گر مجھے اس کا یقیں ہو
کوئی کچھ بھی کہے مگر اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ انسان کو اداسی کی کیفیت سے صرف محبت نکال سکتی ہے۔
QUETTA:
انسان جب رزم گاہ زندگی میں زخمی ہوکر گر جاتا ہے، جب وہ ٹوٹ کر بکھرنے لگتا ہے، جب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا وجود وقت کی مٹھی میں اس ریت کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ انگلیوں سے بہی جا رہی ہے، جب وہ اپنی شکست کا احساس شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے، جب اسے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ وہ یہ جنگ اگر لڑے بھی تب بھی ہار جائے گا، جب اس کے آس پاس موجود سارے لوگ اسے مفاد پرست اور ظالم محسوس ہوتے ہیں، جب اسے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں تنہا ہے اور برف کی طرح پگھل رہا ہے قطرہ قطرہ!! تب اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور وہ اپنے سینے میں ڈوبے ہوئے دل کو اپنی شکستہ ہمت کا سہارا دے کر اس دنیا سے دور جانا چاہتا ہے۔
وہ کبھی فطرت کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی انجان لوگوں کی بھیڑ میں خود کو چھپا لیتا ہے۔ کبھی اس کے دل میں آتا ہے وہ اس دنیا پر سخت تشدد کرے اور کبھی وہ سوچتا ہے کہ وہ خودکشی کرلے۔ ایسی کیفیت صرف افراد پر نہیں بلکہ اقوام پر بھی آتی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے ایک مغربی ادیب نے لکھا ہے کہ ''کیا تم ایسا محسوس نہیں کر رہے کہ یہ دنیا ایک مگرمچھ کی طرح ہے اور تم اس کے منہ میں چلے گئے ہو''۔
انسان ایسی کیفیات میں ہمیشہ مایوسی کی طرف جاتا ہے اور اس شدید ترین مایوسی کی کیفیت ایک ایسا امکان کا روپ بن جاتی ہے جو انسان کو ڈبو بھی سکتی اور اسے بہت اوپر بھی لے جا سکتی ہے۔ جب انسان اپنے دل کی مایوسی میں ڈوبنے لگتا ہے، تب ادب تخلیق ہوتا ہے۔ انسان کی اس کیفیت کے بارے میں صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ مشرق میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور خاص طور ہمارے عوامی شاعروں اور صوفیائے کرام نے تو ایسا کچھ لکھا ہے جسے سن کر یا پڑھ کر انسان ایک الگ دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
وہ دنیا جس میں گھٹن نہیں ہوتی، جس میں انسان کو سانس لینے میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ وہ دنیا جو انسان کو اپنے آپ میں بھنور کی طرح نہیں سماتی بلکہ اسے پنکھ یتی ہے اوپر اڑنے کے لیے۔ اس آسمان میں جانے کے لیے جہاں سے دھرتی کا منظر کچھ اور ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک ماہر نفسیات ڈپریشن میں پڑے فرد کو انسپائر کرتے ہوئے اسے ڈپریشن سے اوپر اٹھاتا ہے اسی طرح ادیب اور خاص طور پر شعرا بھی اپنی قوموں کو مغموم کیفیت سے نکال کر اسے مسرت کی کیفیت سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی منفی کیفیت کی جگہ مثبت کیفیت سے آشنا کرتے ہیں۔ ایسی آشنائی کی ایک جھلک فیض احمد فیض کی اس نظم میں بھی ہے جس میں فیض صاحب نے اس دھرتی کے نوجوان نسل سے مخاطب ہوکر لکھا ہے کہ:
گر مجھے اس کا یقیں ہو، میرے ہمدم میرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ تیرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی میرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر تیرا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہوجائے
اس نظم کو پڑھتے ہوئے میرے دل میں فیض صاحب کے لیے جو عزت تھی وہ بھی محبت میں بدل گئی۔ میں حیران رہ گیا۔ کیوں کہ جب ہمیں اپنی نوجوان نسل کو مایوسی کی کیفیت سے نکالنا مقصود ہوتا ہے تب ہم اس کو اخلاقی حوالے سے ایسی نصیحت کرتے ہیں جس کو سن کو وہ زیادہ مایوس کیفیت میں الجھ جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
ہمیں فیض صاحب نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں سے ایسی باتیں کرنی چاہیے جنھیں سن کر اس کے لہو کی گردش تیز ہوجائے اور کوئی کچھ بھی کہے مگر اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایک حسین اور بلا کی پرکشش عورت کو دیکھنا ہر کوئی پسند کرے گا؟ مگر یہ فیض صاحب کی شاعری کا کمال ہے کہ انھوں نے ایک جسمانی کشش والی کیفیت کو ایسی فنکارانہ جمالیات میں لپیٹ کر پیش کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کو اچھا لگتا ہے لیکن اگر وہ کچھ دیر کے لیے اس کیفیت کے پاس رک جائے تو اس کو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ فیض صاحب زندگی کی بیحد گہری اور خوبصورت حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں، جب وہ کہہ رہے ہیں کہ:
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
تب وہ صرف اس بات کا انکشاف نہیں کرتے کہ ہر وہ عورت جو اپنے حسن پر ناز کرتی ہے وہ اپنے احساسات اور محبت کے ردعمل میں بہت ٹھنڈی ہوا کرتی ہے۔ مگر ایک سرد حسینہ کے جسم کو سفید برف سے تشبیہ دیتے ہوئے فیض صاحب کمال کردیتے ہیں اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ اس سے آگے بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ خوبصورت مگر منجمد جسم گرم ہاتھوں کی حرارت سے کس طرح پگھل جاتے ہیں؟ اس حقیقت سے ہر مرد اور عورت واقف ہے۔ مگر بات یہانتک ختم کرنے کے بجائے فیض صاحب اسے اور آگے بڑھاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بہ یک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
جب کوئی حسینہ محبت کی کیفیت میں مغلوب ہوجاتی ہے، جب اس پر پیار اور قربت کے احساسات غالب آجاتے ہیں تب اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔ فیض صاحب اس رنگ اور اس امنگ کی بات کر رہے ہیں جس میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ:
کس طرح گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
گل توڑنے والے ہاتھ کی طرف شاخ گلاب کا خود جھک جانا۔ کیا اس سے خوبصورت منظرنامہ ممکن ہوسکتا ہے اس محبت کا جو محبت انسان کو انسپائر کرتی ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے مگر اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ انسان کو اداسی کی کیفیت سے صرف محبت نکال سکتی ہے۔ وہ محبت جو ایک مرد عورت کو اور ایک عورت مرد کو دے سکتی ہے۔ جس طرح وہ شاخ گلاب کی طرح مرد کی طرف جھک سکتی ہے اور اس کی رات کا ایوان مہکا سکتی ہے۔
اس کیفیت سے کچھ ملتی جلتی کیفیت ہوا کرتی ہے اس عظیم لیڈر کی جو ایک شاعر کی طرح اپنی قوم کو انسپائر کرتا ہے اور اس سے اس طرح گفتگو کرتا ہے کہ مایوسی خود بخود مٹنے لگتی ہے اور دل کے خزاں زدہ شاخ پر خود بخود پھول کھلنے لگتے ہیں اور ایک دور کا موسم بدل کر دوسرے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں اس شخص کو یہ یقیں ہونا چاہیے کہ وہ یہ سب کچھ کرجائے گا۔ کیوں کہ بے یقینی تو بہت خطرناک چیز ہوا کرتی ہے ۔ مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو لیڈر ہوتا ہے اس کو اپنے الفاظ اور عوام کے مثبت ردعمل کا اس طرح یقین ہوتا ہے جس طرح ایک عاشق کو اپنے معشوق کے ردعمل کا یقین ہوا کرتا ہے۔
انسان جب رزم گاہ زندگی میں زخمی ہوکر گر جاتا ہے، جب وہ ٹوٹ کر بکھرنے لگتا ہے، جب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا وجود وقت کی مٹھی میں اس ریت کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ انگلیوں سے بہی جا رہی ہے، جب وہ اپنی شکست کا احساس شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے، جب اسے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ وہ یہ جنگ اگر لڑے بھی تب بھی ہار جائے گا، جب اس کے آس پاس موجود سارے لوگ اسے مفاد پرست اور ظالم محسوس ہوتے ہیں، جب اسے لگتا ہے کہ وہ اس دنیا میں تنہا ہے اور برف کی طرح پگھل رہا ہے قطرہ قطرہ!! تب اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور وہ اپنے سینے میں ڈوبے ہوئے دل کو اپنی شکستہ ہمت کا سہارا دے کر اس دنیا سے دور جانا چاہتا ہے۔
وہ کبھی فطرت کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی انجان لوگوں کی بھیڑ میں خود کو چھپا لیتا ہے۔ کبھی اس کے دل میں آتا ہے وہ اس دنیا پر سخت تشدد کرے اور کبھی وہ سوچتا ہے کہ وہ خودکشی کرلے۔ ایسی کیفیت صرف افراد پر نہیں بلکہ اقوام پر بھی آتی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے ایک مغربی ادیب نے لکھا ہے کہ ''کیا تم ایسا محسوس نہیں کر رہے کہ یہ دنیا ایک مگرمچھ کی طرح ہے اور تم اس کے منہ میں چلے گئے ہو''۔
انسان ایسی کیفیات میں ہمیشہ مایوسی کی طرف جاتا ہے اور اس شدید ترین مایوسی کی کیفیت ایک ایسا امکان کا روپ بن جاتی ہے جو انسان کو ڈبو بھی سکتی اور اسے بہت اوپر بھی لے جا سکتی ہے۔ جب انسان اپنے دل کی مایوسی میں ڈوبنے لگتا ہے، تب ادب تخلیق ہوتا ہے۔ انسان کی اس کیفیت کے بارے میں صرف مغرب میں ہی نہیں بلکہ مشرق میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور خاص طور ہمارے عوامی شاعروں اور صوفیائے کرام نے تو ایسا کچھ لکھا ہے جسے سن کر یا پڑھ کر انسان ایک الگ دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔
وہ دنیا جس میں گھٹن نہیں ہوتی، جس میں انسان کو سانس لینے میں تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ وہ دنیا جو انسان کو اپنے آپ میں بھنور کی طرح نہیں سماتی بلکہ اسے پنکھ یتی ہے اوپر اڑنے کے لیے۔ اس آسمان میں جانے کے لیے جہاں سے دھرتی کا منظر کچھ اور ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک ماہر نفسیات ڈپریشن میں پڑے فرد کو انسپائر کرتے ہوئے اسے ڈپریشن سے اوپر اٹھاتا ہے اسی طرح ادیب اور خاص طور پر شعرا بھی اپنی قوموں کو مغموم کیفیت سے نکال کر اسے مسرت کی کیفیت سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی منفی کیفیت کی جگہ مثبت کیفیت سے آشنا کرتے ہیں۔ ایسی آشنائی کی ایک جھلک فیض احمد فیض کی اس نظم میں بھی ہے جس میں فیض صاحب نے اس دھرتی کے نوجوان نسل سے مخاطب ہوکر لکھا ہے کہ:
گر مجھے اس کا یقیں ہو، میرے ہمدم میرے دوست
گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ تیرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی میرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے
جی اٹھے پھر تیرا اجڑا ہوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ہوجائے
اس نظم کو پڑھتے ہوئے میرے دل میں فیض صاحب کے لیے جو عزت تھی وہ بھی محبت میں بدل گئی۔ میں حیران رہ گیا۔ کیوں کہ جب ہمیں اپنی نوجوان نسل کو مایوسی کی کیفیت سے نکالنا مقصود ہوتا ہے تب ہم اس کو اخلاقی حوالے سے ایسی نصیحت کرتے ہیں جس کو سن کو وہ زیادہ مایوس کیفیت میں الجھ جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
ہمیں فیض صاحب نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں سے ایسی باتیں کرنی چاہیے جنھیں سن کر اس کے لہو کی گردش تیز ہوجائے اور کوئی کچھ بھی کہے مگر اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایک حسین اور بلا کی پرکشش عورت کو دیکھنا ہر کوئی پسند کرے گا؟ مگر یہ فیض صاحب کی شاعری کا کمال ہے کہ انھوں نے ایک جسمانی کشش والی کیفیت کو ایسی فنکارانہ جمالیات میں لپیٹ کر پیش کیا ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کو اچھا لگتا ہے لیکن اگر وہ کچھ دیر کے لیے اس کیفیت کے پاس رک جائے تو اس کو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ فیض صاحب زندگی کی بیحد گہری اور خوبصورت حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں، جب وہ کہہ رہے ہیں کہ:
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ہیں
تب وہ صرف اس بات کا انکشاف نہیں کرتے کہ ہر وہ عورت جو اپنے حسن پر ناز کرتی ہے وہ اپنے احساسات اور محبت کے ردعمل میں بہت ٹھنڈی ہوا کرتی ہے۔ مگر ایک سرد حسینہ کے جسم کو سفید برف سے تشبیہ دیتے ہوئے فیض صاحب کمال کردیتے ہیں اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ اس سے آگے بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ خوبصورت مگر منجمد جسم گرم ہاتھوں کی حرارت سے کس طرح پگھل جاتے ہیں؟ اس حقیقت سے ہر مرد اور عورت واقف ہے۔ مگر بات یہانتک ختم کرنے کے بجائے فیض صاحب اسے اور آگے بڑھاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:
کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور
یک بہ یک بادہ احمر سے دہک جاتا ہے
جب کوئی حسینہ محبت کی کیفیت میں مغلوب ہوجاتی ہے، جب اس پر پیار اور قربت کے احساسات غالب آجاتے ہیں تب اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔ فیض صاحب اس رنگ اور اس امنگ کی بات کر رہے ہیں جس میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ:
کس طرح گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخ گلاب
گل توڑنے والے ہاتھ کی طرف شاخ گلاب کا خود جھک جانا۔ کیا اس سے خوبصورت منظرنامہ ممکن ہوسکتا ہے اس محبت کا جو محبت انسان کو انسپائر کرتی ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے مگر اس حقیقت سے انکار بہت مشکل ہے کہ انسان کو اداسی کی کیفیت سے صرف محبت نکال سکتی ہے۔ وہ محبت جو ایک مرد عورت کو اور ایک عورت مرد کو دے سکتی ہے۔ جس طرح وہ شاخ گلاب کی طرح مرد کی طرف جھک سکتی ہے اور اس کی رات کا ایوان مہکا سکتی ہے۔
اس کیفیت سے کچھ ملتی جلتی کیفیت ہوا کرتی ہے اس عظیم لیڈر کی جو ایک شاعر کی طرح اپنی قوم کو انسپائر کرتا ہے اور اس سے اس طرح گفتگو کرتا ہے کہ مایوسی خود بخود مٹنے لگتی ہے اور دل کے خزاں زدہ شاخ پر خود بخود پھول کھلنے لگتے ہیں اور ایک دور کا موسم بدل کر دوسرے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں اس شخص کو یہ یقیں ہونا چاہیے کہ وہ یہ سب کچھ کرجائے گا۔ کیوں کہ بے یقینی تو بہت خطرناک چیز ہوا کرتی ہے ۔ مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو لیڈر ہوتا ہے اس کو اپنے الفاظ اور عوام کے مثبت ردعمل کا اس طرح یقین ہوتا ہے جس طرح ایک عاشق کو اپنے معشوق کے ردعمل کا یقین ہوا کرتا ہے۔