بیوروکریسی کی حکمرانی

وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ پنجاب یا وزراء کرام اور دیگر منتخب نمایندے‘ یہ کبھی نہیں چاہیں گے۔۔۔

latifch910@yahoo.com

آج مسلم لیگ ن کی حکومت انتہائی مشکل حالات سے دو چار ہے۔اس پر میرا دل دکھی ہے' میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے 'صرف سوا سال کے عرصے میں حکومت کے خلاف اتنا شدید ردعمل کیوں رونما ہوا؟ کیا ان حالات تک پہنچنے کی ساری ذمے داری وزیراعظم میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف پر عائد ہوتی ہے یا پھر اس کے ذمے دار خواجہ سعد رفیق' خواجہ آصف یا اسحاق ڈار ہیں؟ میرا خیال ہے' ایسا نہیں ہے۔

وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ پنجاب یا وزراء کرام اور دیگر منتخب نمایندے' یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عوام میں ان کا امیج خراب ہو کیونکہ انھوں نے ان سے ووٹ لیے بھی ہوتے ہیں اور لینے بھی ہوتے ہیں تاہم ہمارے لکھنے والے اور اینکر حضرات اپنے پروگراموں' تجزیوں میں اور کالم نگار انھیں ہی ذمے دار کہتے ہیں یہ فرمایا جاتا کہ حکومت اور اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرانے میں خواجگان کا ہاتھ ہے اور کوئی وزیراعظم کی ضد کی بات کرتا ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں ایک اور مخلوق بھی بستی ہے' سمندر میں جیسے شارک ہوتی ہے۔

یہ گم نام ہوتے ہیں لیکن بہت بااثر اور کائیاں ہوتے ہیں۔ اس کا نام بیورو کریسی ہے' میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں زوال کا شکار ہوئیں' ان میں سیاستدان کا ہاتھ کم ہوتا ہے اور غیر سیاسی افراد کا زیادہ ہوتا ہے۔ حکمران بیورو کریسی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ حکمران جب بیورو کریسی کو اپنے کان اور آنکھیں بنا لیتے ہیں تب وہ زمینی حقائق سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر ان سے غلطیاں ہوتیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا ہی بیورو کریسی نے تھا' مسعود محمود بیورو کریٹ ہی تھا اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ سازش کیس میں وعدہ معاف بننے والا بھی بیوروکریٹ ہی تھا۔

عجیب بات یہ ہے کہ ماضی کی ان ناخوشگوار مثالوں کے باوجود سیاستدان جب بھی اقتدار میں آتے ہیں' اپنے سیاسی ساتھیوں پر کم اور بیورو کریٹس پر زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے اردگرد بھی چند بیورو کریٹس نے گھیرا ڈال رکھا ہے' مجھے لگتا ہے کہ حالیہ بحران کو زیادہ سنگین بنانے میں کچھ ایسے بیورو کریٹس کا ہاتھ ہے۔ ورنہ مسلم لیگ ن کی سیاسی قیادت تو فراخدلی اور لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر سیاسی کارکنوں سے دور ہو جاتے ہیں' روز کی سرکاری میٹنگیں' فائلوں پر دستخط' غیر ملکی سفیروںسے ملاقاتیں اور بیرونی دورے' انھیں اپنی جماعت کے عہدیداروں اور ورکروں سے دور کر دیتے ہیں اور بیورو کریٹ نزدیک ہو جاتا ہے۔

جب وہ سیاسی ورکروں سے دور ہوتے ہیں' تب انھیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ عوام ان سے کیا توقعات لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی خواہشات کیا ہیں۔ عوام کبھی ملک میں انتشار اور بدامنی نہیں چاہتے اور نہ وہ چاہتے ہیں کہ جمہوریت ڈی ریل ہو لیکن وہ یہ بھی چاہتے کہ نظام کو بچانے کے لیے لچک کا مظاہرہ ہونا چاہیے اور یہ مظاہرہ حکومت نہیں دوسری جانب سے بھی ہونا چاہیے۔ آج مسلم لیگ ن کے کتنے ایم این ایز اور ایم پی ایز ہوں گے جن کی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب سے روزانہ ملاقات ہوتی ہے لیکن بعض بیورو کریٹ ایسے ہوتے ہیں جو حکمرانوں سے روزانہ ملتے ہیں کیونکہ یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اگر ملاقات کرنی بھی ہے تو کسی بیورو کریٹ کی ہی منتیں کر کے تاریخ لینی ہوتی ہے۔


جب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کو کسی بیوروکریٹ سے رابطہ کرنا پڑے تو اس سے جمہوریت کو طاقتور ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو سمجھ نہیں آتا کہ یہی بیورو کریٹ ان کی سیاسی تباہی کا باعث بن رہے ہیں' حکمرانوں کو کرپشن' کمیشن اور کک بیکس کی راہ پر بھی بیورو کریٹ ہی لگاتا ہے' یہیں سے وہ اپنے لیے بھی راہ نکالتا ہے' حکمران کے کانوں میں وہی بات پہنچتی ہے جو بیوروکریٹ ان تک پہنچاتے ہیں۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز بیچارے اپنے ڈیروں پر بیٹھے ووٹروں کے طعنے سن رہے ہوتے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے لندن میںکروڑوں روپے مالیت کا گھر خریدا ہے اور ان کے بچے وہاں منتقل ہو چکے ہیں' ایسے کئی اور افسر بھی ہوں گے۔ جن کے بچے بیرون ملک مقیم ہوں گے اور وہ پاکستان میں حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کے لیے المناک صورت حال ہے۔

پنجاب میں تو ایک افسر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ وزراء سے بھی زیادہ بااثر ہے۔ پنجاب میں کسی ایم این اے کو بھی اپنے علاقے کا کوئی کام کرانا ہے تو اس کی منظوری سے ہوتا ہے۔ میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس افسر کے سامنے بڑے بڑے طاقتور ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنے کام کرانے کے لیے منتیں ترلے کرتے دیکھا ہے۔ ہر فائل پر ان کے دستخط ہوتے تھے کہ اگر کسی وزیر یا مشیر کو گاڑی کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی اسی کی منظوری سے ملتی تھی۔آپ ہی بتائیں' ایسی صورت حال میں مسلم لیگ ن کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کیا سوچتے ہوں گے' کیا ان کے دل نہیں دکھتے ہوں گے۔

وہ سیاسی لیڈر جو گلی محلے اور گاؤں کے ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہے' اپنے علاقے کے مسائل اور عوام کی سوچ حکمران تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن اس کی ایک نہیں سنی جاتی لیکن اپنی حکومت کی ناکامیوں اور نا اہلیوں کی سزا اسے ملتی ہے کیونکہ اس نے عوام میں رہ کر الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔

اسے عوام کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر پنجاب حکومت مسلم لیگ ن کے ورکروں کی ڈیوٹی لگاتی کہ حکومت کو بتایا جائے کہ ادارہ منہاج القرآن میں کتنا اسلحہ یا جنگجو موجود ہیں تو وہ صدق دل سے رپورٹ پیش کرتے اور کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما نہ ہوتا' افسوس اس بات کا ہے کہ حکمران اقتدار میں آ کر ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنی جماعت کے عہدیداروں اور ورکروں سے دور تو ہوتے ہی ہیں لیکن عام رکن اسمبلی سے بھی فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔

ان کا انحصار سرکاری لوگوں پر بڑھ جاتا ہے' یہیں سے غلطیاں ہونا شروع ہوتی ہیں اور یہ ایسی غلطیاں ہوتیں ہیں جو بعض اوقات ناقابل تلافی ہو جاتی ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ میری دعا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس بحران سے خوش اسلوبی سے نکل جائیں اور کوشش کریں کہ اپنے کان اور ناک بیورو کریسی کے بجائے عوام کے منتخب نمایندوں اور پارٹی عہدیداروں اور ورکروں کو بنائیں تاکہ بیورو کریسی اور دیگر اداروں کو آئین اور قانون کے تابع رکھا جا سکے۔
Load Next Story