میرے وطن کی سیاست
اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو معرض وجود میں آئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔۔۔
گزشتہ ہفتے جب وطن عزیز دارالخلافہ اسلام آباد میں حکومت مخالف احتجاجی دھرنوں کے ہیجان میں مبتلا تھا، عالمی یوم انسانیت World Humanitarian Dayانتہائی دلسوزی کے ساتھ نہایت باوقار انداز میں بنایا گیا۔ یہ دن اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی کا مظہر تھا کہ دنیا اب نہ گوشہ عاقبت رہی ہے اور نہ امن وسکون کا گہوارہ۔ انسانی قدریں تیزی کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں اور ہر طرف قیامت خیز نفسانفسی کا عالم ہے۔ دو تباہ کن عالمگیر جنگوں کا حشر دیکھنے کے باوجود عالمی قوتوں پر آج بھی جنگی جنون طاری ہے اور کیفیت یہ ہے کہ
ایٹم بموں کے زور پہ اینٹھی ہے یہ دنیا
بارود کے اک ڈھیر پہ بیٹھی ہے یہ دنیا
وطن عزیز کی ابھرتی ہوئی ہونہار انگریزی زبان کی شاعرہ سیدہ رومانہ مہدی نے دنیا کی موجودہ صورتحال کا ایک ہلکا سا نقشہ اپنی خوبصورت نظم Forgiveness: The key to a peaceful society میں ان الفاظ میں کھینچا ہے:
Today, man has lost his way,
His past is burnt up in flames of anguish,
The present is rollen and the future continues to decay
Be it Pakistan, Afghanistan or Syria
Everywhere he looks, there is gloom, terror or hysteria
سوال یہ ہے کہ مایوسی، دہشت گردی ، وحشتوں اور غم واندوہ کی ماری دنیا میں اس تشویشناک صورتحال کا بنیادی سبب کیا ہے، تو اس کا جواب رومانہ نے نہایت سادگی کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
The answer is simple. We lack tolerance for each other
رومانہ کی انگریزی نظموں کے خوبصورت مجموعے Lilies, Gun Powder and Dreams میں شامل دیگر نظمیں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
گزشتہ چند سال کے عرصے میں دنیا کے حالات میں اتنی تیزی سے بگاڑ آیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ناگزیر ہوگئی ہے۔ ایک طرف سیلابوں، زلزلوں اور قحط سالی جیسی ناگہانی آفات کی صورت میں ہنگامی حالات درپیش ہیں تو دوسری طرف فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی شکل میں خود انسانوں کے پیدا کیے ہوئے پے درپے بحرانوں کا سامنا ہے۔دوسروں کی بات چھوڑیے خود ہمارا پیارا پاکستان ایک طویل عرصے سے بحران در بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ ان بحرانوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر اور حیران و پریشان اس ملک کا عام شہری ہے جس کی زندگی نامساعد حالات کی وجہ سے اجیرن ہوگئی ہے۔ ہر آنے والا دن اس کے لیے مزید پریشانیاں اور مصائب لے کر آتا ہے۔
کوئی ادارہ ایسا باقی نہیں بچا جو تنزلی، بدانتظامی، بددیانتی اور انحطاط کا شکار نہ ہو۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پیلے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ طلبہ ملک و قوم کا نام روشن کیا کرتے تھے۔ کیسے کیسے بڑے بڑے وکلا، جج، ڈاکٹرز، انجینئرز، اسکالرز اور سائنس داں ان ہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ کیسے کیسے نام ور کھلاڑی ان ہی سرکاری تعلیمی اداروں سے ابھر کر کھیلوں کی دنیا پر چھا گئے۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سرکاری اسپتالوں کا معیار بھی بلند اور لائق تحسین ہوا کرتا تھا جہاں غریب غربا ہی نہیں متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی علاج معالجے کی تمام مطلوبہ سہولتیں بھی باآسانی دستیاب ہوا کرتی تھیں اور اسپتال کے عملے کا سلوک اور رویہ بھی بڑا ہمدردانہ اور ذمے دارانہ ہوا کرتا تھا۔
لیکن پھر ایک ایسی لہر آئی جو ہر ادارے کو اپنے ساتھ بہاکر لے گئی اور رفتہ رفتہ تمام ادارے بدحالی اور بدعنوانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور لوٹ مار اور کرپشن نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ افسوس کہ تباہی اور بربادی کا یہ طوفانی ریلا بعض ایسے اہم اداروں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا جن کی غیر جانب داری اور دیانت داری کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کی اساس ہوتی ہے۔ حالات کا یہ لاوہ عرصہ دراز تک اندر ہی اندر پکتا رہا تاآنکہ وہ دن آگیا کہ یہ 14 اگست کے تاریخی دن دارالخلافہ اسلام آباد میں دھرنوں کی صورت میں پھٹ پڑا۔
ہم خود کو بڑا خوش نصیب بھی سمجھتے ہیں اور انتہائی بدنصیب بھی۔ خوش نصیب اس لحاظ سے کہ ہم نے اس مملکت خداداد کو اپنی آنکھوں سے بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ وطن عزیز ہمیں بے شمار اور ناقابل بیان قربانیوں کے صلے میں میسر آیا ہے۔ اس کی خاطر لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے اور ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں نے اپنی عصمتیں نچھاور کی تھیں۔
ہماری آنکھوں میں وہ مناظر آج بھی محفوظ ہیں جب پاکستان بنانے والوں نے اپنا تن من دھن، سب کچھ نثار کردیا تھا۔ اس وطن عزیز میں میرے ہم عمر یا ہم سے بڑے ایسے بہت سے لوگ آج بھی حیات ہوں گے جو خاک و خون کا دریا عبور کرکے اور اپنا سب کچھ لٹا کر اس وطن عزیز کی پاک سرزمین پر قدم رنجہ ہوئے ہوں گے۔ ذرا کوئی ان سے پوچھے کہ اس ملک کے حالات پر ان کا دل کس قدر خون کے آنسو روتا ہوگا۔ ہماری یہ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے 16 دسمبر 1971 کو اپنی گنہگار آنکھوں سے دولخت ہوتے ہوئے دیکھا اور افسوس صد افسوس کہ کسی نے اس عظیم سانحے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو معرض وجود میں آئے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ بابائے قوم وفات پاگئے اور باپ کا سایہ شفقت اس کے سر سے ہمیشہ کے لیے اٹھ گیا۔ پھر اس کے بعد دشمنان پاکستان نے ایک گہری سازش کے تحت قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کردیا اور یوں ان کے راستے میں حائل آخری بڑی رکاوٹ بھی دور ہوگئی اور پھر وطن عزیز طرح طرح کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بن گیا۔ اسی عرصے میں فوجی طالع آزما بھی آئے اور نام نہاد جمہوریت کے علمبردار بھی لیکن اس ملک کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ بقول محسن بھوپالی:
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
ان میں معین قریشی جیسے وزیر اعظم بھی شامل تھے جن کے پاس پاکستان کی شہریت بھی نہیں تھی اور شوکت عزیز جیسے وزیر اعظم بھی تھے جن کے کارنامے قوم کے سامنے ہیں۔
جمہوریت کا ایک پانچ سالہ دور ختم اور دوسرا شروع ہوچکا ہے لیکن عام آدمی کی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی جا رہی ہے اور غربت اور بے روزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اچھی حکمرانی یا Good Governance کے محض دعوے اور چرچے ہیں جب کہ ملک کی سیاسی بساط پر سیاسی شطرنج کا ہر کھلاڑی اپنی اپنی چال چلنے میں مصروف ہے اور زمینی حقائق اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ:
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
جو سیاست داں مسند اقتدار پر قابض ہیں ان پر حرکت کے پس پشت یہ مقصد پوشیدہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے قبضے کو برقرار رکھا جائے اور اپنی مدت حکمرانی کو پورا کیا جائے۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو اقتدار کی لیلیٰ کے دیوانے اور متوالے ہیں اور جن کی ڈھکی چھپی خواہش یہ ہے کہ کسی بھی طرح کرسی اقتدار تک رسائی حاصل کی جائے۔ رہی بات اس ملک کے بھولے بھالے عوام کی تو وہ بے چارے تو ایک طویل عرصے سے نئے نئے نعروں اور روشن مستقبل کے لاروں اور وعدوں سے لبھائے اور بہلائے جا رہے ہیں۔ چالاک سیاستدان معصوم عوام کے کاندھوں پر رکھ کر اپنی اپنی بندوقیں چلا رہے ہیں۔ مفاد پرستوں نے ہماری سیاست کی ہیئت ہی تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ اسے اب نہ خدمت کا درجہ حاصل رہا ہے اور نہ عبادت کا۔ اب یہ صرف وراثت یا تجارت اور منفعت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔
وطن عزیز کی سیاست کے حوالے سے کسی شاعر کا یہ شعر قابل توجہ اور حسب حال ہے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں