فلسطین اقوام متحدہ اور امریکا

دنیا میں ہمیں ہر جگہ تضادات اور منافقت نظر آتی ہے۔۔۔


Shabbir Ahmed Arman September 01, 2014
[email protected]

یہ بات مصدقہ ہے کہ اقوام متحدہ، اسرائیل کے شکنجے میں ہے جبھی تو فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے باوجود اقوام متحدہ بے بس ہے۔ آئیے! اس عالمی ادارے کی نقاب کشی کرتے ہیں۔ 30 جولائی 2014 کو صیہونی فوج نے ٹینکوں کی مدد سے ایک اسکول میں قائم اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں پر شدید گولہ باری کی جس سے 17 فلسطینی شہید ہوگئے تھے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

اس واقعے پر اقوام متحدہ نے صرف زبانی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کا اپنا ذیلی ادارہ یونیسیف رپورٹ جاری کرچکا ہے کہ غزہ میں اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 300 سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں، 203 بچوں کی عمریں 12 سال سے کم ہیں، بچوں کی ہلاکت منظم نسل کشی ہے، اسرائیل نے دانستہ معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ اس پر بھی اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کی۔

6 اگست کو اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کے اسکول پر حملہ کیا جہاں ہزاروں فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے اس حملے میں 10 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ اس پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی بمباری انتہائی وحشیانہ، شرمناک، اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی اور مجرمانہ فعل ہے، اس پاگل پن کو روکنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ اس بیان کے سوا کچھ اور اقدام اسرائیل کے خلاف نہ کرسکا صرف ہلاکتوں کے اعدادوشمار بتاتا رہا۔

اسرائیل کے ایک حملے میں اقوام متحدہ کے عملے کے گیارہ افراد بھی ہلاک ہوگئے تھے لیکن اقوام متحدہ نے خاموشی اختیار کی رکھی۔ اور اقوام متحدہ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور پرچم سر نگوں کردیا گیا اور اس موقع پر بجائے اسرائیلی جارحیت کے حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے باہر سیکڑوں افراد نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت فوری طور پر بند کرائیں۔ لیکن اس پر بھی اس عالمی ادارے نے کان آنکھیں بند رکھیں۔

حماس کے جلاوطن رہنما خالد مشعل نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی سرزمین سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے نظام الاوقات طے کرے۔ اس پر بھی کان بند رکھیں۔ یہ اپیل بھی سابقہ بے شمار اپیلوں کی طرح بے اثر رہی۔ عرب ممالک کی درخواست پر اقوام متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی کا اجلاس بدھ 6 اگست کو نیویارک میں ہوا جس میں اعلیٰ اہلکار نے اس بحران پر ایک رپورٹ پیش کی اور رکن ممالک کے سفیروں کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکار نے بریفنگ دی۔

اس اجلاس میں کیا فیصلے ہوئے منظر عام پر نہ آسکے یہ بات عیاں ہے کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائی جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اردن کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا جاچکا ہے جس میں فوری جنگ بندی اور غزہ پٹی سے اسرائیل کے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم تاحال یہ مسودہ بحث و مباحثے کے لیے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کردار بھی مجروح ہے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کارروائی نہ کرنا اور عالمی برادری کی سردمہری بھی شدید الفاظ میں قابل مذمت ہے۔

دنیا میں ہمیں ہر جگہ تضادات اور منافقت نظر آتی ہے۔ تضاد اور نفاق کا یہ کھیل تو صدیوں سے جاری ہے مگر بالخصوص گذشتہ صدی سے، جن میں روشن خیالی، مساوات، انصاف اور امن کے نعرے مسلمہ اقدار کی صورت اختیار کرچکے ہیں، ان اقدار سے کھلا انحراف کسی فرد، قوم اور ادارے کے لیے ممکن نہیں، چنانچہ ایسا کرنے کے لیے مکاری اور عیاری پر مبنی منافقت کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کسی ملک کے حکم راں ہوں یا کسی ادارے کے مالکان، ان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ مذہب، رنگ، جنس اور نسل کی بنیاد پر کسی امتیاز اور مذہبی و نسلی منافرت پر یقین نہیں رکھتے مگر ان میں سے بہت سوں کا عمل اس قول کے برعکس ہوتا ہے۔

مظلومیت کی مثال بن جانے والی غزہ کی سرزمین نے اس تضاد اور منافقت کو نمایاں کر دیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ جو دنیا یہودیوں اور اسرائیل پر ذرا سی بھی تنقید کو نفرت اور تعصب کا نام دے کر ایسا کرنے والے کے پیچھے پڑ جاتی ہے وہ مسلمانوں خصوصاً اسرائیل کے ظلم کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں سے کس طرح تعصب برتتی ہے۔

اس رویے کا اظہار گزشتہ 50 دنوں کے دوران دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اور انسانی حقوق کے عالمی علمبردار امریکا نے کیا ایسے وقت میں جب اسرائیل غزہ میں درندگی کا بدترین مظاہرہ کر رہا تھا اور اسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے ہر روز درجنوں فلسطینی جن میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے اور خواتین شامل تھیں شہید ہو رہے تھے امریکا نے کھل کر ظالم اسرائیل کی حمایت کی اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو شاباشی دی۔

''امریکا اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا مکمل طور پر حامی ہے اور اسرائیل کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو میزائلوں کے خطرے سے محفوظ بنانے کے لیے اقدام کرے، کوئی بھی ملک ان حالات میں نہیں رہ سکتا اور امریکا مکمل طور پر اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، حماس غزہ کو کنٹرول کرتی ہے اور اس نے اسرائیل کے خلاف تباہ کن اور وحشت ناک رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔'' (امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا بی بی سی کو خصوصی انٹرویو، 6 اگست 2014)۔ امریکی اخبار والی اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکی محکمہ دفاع نے جولائی2014 کو اسرائیل کو ہتھیار فراہم کیے۔

علاوہ ازیں امریکا نے غزہ پر بمباری کے دوران اسرائیل کو مزید اسلحے کی فراہمی محفوظ بنانے کے لیے اپنے اسلحے سے لیس بحری جہاز بھی اسرائیل کے نزدیک سمندر میں پہنچادیا تھا۔ اسی طرح برطانوی اخبار ''دی انڈیپنڈنٹ'' نے خبر دی کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیار برطانوی ساختہ اجزا پر مشتمل ہیں، برطانوی حکومت نے 2010 سے لے کر اب تک اسلحہ ساز کمپنیوں کو 7 کروڑ ڈالر مالیت کے ایکسپورٹ لائسنس فراہم کیے ہیں اور تاکید کی ہے کہ یہ اسلحہ تیار کرکے اسرائیل کو فروخت کریں۔

اسی ظلم و بربریت کے خلاف دنیا کے انسان دوست لوگوں نے غزہ میں اسرائیلی بمباری اور ظلم و ستم کے خلاف بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے اور غزہ پر اسرائیلی بمباری روکنے کے مطالبات کیے تھے۔ اب جب کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین طویل المدتی جنگ بندی پر اتفاق ہوا ہے اور مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا ہے دیکھنا یہ ہے کہ فلسطین کو عالمی سطح پر انصاف ملتا ہے کہ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں