہاں انھیں دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہوتا ہے اس وقت '' اوئے... بزدل... دغا باز... جھوٹے... تم... تو... مکار...'' ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے، گردن میں پھندا ڈالنے، نشان عبرت بنانے، سر عام لٹکانے، جیل میں ڈالنے جیسے عہد بھی on air کیے جاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں سب سے اہم ضرورت ایک ایسا ادارہ بنانے کی ہے جہاں ہمارے سیاستدانوں کی تربیت اور تعلیم کا انتظام ہو تا کہ وہ بھی حد ادب ملحوظ رکھیں... کیا خیال ہے آپ کا؟؟؟