پاکستان ہاتھ باندھے کھڑا رہے
بھارت نے بد اندیشی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے اور بداندیشوں کا کوئی علاج نہیں۔۔۔
ISLAMABAD:
وفاقی دارالحکومت میں چودہ تا تیس اگست تک جو مناظر دکھائے گئے ہیں، ایک دنیا اس پر ششدر ہے۔ اس جمہوری تماشے میں پاکستان کو کئی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سرکاری ماہرین معیشت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وطنِ عزیز کو آٹھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ وزارتِ خارجہ کہتی ہے کہ اس خلفشار کی وجہ سے دو غیر ملکی سربراہوں کو پاکستان کا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔
آئی ایم ایف کا ایک وفد دبئی کے بعد اسلام آباد آ رہا تھا، اسے بھی اپنے دورے پر خطِ تنسیخ پھیرنا پڑا۔ ان سترہ دنوں میں پاکستان کو خارجہ محاذ پر جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، یہ ہے کہ بھارت نے پاک بھارت خارجہ سیکریٹری لیول کے ہونے والے مذاکرات اچانک منسوخ کر دیے۔ اس منسوخی میں اسلام آباد کے دھرنوں کا کوئی قصور نہ تھا بلکہ اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی بد نیتی شامل تھی۔ اس کی وجہ بھی نہایت واہیات بتائی گئی ہے، پنجابی کے اس محاورے کے عین مطابق کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو؟
پاک بھارت خارجہ سیکریٹریوں (پاکستان کی طرف سے اعزاز احمد چوہدری اور بھارت کی طرف سے سجاتا سنگھ) کے یہ مذاکرات 25 اگست 2014ء کو ہونے تھے لیکن بھارتی وزیر اعظم مودی، بھارتی وزارتِ خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹری مذاکرات قطعی نہیں ہو سکتے۔ دنیا بھر کے ممالک، خصوصاً امریکا اور برطانیہ، پاکستان اور بھارت پر زور دیتے رہے ہیں کہ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان منقطع ہونے والے پاک بھارت خارجہ سیکریٹری مذاکرات کا ازسرِ نو انعقاد کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں نواز شریف اور بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دونوں ممالک پر یہ دبائو خاصا بڑھ گیا تھا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے اور اس کے بعض شکووں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم نے نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے خصوصی تقریبِ حلف برداری میں نہایت خوش دلی سے شرکت بھی کی۔
دہلی میں نریندر مودی سے ان کی وَن آن وَن ملاقات بھی ہوئی جسے عالمی سطح پر خوش آیند قرار دیا گیا لیکن کم لوگ ہی جانتے تھے کہ اس ملاقات کے باوصف بھارتی حکومت اور بھارت کے نئے وزیر اعظم کے دل میں پاکستان کے خلاف بغض ختم نہ ہوا تھا۔ اس کا فوری اور پہلا بڑا اظہار اس وقت ہوا جب 25 اگست کا سورج طلوع ہونے سے آٹھ دن قبل بھارت نے اعلان کیا کہ پاک بھارت خارجہ سیکریٹری مذاکرات منسوخ کیے جاتے ہیں۔
اس بدعہدی کے لیے بھارت نے بڑا ہی بودا بہانہ تراشا۔ ہوا یوں کہ اگست کے دوسرے ہفتے مقبوضہ کشمیر کے بعض حریت پسند لیڈروں، جن میں علی گیلانی، یاسین ملک اور شبیر شاہ نمایاں تھے، نے نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب عبدالباسط سے ملاقاتیں کیں۔ یہ کوئی نئی اور قابلِ اعتراض بات نہ تھی۔ اس سے قبل بھی کئی بار مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند لیڈرز نئی دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنرز سے ملتے رہے ہیں لیکن بھارت نے کبھی اعتراض نہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے بھارت کا دوبار دورہ کیا تو بھی کشمیری لیڈر پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے لیکن بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی پیشانی پر ناراضی اور اعتراض کے بَل نہ پڑے۔ ہاں البتہ وزیر اعظم نواز شریف 27 مئی کو جب نئی دہلی گئے تو انھوں نے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا، حالانکہ حریت پسند رہنما میاں صاحب سے ملنے کی خواہش لے کر دہلی آ چکے تھے۔ لیکن بعد ازاں میاں صاحب ہی کے نامزد کردہ ہائی کمشنر عبدالباسط صاحب کشمیری لیڈروں سے ملے۔ اسی پر بھارت ناراض ہوگیا۔
نریندر مودی اور ان کی وزیرِ خارجہ کی طرف سے ترنت اعلان کر دیا گیا کہ چونکہ عبدالباسط نے حریت رہنمائوں سے ملاقات کی ہے اور ہم نے اشارے دے رکھے تھے کہ اب حریت رہنمائوں سے پاکستانی ہائی کمیشن کا کوئی عہدیدار ملاقات نہیں کرے گا، اس لیے اب (سزا کے طور پر) پاکستان سے ہونے والے خارجہ سیکریٹری مذاکرات منسوخ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان تو حیرت زدہ رہ گیا۔
دنیا بھر کے سفارت کاروں، جنہوں نے ان متعینہ مذاکرات پر نظریں گاڑ رکھی تھیں، نے بھارت کے اس غیر متوقع اعلان پر افسوس کا اظہار کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کے دستِ راست متعصب ہندو وزراء نے مگر اس اعلان پر خوشی کے شادیانے بجائے ہیں۔
بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج، جو بی جے پی کی نہایت کٹر اور 'ہندو توا' پرست رکن ہے، نے کہا: ''پاکستان کو اسی طرح سزا دی جانی چاہیے۔'' لیکن افسوس کہ بھارت کی اس کہہ مکرنی اور عہد شکنی پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سخت ردِعمل کا کوئی اظہار کیا گیا نہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے منہ سے کوئی مذمتی بیان جاری ہو سکا۔ جناب محمد نواز شریف وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیرِ خارجہ بھی ہیں۔ نہیں معلوم کہ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک علیحدہ سے کسی شخص کو پاکستان کا وزیر خارجہ کیوں نہیں بنایا جا سکا۔
بھارت نے بد اندیشی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے اور بداندیشوں کا کوئی علاج نہیں۔ بھارتی فیصلے کے بعد اب عالمی سطح پر کوئی ملک پاکستان پر یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی خارجہ پالیسی کا یہ بنیادی عنصر ہے کہ بھارت کو ہر صورت راضی رکھا جائے لیکن بھارتی وزیر اعظم نے تعاون کے لیے بڑھے ہوئے پاکستانی ہاتھوں کو بدتمیزی سے جھٹک دیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعاون کرنے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ واہگہ بارڈر پر بھارت کی طرف سے آنے والا تجارتی سامان چوبیس گھنٹے جاری ہے، حالانکہ پاکستانی عوام اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاک بھارت تجارت کے معاملات میں بھارت کا پلڑا بھی بھاری ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعاون ہر شعبے میں جاری ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں بھارتی افواج کا ایک سپاہی، ستیشل یادیو، ایل او سی کو ''غلطی'' سے پار کرتے ہوئے پاکستانی افواج کے ہاتھ لگ گیا لیکن اسے کوئی گزند پہنچائے بغیر پاکستان نے عزت و احترام کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دیا۔
ستیشل یادیو نے بھارت پہنچتے ہی بھارتی خبر رساں ایجنسی، پریس ٹرسٹ آف انڈیا، کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ''پاکستان نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ مَیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستانی افواج مجھ سے اتنا اچھا سلوک بھی کر سکتی ہے۔ مجھے پاکستان سے کوئی شکوہ نہیں۔'' اس کے برعکس اسی حوالے سے بھارت کا پاکستان سے کیا رویہ ہے؟ اس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جس دن ستیشل یادیو کو بھارت کے حوالے کیا جا رہا تھا، اسی روز آزاد کشمیر کا ایک کسان (کالے خان) غلطی سے ایل او سی پار کر گیا۔ بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز (BSF) نے اسے فوراً گرفتار کرتے ہوئے اس کا بدن گولیوں سے بھون دیا۔
جب اس بدقسمت کی لاش گلنے لگی تو تین دن بعد اسے پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ ہجیرہ (آزاد کشمیر) کے ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ مَیں نے کالے خان کی لاش دیکھی، اسے نہایت قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں اور اس کا سینہ، پسلیاں اور سر کی ہڈیاں اڑا کر رکھ دی گئی تھیں۔ کیا ایسے سفاک ہمسائے سے ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے برابری کے اور مستحسن تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے؟
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایل او سی، خصوصاً سیالکوٹ محاذ پر بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستان کے جن نصف درجن شہریوں کو شہید کیا ہے، آیا پاکستان محض دوستی کی خاطر اس ظلم پر خاموش رہے اور بھارت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے؟ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ جولائی تا اگست 2014ء، کے دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف، ایل او سی پر 23 بار خلاف ورزیاں کی ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں چودہ تا تیس اگست تک جو مناظر دکھائے گئے ہیں، ایک دنیا اس پر ششدر ہے۔ اس جمہوری تماشے میں پاکستان کو کئی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سرکاری ماہرین معیشت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وطنِ عزیز کو آٹھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ وزارتِ خارجہ کہتی ہے کہ اس خلفشار کی وجہ سے دو غیر ملکی سربراہوں کو پاکستان کا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔
آئی ایم ایف کا ایک وفد دبئی کے بعد اسلام آباد آ رہا تھا، اسے بھی اپنے دورے پر خطِ تنسیخ پھیرنا پڑا۔ ان سترہ دنوں میں پاکستان کو خارجہ محاذ پر جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، یہ ہے کہ بھارت نے پاک بھارت خارجہ سیکریٹری لیول کے ہونے والے مذاکرات اچانک منسوخ کر دیے۔ اس منسوخی میں اسلام آباد کے دھرنوں کا کوئی قصور نہ تھا بلکہ اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی بد نیتی شامل تھی۔ اس کی وجہ بھی نہایت واہیات بتائی گئی ہے، پنجابی کے اس محاورے کے عین مطابق کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو؟
پاک بھارت خارجہ سیکریٹریوں (پاکستان کی طرف سے اعزاز احمد چوہدری اور بھارت کی طرف سے سجاتا سنگھ) کے یہ مذاکرات 25 اگست 2014ء کو ہونے تھے لیکن بھارتی وزیر اعظم مودی، بھارتی وزارتِ خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹری مذاکرات قطعی نہیں ہو سکتے۔ دنیا بھر کے ممالک، خصوصاً امریکا اور برطانیہ، پاکستان اور بھارت پر زور دیتے رہے ہیں کہ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان منقطع ہونے والے پاک بھارت خارجہ سیکریٹری مذاکرات کا ازسرِ نو انعقاد کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں نواز شریف اور بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دونوں ممالک پر یہ دبائو خاصا بڑھ گیا تھا۔ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے اور اس کے بعض شکووں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم نے نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے خصوصی تقریبِ حلف برداری میں نہایت خوش دلی سے شرکت بھی کی۔
دہلی میں نریندر مودی سے ان کی وَن آن وَن ملاقات بھی ہوئی جسے عالمی سطح پر خوش آیند قرار دیا گیا لیکن کم لوگ ہی جانتے تھے کہ اس ملاقات کے باوصف بھارتی حکومت اور بھارت کے نئے وزیر اعظم کے دل میں پاکستان کے خلاف بغض ختم نہ ہوا تھا۔ اس کا فوری اور پہلا بڑا اظہار اس وقت ہوا جب 25 اگست کا سورج طلوع ہونے سے آٹھ دن قبل بھارت نے اعلان کیا کہ پاک بھارت خارجہ سیکریٹری مذاکرات منسوخ کیے جاتے ہیں۔
اس بدعہدی کے لیے بھارت نے بڑا ہی بودا بہانہ تراشا۔ ہوا یوں کہ اگست کے دوسرے ہفتے مقبوضہ کشمیر کے بعض حریت پسند لیڈروں، جن میں علی گیلانی، یاسین ملک اور شبیر شاہ نمایاں تھے، نے نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب عبدالباسط سے ملاقاتیں کیں۔ یہ کوئی نئی اور قابلِ اعتراض بات نہ تھی۔ اس سے قبل بھی کئی بار مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند لیڈرز نئی دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنرز سے ملتے رہے ہیں لیکن بھارت نے کبھی اعتراض نہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے بھارت کا دوبار دورہ کیا تو بھی کشمیری لیڈر پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے لیکن بھارتی وزیر اعظم اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی پیشانی پر ناراضی اور اعتراض کے بَل نہ پڑے۔ ہاں البتہ وزیر اعظم نواز شریف 27 مئی کو جب نئی دہلی گئے تو انھوں نے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا، حالانکہ حریت پسند رہنما میاں صاحب سے ملنے کی خواہش لے کر دہلی آ چکے تھے۔ لیکن بعد ازاں میاں صاحب ہی کے نامزد کردہ ہائی کمشنر عبدالباسط صاحب کشمیری لیڈروں سے ملے۔ اسی پر بھارت ناراض ہوگیا۔
نریندر مودی اور ان کی وزیرِ خارجہ کی طرف سے ترنت اعلان کر دیا گیا کہ چونکہ عبدالباسط نے حریت رہنمائوں سے ملاقات کی ہے اور ہم نے اشارے دے رکھے تھے کہ اب حریت رہنمائوں سے پاکستانی ہائی کمیشن کا کوئی عہدیدار ملاقات نہیں کرے گا، اس لیے اب (سزا کے طور پر) پاکستان سے ہونے والے خارجہ سیکریٹری مذاکرات منسوخ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان تو حیرت زدہ رہ گیا۔
دنیا بھر کے سفارت کاروں، جنہوں نے ان متعینہ مذاکرات پر نظریں گاڑ رکھی تھیں، نے بھارت کے اس غیر متوقع اعلان پر افسوس کا اظہار کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کے دستِ راست متعصب ہندو وزراء نے مگر اس اعلان پر خوشی کے شادیانے بجائے ہیں۔
بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج، جو بی جے پی کی نہایت کٹر اور 'ہندو توا' پرست رکن ہے، نے کہا: ''پاکستان کو اسی طرح سزا دی جانی چاہیے۔'' لیکن افسوس کہ بھارت کی اس کہہ مکرنی اور عہد شکنی پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سخت ردِعمل کا کوئی اظہار کیا گیا نہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے منہ سے کوئی مذمتی بیان جاری ہو سکا۔ جناب محمد نواز شریف وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیرِ خارجہ بھی ہیں۔ نہیں معلوم کہ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک علیحدہ سے کسی شخص کو پاکستان کا وزیر خارجہ کیوں نہیں بنایا جا سکا۔
بھارت نے بد اندیشی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے اور بداندیشوں کا کوئی علاج نہیں۔ بھارتی فیصلے کے بعد اب عالمی سطح پر کوئی ملک پاکستان پر یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی خارجہ پالیسی کا یہ بنیادی عنصر ہے کہ بھارت کو ہر صورت راضی رکھا جائے لیکن بھارتی وزیر اعظم نے تعاون کے لیے بڑھے ہوئے پاکستانی ہاتھوں کو بدتمیزی سے جھٹک دیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعاون کرنے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ واہگہ بارڈر پر بھارت کی طرف سے آنے والا تجارتی سامان چوبیس گھنٹے جاری ہے، حالانکہ پاکستانی عوام اس اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاک بھارت تجارت کے معاملات میں بھارت کا پلڑا بھی بھاری ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعاون ہر شعبے میں جاری ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں بھارتی افواج کا ایک سپاہی، ستیشل یادیو، ایل او سی کو ''غلطی'' سے پار کرتے ہوئے پاکستانی افواج کے ہاتھ لگ گیا لیکن اسے کوئی گزند پہنچائے بغیر پاکستان نے عزت و احترام کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دیا۔
ستیشل یادیو نے بھارت پہنچتے ہی بھارتی خبر رساں ایجنسی، پریس ٹرسٹ آف انڈیا، کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ''پاکستان نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ مَیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستانی افواج مجھ سے اتنا اچھا سلوک بھی کر سکتی ہے۔ مجھے پاکستان سے کوئی شکوہ نہیں۔'' اس کے برعکس اسی حوالے سے بھارت کا پاکستان سے کیا رویہ ہے؟ اس کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جس دن ستیشل یادیو کو بھارت کے حوالے کیا جا رہا تھا، اسی روز آزاد کشمیر کا ایک کسان (کالے خان) غلطی سے ایل او سی پار کر گیا۔ بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز (BSF) نے اسے فوراً گرفتار کرتے ہوئے اس کا بدن گولیوں سے بھون دیا۔
جب اس بدقسمت کی لاش گلنے لگی تو تین دن بعد اسے پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ ہجیرہ (آزاد کشمیر) کے ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ مَیں نے کالے خان کی لاش دیکھی، اسے نہایت قریب سے گولیاں ماری گئی تھیں اور اس کا سینہ، پسلیاں اور سر کی ہڈیاں اڑا کر رکھ دی گئی تھیں۔ کیا ایسے سفاک ہمسائے سے ہم یہ توقع رکھیں کہ وہ پاکستان اور اہلِ پاکستان سے برابری کے اور مستحسن تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے؟
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایل او سی، خصوصاً سیالکوٹ محاذ پر بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستان کے جن نصف درجن شہریوں کو شہید کیا ہے، آیا پاکستان محض دوستی کی خاطر اس ظلم پر خاموش رہے اور بھارت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے؟ یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ جولائی تا اگست 2014ء، کے دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف، ایل او سی پر 23 بار خلاف ورزیاں کی ہیں۔