تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ہر حساس بحران کے موقع پر یہ ثابت ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔۔۔۔

muqtidakhan@hotmail.com

KARACHI:
اسلام آباد میں جاری بحران کے حوالے سے ایک نیا تنازع شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے فوج سے سہولت کاری کے لیے استدعا کی، جس کی تصدیق ISPR کے DG کی ٹوئیٹ سے ہوگئی۔ لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس بیان کی صحت سے انکار کر رہے ہیں۔ اب کون درست ہے اور کون غلط، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

جب کہ آرمی چیف نے ثالثی کے لیے حکومتی استدعا قبول کرتے ہوئے فریقین سے رابطے تیز کر دیے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کو دھرنا شروع ہونے کے دن ہی سے یہ اندازہ تھا کہ اس بحران کے خاتمے میں کسی نہ کسی شکل میں فوج کو کردار ادا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا جو کچھ ہوا یا ہونے جا رہا ہے، وہ خلاف توقع نہیں ہے۔ البتہ اس فیصلے کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جو پیش رفت سامنے آئی ہے، وہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور سیاسی جماعتوں کے کردار کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کی متقاضی ہے۔

اول، ہر حساس بحران کے موقع پر یہ ثابت ہوا کہ سیاسی جماعتوں میں بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ان میں سیاسی عزم و حوصلہ کی کمی انھیں بروقت اور بامقصد فیصلے کرنے سے روکتی ہے جس کے مظاہر اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جیسے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے یا تو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی حکمت عملیوں کو سمجھنے میں غلطی کی یا پھر حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے اسے مسئلے کی نزاکتوں اور اس کے متوقع نتائج کو سمجھنے نہیں دیا۔

اصل صورتحال یہ ہے کہ نہ تو مظاہرین کے تمام مطالبات ناجائز ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کا موقف مکمل طور پر غیر منطقی ہے۔ اگر اس مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے کوئی بروقت فیصلہ کر لیا جاتا، تو حالات اس نہج تک نہیں پہنچ پاتے جہاں غلط حکمت عملیوں کے باعث جا پہنچے ہیں لیکن ساتھ ہی فریقین نے بھی ایک دوسرے پر عدم اعتماد کرتے ہوئے بے لچک رویے کا مظاہرہ کیا۔

دوسری طرف حکومت کو یہ گمان تھا کہ وہ مظاہرین کو تھکا کر واپسی پر مجبور کر دے گی، جو اس کی بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔ مگر جب پانی سر سے بلند ہونا شروع ہوا تو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے الٹے سیدھے اقدامات شروع کر دیے۔ نتیجتاً انھیں وہی کرنا پڑا جو جمہوری اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اگر 17 جون کے سانحے کے بعد میاں شہباز شریف ازخود استعفیٰ دے دیتے یا بڑے میاں صاحب انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیتے، تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا لیکن تکبر، گھمنڈ اور خود پرستی کے گھوڑے پر سوار میاں صاحبان اور ان کے قریبی رفقا کچھ سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں تھے۔

اسی طرح کئی سمجھ دار، دور اندیش اور جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے خواہشمند حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے میاں صاحبان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اکیلے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ قائم نہ کیا جائے لیکن انھوں نے سنجیدہ حلقوں کی رائے پر توجہ دینے کے بجائے اسلام آباد کے ان اینکروں کے مشورے کو اہمیت دی جنھیں پرویز مشرف کے ساتھ بوجہ ذاتی بغض و عناد ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ خواجگان کو فوج اور فوجی قیادتوں پر برسنے اور ان کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی۔ ساتھ ہی پرویز رشید بڑے زعم کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کی حکومت غلیل نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ آج میاں صاحب جس طرح روز آرمی چیف سے ملاقات کرتے ہیں اور انھیں ہر تقریب میں مدعو کرتے ہیں، بالکل اسی طرح بھٹو مرحوم نے بھی اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق مرحوم کو کابینہ کی ہر میٹنگ میں بلاتے اور مختلف تقاریب میں ساتھ لے کر جاتے۔ گو کہ اپنی دانست میں انھوں نے دانشمندی کا ثبوت دیا تھا، لیکن جب فوج نے انھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس قسم کی کوئی تدبیر کام نہ آسکی۔


اب جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے تو انھوں نے مذاکرات میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو سیاسی اور اخلاقی طور پر انتہائی کمزور کر لیا ہے۔ اس لیے موجودہ فیصلوں کے بعد اگر وہ اقتدار میں موجود بھی رہتے ہیں تو ایک انتہائی کمزور وزیر اعظم کے طور پر مسند اقتدار پر فائز تو رہ سکیں گے، لیکن خارجہ اور مالیاتی امور میں بااختیاریت کے ساتھ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، جس کا نقصان جمہوریت اور سیاسی عمل کو پہنچے گا۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ ایک طرف ملک سنگین قسم کے معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے، جب کہ دوسری طرف ملک میں قومیتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تقسیم مسلسل گہری ہو رہی ہے۔ پھر Have اور Have not کا فرق بھی بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال نے پورے معاشرے کو اس حد تک انتہائی زد پذیر (Fragile) بنا دیا ہے کہ کسی بھی وقت معمولی سے دھچکے سے بکھر سکتا ہے۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حالیہ تند و تیز ہوائیں ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے کے لیے رک جائیں، لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ موجودہ صورتحال کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے، جس سے بچنے کی پیش بندی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مگر اس پر توجہ دینے کے بجائے وقتی لیپا پوتی سے کام لیا جا رہا ہے۔ بار بار عرض کیا تھا کہ 14 اگست سے شروع ہونے والے تماشے کی جڑیں ماضی کی غلطیوں کے ساتھ موجودہ حکومت کی سال بھر کی غیر ذمے دارانہ روش اور طرزِ عمل میں پیوست ہیں۔

اس بحران نے ریاست میں پائے جانے والے تضادات کو واضح کرنے کے علاوہ اہل حکم سے اہل قلم تک بہت سوں کی اصلیت بھی خاصی حد تک واضح کر دی ہے۔ لہٰذا وہ بحران جو اپنے دامن میں ان گنت پیچیدہ اور کئی دہائیوں سے الجھے مسائل کا انبار لیے ہوئے تھا، اتنا سادہ نہیں تھا کہ چند سیاستدانوں کے نیم دلی سے کیے گئے اقدامات، اہل دانش کی لاف گزاف اور گزشتہ ایک دہائی کے دوران جنم لینے والی نئی مخلوق (جو اینکرز کہلاتی ہے) کی پیش گوئیوں سے کسی منطقی انجام تک پہنچ جائے۔ بقول شاعر:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

آخر میں یہاں افلاطون کا یہ قول دہرانے پر مجبور ہیں کہ اقتدار کبھی فوج اور تاجروں کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ ان دونوں طبقات کے فکری طور پر غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے ان کا سیاسی وژن محدود ہوتا ہے، جو ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے بجائے انھیں مزید دھنسا دیتے ہیں مگر پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ 32 برس فوج اقتدار میں رہی اور اب ایک تاجر حکمران ہے اس لیے بہتری کی کس طرح امید کی جائے۔

اس کے علاوہ دونوں طبقات اقتدار و اختیار کے ارتکاز پر یقین رکھتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو منصوبہ بندی میں حصہ نہیں مل پاتا جب کہ آج کی دنیا اقتدار و اختیار کی معاشرے کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کی طرف بڑھ رہی ہے اس لیے حالیہ بحران سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ سمیت ریاست کے مختلف اداروں کو سیاسی امور میں الجھانے کے بجائے سیاسی معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔

مسائل کی گرداب سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ پارلیمان الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کرے۔ حکومت اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک فوری منتقلی کے لیے ٹھوس اور قابل عمل اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ زرعی اصلاحات کی جائیں اور عدالتی نظام کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے تا کہ عوام کو فوری اور بروقت انصاف مل سکے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سیاسی عمل کے تسلسل اور جمہوری نظم حکمرانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
Load Next Story