جسٹس ر دیدار حسین شاہ آخری حصہ
شاہ صاحب نے سید گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو لکھایا پڑھایا ہے ۔۔۔
اس کے علاوہ انھوں نے لاڑکانہ ضلع کے معتبر سیاست دانوں اور سماجی شخصیات کے بارے میں مختصراً بتایا ہے ان کی تحریر میں کسی بھی مخالفت کرنے والوں کے خلاف کچھ بھی نہیں ہے۔ کتاب میں سچ لکھ کر شاہ صاحب نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے اور صرف سیاسی اختلاف ہے۔
خاص طور پر ون یونٹ کی حمایت کرنے پر محمد ایوب کھوڑو پر تنقید کی ہے کہ اتنے اچھے کام کرنے کے بعد یہ ایک غلط حمایت کرنا وہ بھی ایک ایسے آدمی کے مشورہ پر جو اس کے ساتھ سچا نہیں تھا اور وہ تھے پیر علی محمد راشدی صاحب ۔ جب کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ مرحوم سید عبداﷲ شاہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ مرحوم اختر علی جی قاضی، سندھ کے سابق وزیر مرحوم عبدالوحید کٹپڑ، قاضی فضل اﷲ اور بہت سارے لوگوں کے بارے میں جن سے ان کی ملاقاتیں رہی ہیں ۔ ان کا لکھنا قابل قدر ہے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جب ممتاز علی بھٹو وقتی وزیر اعلیٰ سندھ بنے تو اس وقت کے ڈی سی لاڑکانہ عبدالقادر منگی اور بدر الدین اجن نے وزیر اعلیٰ کے غلط اقدامات پر عمل کرنے سے انکار کیا اور ٹرانسفر کردیے گئے۔
شاہ صاحب نے کتاب میں بیان کیا ہے کہ ان کے صاف اور شفاف کردار کی وجہ سے ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی آرمی کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب یہ حکم دیا گیا کہ المرتضیٰ ہائوس کو سیل کیا جائے تو اس وقت کے ڈی سی لاڑکانہ رحمت اﷲ قریشی نے ایک دم ہائوس سیل کردیا جس کی وجہ سے وہاں پر پرندے اور جانور بھی قید ہوگئے جو بھوک اور پیاس سے مرسکتے تھے جس کے لیے شاہ صاحب ایک درخواست لکھ کر انچارج فوجی افسر کے پاس گئے جس نے تحقیق کی اور بات کو صحیح مان کر انھیں اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دی ۔
افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پی پی پی میں جزا اور سزا کا کوئی سسٹم نہیں رہا ہے۔ سندھ میں اصلی رہنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ باہر سے آنے والوں کو ہوا ہے۔ سندھ کے لوگوں کو گہری نیند سے جاگنا ہوگا ۔ ورنہ آنے والے وقتوں میں انھیں Red Indians بننا ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ اچھے اور سچے لوگوں کو بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اس کتاب میں انھوں نے پیر صاحب پگارا مرحوم، عبدالغفور بھرگڑی، عبدالفتاح ملک، ادیب حسن رضوی، جسٹس (ر) بھگوان داس، غلام نبی مغل کے بارے میں بھی لکھا ہے ۔
''گوند رویا گناری'' میں جسٹس (ر) دیدار حسین کے لیے جن لوگوں نے اپنے تاثرات لکھے ہیں ان میں نثار احمد کھوڑو، عبدالرزاق سومرو، مہتاب اکبر راشدی، ڈاکٹر سلیمان شیخ، بدر الدین اجن، عبدالقادر منگی، مسلم شمیم، نذیر لغاری وغیرہ شامل ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی کتاب اپنے بھائی اور اپنی ماں سے منسوب کی ہے جن کا کردار شاہ صاحب کی پرورش اور تربیت میں اہم رہا ہے۔
اس کتاب میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، ممتاز علی بھٹو کی یادوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جس سے ایک تاریخ بنتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب میں سب کچھ سچ لکھا ہے اور کسی کو بھی Hurt نہیں کیا ، دلآزاری سے گریز کیا ہے ، جب کہ ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جنھوں نے اسے بڑی تکلیفیں پہنچائی ہیں۔
شاہ صاحب نے سید گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو لکھایا پڑھایا ہے اور انھیں نوکری کرنے کی اجازت دی، انھوں نے اپنی مسز کو بھی اجازت دی کہ وہ مہورت کے دن کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کریں جس کا ثبوت ان کی اہلیہ کے پر اعتماد لہجے میں تقریر کرنے سے ہوا۔ شاہ صاحب کی شخصیت دل کش ہے ، خوش فکر انسان ہیں ، کشادہ نظر ہیں، عورت کی آزادی کے لیے اپنے معاشرے میں انقلاب لائے۔ وہ غریبوں اور ضرورت مند لوگوں کے ہمیشہ کام آئے ہیں۔
انھوں نے ہمیشہ انصاف سے کام لیا ہے اور کبھی بھی کسی کی طرف داری نہیں کی اور اپنے منصب کا غلط استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے لوگوں کی طرف عزت پائی ہے۔ تقریر کرتے ہوئے ہر مقرر نے کہا کہ شاہ صاحب کا کردار بے داغ ہے۔ ان کا ضمیر صاف ہے انھوں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، کسی کو دھوکا نہیں دیا، ہر چھوٹے بڑے سے پیار کیا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے کتاب میں کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی، ان کی تحریر میں کوئی رعونت ، تکبر کا اظہار یا بڑھائی نہیں ہے ان کی اہلیہ کا بھی کہنا ہے کہ شاہ صاحب ایک اچھے شوہر ہیں وہ باپ اور بھائی بن کر اپنا فرض نبھاتے رہے ہیں ان کے پاس اگر کوئی کام کے لیے آتے ہیں تو وہ مایوس نہیں لوٹتے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے حلقے کے لوگ بلکہ پورے ضلع کے افراد ان سے محبت اور ان کی عزت کرتے ہیں۔
اس موقع پر معروف ادیب و شاعر مسلم شمیم نے مطالبہ کیا کہ سندھی کتابوں کو اردو اور انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرکے شایع کیا جائے۔ ایوب شیخ، محمد احمد شاہ، عبدالفتاح ملک اور بہت سارے مقررین کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کی شخصیت ایک سیکھنے کی درس گاہ ہے جس سے نوجوان نسل کو فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ ان کا کام ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جس سے ہم اپنی ثقافت اور تعلیم کو محفوظ بناسکتے ہیں، دیدار شاہ نے ظلم، نا انصافی، جہالت، غربت اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اسے باقی لوگ ملکر مضبوط کریں اور آگے بڑھائیں تاکہ سندھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
میں آخر میں سب اہم برگزیدہ سیاسی ، عدالتی و ادبی شخصیات سے گزارش کروںگا کہ وہ بھی اپنی یاد داشت لکھیں تاکہ آنے والی نسلوں کو تاریخ کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ سچ سامنے آئے اور شکوک و شبہات ختم ہوجائیں ۔