ننگا بچہ
ہر حکومت کی کوشش ہے کہ اس کی رعایا خوشحالی کی پُر رونق شاہراہ پر تیزی سے بھاگنا شروع کر دے ۔۔۔۔
کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ رات سے ٹی وی کے سامنے مقید ہوں۔ ایک سے ایک المناک واقعہ، ایک سے ایک درد بھری خبر، کس پر غور کروں اور کس پر ذہن کی کھڑکی کو بند کر دوں۔ کیا واقعی یہ اکیسویں صدی ہے؟ تمام ممالک اپنے لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرنے کی اَن تھک دوڑ میں مصروف کار ہیں۔ تہذیب یافتہ ممالک کو خیر چھوڑ دیجیے۔ ہمیشہ سے جہالت، ظلم اور جبر کے پردہ میں قید افریقی ممالک بھی کمال ترقی کر رہے ہیں۔
آپ کینیا چلے جائیں، آپ بوسٹوانا پر غور کیجیے۔ ہر حکومت کی کوشش ہے کہ اس کی رعایا خوشحالی کی پُر رونق شاہراہ پر تیزی سے بھاگنا شروع کر دے۔ اپنے ملک کی جانب نظر دوڑاتا ہوں تو دل کو تکلیف ہوتی ہے۔ عرصہ سے لکھ رہا ہوں۔ کون سا نظام اور کون سی جمہوریت! کوئی رویہ بھی مہذب ہونا تو درکنار، شرافت کے بنیادی اصولوں تک سے عاری ہے۔ اپنے اپنے مفاد، صاحبان زیست! صرف اپنے اپنے مالی مفاد کی جنگ ہے۔ لرزہ خیز واقعات ہیں جن پر قصداً پردہ ڈال دیا گیا ہے۔
اللہ کی آخری کتاب میں حکم ربی ہے "اور اگر اللہ تم لوگوں کو ایک کو ایک سے دفع نہ کرائے تو دنیا تباہ ہو جائے۔ لیکن اللہ جہان والوں پر فضل کرنے والا ہے" (البقرہ) ہم کیا لوگ ہیں؟ ہمارے مقتدر حلقے کیسے ہیں؟ پوری دنیا میں اگر حکمرانوں کا منفی مقابلہ کروایا جائے تو ہم اوّل پوزیشن سے قطعاً پیچھے نہیں ہونگے۔ کون سا اصول عدل، اور کون سے میرٹ کی حکمرانی! فریب، ریاکاری اور ظلم کا ایک سمندر ہے جس میں ہم تمام لوگوں کو غرق ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
مجھے کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تو انسانوں کے رویوں کا طالبعلم ہوں۔ اَنا، ضد، تکبر اور دولت کے پہاڑ ہیں جو صائب فیصلہ کرنے نہیں دے رہے۔ ہاں! اور مصاحبِ سرکار! آج پھر گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ وہ سرکاری عمال جنہوں نے اس چھ سات برس میں اپنی سات پشتوں کے لیے دولت کما ڈالی ہے۔ اب آہستہ آہستہ یا تو ملک چھوڑ رہے ہیں یا پھر ایسی پوسٹوں پر ٹرانسفر کروا رہے ہیں جو کہ لوگوں کی آنکھ سے اوجھل ہوں۔ مگر ایک ہستی ہے جو مسلسل ان پر نظر رکھ رہی ہے۔
وہ ہے قدرت کے انصاف کی بے لاگ آنکھ! واقعات اور سچی حکایات کا ایک تسلسل ہے جو میرے خزینہِ ذہن میں موجود ہے، مگر میں ذاتیات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن حکیم میں اللہ کا حکم ہے" اس نے اور اس کے لشکروں نے ملک میں ناحق تکبر کیا اور سمجھے کہ وہ پھر ہماری طرف نہ آئیں گے۔ سو ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا۔ پھر ہم نے انھیں دریا میں ڈال دیا" (القصص) ہمارے اگلے ملکی حالات کیا ہونگے، کیا ہونے والے ہیں! اب نوشتہ دیوار ہیں۔
بُت کدے میں بُت بہت ہیں مسندوں پر، تخت پر
وہم کی تجسیم سنگیں اب ہے اوج بخت پر
سیکڑوں سالوں کا پہرہ مستقل اس در پہ ہے
دیر کے کچھ خوف ہیں دیوار شہر سخت پر
(منیر نیازی)
دلیل، منطق اور سچائی تو عرصے سے ہمارے ملک سے رخصت ہو چکی۔ یہ تمام سفر ایک یا دو سالوں کا نہیں، بلکہ دہائیوں کا ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم اپنے ملک کے ہر عہدہ اور ہر ادارے کو بے توقیر کر ڈالا ہے۔ پچھلے بیس پچیس سالوں کا تجزیہ کیجیے۔ سیاسی کشمکش اور سیاسی اختلاف نے ہماری اخلاقی بنیادیں تک تباہ کر ڈالیں ہیں۔ آپ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ایک دوسرے پر حملوں کا مطالعہ کریں تو یقین فرمائیے کہ شرم آتی ہے۔ ذاتی کردار کشی، مغلظ حملے، رکیک الزامات، شخصی لڑائی اور بغیر کسی حد اور قید کے ایک دوسرے کو برباد کرنے کا جنون، ہمارا قومی خاصہ نظر آتا ہے۔
کسی بھی فریق نے بدتمیزی کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ وہ ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک انتہائی معتبر عہدے کی بے عزتی کر رہا ہے؟ صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، فوج کے اعلیٰ افسران، سول بیوروکریسی کے دُم دار مہرے، تمام اس بے معنی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ نتیجہ صرف یہ نکلا، کہ عوام کی نظر میں ہمارے ملک کا ہر معزز عہدہ ذلت کا نشان بن گیا۔ ہم میں سے کسی فریق نے یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کی، کہ مستقبل میں وہ خود اس عہدہ پر براجماں ہونگے۔
الیکشن کے دوران سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے متعلق ایسی زبان استعمال کرنے کا رواج ڈال دیا، جس سے جذباتیت کو تو ہوا ملتی ہی تھی، مگر وہ ہمارے معاشرے کی ایک روّش بن گئی۔ یہ بگاڑ اب کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ لوگوں کی نظر میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو بے توقیر کر دیا ہے۔ یقین جانیے! اب کسی سیاسی فریق کی کوئی عزت نہیں ہے۔ تعریف کے پُل اب صرف وہ درباری باندھتے ہیں جن کے مالی مفاد دربار سے وابستہ ہیں۔ مجھے اب تمام راستے بند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دروازے مقفل ہو چکے ہیں۔ چوب داروں کے رنگ اڑ چکے ہیں۔ پتھر کا بنایا ہوا مضبوط قلعہ مجھے تو اب محض پانی کے بلبلہ کی مانند لگ رہا ہے۔
جس کے آگے حد کھڑی ہے راستہ مسدود ہے
اس بلا کے شہر میں وہ شہر بھی موجود ہے
جس کی حسرت میں بِتا دی عمر ساری اے منیرؔ
منتظر شاہد کا نقش تازہ مشہور ہے
جمہوریت محض الیکشن کا نام نہیں! جمہوریت صرف ایک خاص طریقہ کار سے محض چند ووٹ لینے کا نام نہیں! یہ تو ایک شخصی اور حکومتی رویہ ہے۔ یہ لوگوں کو تکلیف پہچانے یا اختلاف رائے پر انھیں نیست و نابود کرنے کا لائنس نہیں بلکہ یہ اپنے سیاسی حریفوں کو اپنے کردار اور عمل کی وقعت سے زیر کرنے کا نام ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کے بے جان لاشے میں بلند کردار اور اعلیٰ روایات کی روح دالنے والا کوئی لیڈر نہیں۔ مجھے اپنے ملک سے عشق ہے مگر میں اپنی اس اجتماعی بدقسمتی سے پیچھا نہیں چھڑوا پاتا۔
سوڈان میں عمر حسین اَل بشیر کی1989ء سے مسلسل حکومت ہے۔ وہ اپنے ملک میں باقاعدگی سے الیکشن کرواتا ہے۔ مگر اس کی شرط بالکل سادہ سی ہے کہ الیکشن میں اس کی مخالفت صرف برائے نام ہو گی۔ وہ اپنی کسی سیاسی مخالف پارٹی کے پیر زمین پر لگنے ہی نہیں دیتا۔ اُسکی سیاسی پارٹی کا نام "نیشنل کانگریس" ہے۔ دراصل یہ سیاسی پارٹی ان طفیلی لوگوں پر مشتمل ہے جو اس کے دستر خوان کے خوشہ چین ہیں۔ بشیر اپنے آپ کو سوڈان کا حقیقی قائد جتلاتا ہے۔
وہ سارا دن لوگوں کو باور کرواتا ہے کہ اس نے کتنے خلوص اور دیانت داری سے ملک کی بے مثال خدمت کی ہے۔ اسے ایک جنون ہے کہ وہ اپنے ملک میں عظیم الشان ترقیاتی منصوبے تعمیر کرے۔ بشیر نے میرووی ڈیم (Merowe Dam) بنایا۔ اس ڈیم کی جگہ کے غلط انتخاب کی بدولت پچاس ہزار کسانوں کی ذرخیز زمین برباد ہو گئی۔ بشیر نے ان غریب کسانوں سے نایاب انصاف کیا۔ جس کسان کی جتنی زمین ڈیم کی نذر ہوئی تھی، اسکو اتنی ہی زمین صحرا میں الاٹ کر دی گئی۔
غربت اور بھوک کی بدولت ان کسانوں میں سے اکثر زندگی کی بازی ہار گئے۔ پھر اس نے روسیرز ڈیم (Roseires Dam) کو بلند کرنا شروع کر دیا۔ اعلان کر دیا کہ یہ ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اشد ضروری ہے۔ اس عظیم منصوبہ میں ہر چیز ٹھیک تھی فقط اس اَمر کے، کہ یہ تمام کام اس نے ایک ایسی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا جو اسے بھر پور کمیشن ادا کر سکے۔ بشیر کے مطابق وہ اپنے ملک کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔ وہ لوگوں کو قائل کرتا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے میں سے سولہ گھنٹے کام کرتا ہے۔
اس کے بنائے ہوئے ترقیاتی منصوبوں اور ہمارے ملک کے منصوبوں میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ اس نے دریائے نیل پر پانچ نئے پُل بنائے ہیں۔ اس کے اعلان کے مطابق اس نے اپنے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے۔ پانی کی فراہمی کے لیے بے شمار نئی پائپ لائنز بچھائی ہیں۔ اس نے دو غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ ملکر سوڈان میں گاڑیاں اور ہوائی جہاز بنانے کی فیکٹریاں بھی لگا دی ہیں۔
یہاں ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کیا گیا ہے۔ اس نے سوڈان کے جنوبی حصوں میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ایک امن معاہدہ بھی کیا ہے۔ سننے اور دیکھنے میں یہ تمام کارنامے بے مثال نظر آتے ہیں مگر وہ ان تمام تجارتی منصوبوں میں حصہ دار بن چکا ہے۔ اس نے سوڈان میں کرپشن سے کمائے گئے نو ارب امریکی ڈالر پوری دنیا کے محفوظ ترین بینکوں اور مالیاتی اداروں میں انتہائی حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔
عمر ال بشیر ایک مالیاتی مجرم ہی نہیں۔ اس نے دارفر میں اپنی فوج سے لاکھوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام بھی کروایا ہے۔ جنگی جرائم کی بدولت بین الاقوامی انصاف کی عدالت کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔ مگر عمر ال بشیر نہایت مطمئن ہے۔ اس کے نو بلین ڈالر یورپ کے محفوظ بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالف پر صرف ایک مہربانی کرتا ہے کہ وہ اسے کسی بھی طریقے سے قتل کروا ڈالتا ہے۔ وہ اپنے آپکو سوڈان کا نجات دہندہ کہتا ہے۔ اب اس نے اپنے آپکو "فیلڈ مارشل" کا خطاب بھی دے ڈالا ہے۔
آپ تھوڑی دیر کے لیے سوڈان اور عمر اَل بشیر کا لفظ ذہن سے نکال دیجیے۔ آپ ہمارے ملک کے بڑے سیاسی خاندان اور مقتدر حلقے پر غور کیجیے۔ آپکو ان لوگوں اور عمر اَل بشیر میں بے انتہا مماثلت محسوس ہوگی۔ کئی بار تو آپکو صرف نام تبدیل کرنے کی زحمت گوارا کرنی پڑے گی۔ ہم ایک انتہائی مضبوط اور طاقتور ملک کی حیثیت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے تھے۔ ہم نے اپنے خلاف خود سازشیں کر کر کے اپنے ملک کو بے توقیر کر ڈالا ہے۔ ہم سات دہائیوں سے صحرا کے سفر سے آبلا پا ہو کر آج بھی صرف اور صرف بے مقصد سفر کرنے میں مشغول ہیں۔ نعرے، دعوے، تقریریں اور مباحثیں، یہ ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔
ہمارے مستقبل کی جھلک کل رات ٹی وی پر بار بار دکھائی گئی ہے۔ ٹی وی پر ایک رپورٹر نے چھ سات ماہ کا ایک ننگا بچہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا! وہ بچہ گولیوں اور آنسو گیس کی شیلنگ سے گھبرا کر منجمد ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں تھے! صرف اس کی پھٹی ہوئی معصوم خوف زدہ آنکھیں ٹی وی اسکرین پر ایک پیغام دے رہی تھیں، یہ ہے اصل پاکستان اور یہ ہے میرا شاندار مستقبل!