یہ خوفناک ہنگامے اور ایک وضاحت
حکومت کے پاس بے قابو ہو جانے والے عوامی احتجاج کا ابتدائی علاج تو لاٹھی چارج ہے اس سے بات بڑھ جائے تو پھر آنسو گیس
میں دودھ کا جلا ایک ڈرا سہما پاکستانی ہوں جو خوفناک حالات حاضرہ سے گھبرا کر دوسرے محفوظ موضوعات پر لکھنا شروع کر دیتا ہے، اسی سلسلے میں بھٹو مودودی ملاقات والے کالم میں ایک سہو ہو گیا۔ اس سلسلے میں محترمہ عابدہ گورمانی کا ذکر آیا کہ دونوں بڑوں کی ملاقات میں وہ بھی موجود تھیں، وہ بھٹو صاحب کی خوراک کو انھیں دینے سے پہلے خود احتیاطاً چکھ لیا کرتی تھیں۔ اس ضمن میں میرے قدیمی محسن اور مہربان چوہدری اعتزاز احسن کا فون آیا کہ میری اطلاع درست نہیں تھی۔
محترمہ عابدہ گورمانی کی مولانا کے اہل خانہ سے رشتہ داری تھی اور وہ ان کے ہاں آتی جاتی تھیں مگر صرف زنانے میںمردانے میں ہر گز نہیں۔ چوہدری صاحب نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ بارہا کھانا کھایا لیکن بھٹو صاحب کے ساتھ کوئی ٹیسٹر یعنی کھانا چیک کرنے والا نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس واقعے کی تصحیح کر لی جائے چنانچہ میں محترم خاتون سے اپنی غلط فہمی کی معذرت کرتا ہوں۔ یہ بات یہیں پر ختم اب کچھ آنسو گیس کی یاد میں۔
حکومت کے پاس بے قابو ہو جانے والے عوامی احتجاج کا ابتدائی علاج تو لاٹھی چارج ہے اس سے بات بڑھ جائے تو پھر آنسو گیس۔ لاہور کے موچی دروازہ میں پولیس کے ایسے ہی ایک نافرمان اور بے قابو جلسے پر آنسو گیس جاری تھی، میں رپورٹنگ کرتے ہوئے موچی دروازہ کی سڑک پر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا کہ بات حد سے بڑھی تو یہاں سے بذریعہ موٹر کار آسانی کے ساتھ غائب ہوجاؤں گا لیکن گیس کا ایک گولا میری تلاش میں تھا وہ سیدھا میری گاڑی کے ایک دروازے کے کھلے شیشے سے اندر آ کر گرا اور گاڑی دھوئیں سے بھر گئی۔
دھوئیں کی تلخی میری آنکھوں میں گھس گئی۔ بعد میں علاج کراتا رہا لیکن پھر بھی آنکھ اس بے رحم دھوئیں سے مکمل طور پر صاف نہ ہو سکی اور جوانی میں ہی ایک بیماری لگ گئی۔ میں اب تک اس آنکھ کا علاج کرا رہا ہوں اور اب تو میرا داماد آنکھوں کا بہت بڑا ڈاکٹر ہے ڈاکٹر عبدالحمید اعوان۔ دوست احباب متفکر رہے جاننے والوں میں سے جب کسی ایک نے پوچھا کہ مجھے دیکھ سکتے ہو تو جواب تھا دل میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں یوں بالکل دیکھ رہا ہوں روز روشن کی طرح۔ آنسو گیس کی ایک قسم فوجی بھی ہوتی ہے جو سول میں استعمال نہیں ہوتی لیکن غلط یا صحیح مشہور ہے کہ پولیس فوجی گیس بھی رکھتی ہے جو جنگوں میں دشمن سپاہ کو وقتی طور پر بے بس کر دیتی ہے۔
ان دنوں اسلام آباد سے جو خبریں آ رہی ہیں ان میں کسی سخت قسم کی گیس کا ذکر بھی ملتا ہے۔ میرے صحافی بھائی ایسے ہنگاموں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں وہ محتاط رہیں لیکن اب تو سنا ہے اسلام آباد میں پولیس صحافیوں میں گھس آتی ہے۔ چھری اور خربوزے والا معاملہ ہے لیکن ایسے معاملے لاہور جیسے پرانے سیاسی بے تاب شہروں میں ہوا کرتے تھے اسلام آباد تو بابوؤں کا شہر سمجھا جاتا تھا اور اس کا جڑواں شہر راولپنڈی سیاسی خرخشوں سے بچ کر رہتا تھا۔
یہ ایک نیم فوجی شہر سمجھا جاتا تھا جس کی بڑی آبادی کسی سویلین فوجی محکمے میں کام کرتی تھی اور شہر پر بھی غیر سیاسی فضا طاری رہتی تھی لیکن بھلا ہو ہمارے سیاستدانوں کا، اسلام آباد بھی پہنچے اور اس شہر کو بھی سیاست کا رنگ دے دیا اور اب کون سا حادثہ اور سانحہ ہے جو اس شہر میں نہیں ہوا۔ لاہور کی طرح اب تو اسلام آباد بھی ایک سیاسی شہر ہے جہاں ان دنوں پاکستانی تاریخ کا ایک بہت بڑا حیرت انگیز احتجاج دو تین ہفتوں سے جاری ہے۔
اسلام آباد تو لاہور کراچی سے بھی بازی لے گیا۔ ہمارا دارالحکومت ہماری قومی تباہی کا مرکز بن گیا۔ ایک ماں رو رہی تھی کہ کسی بچے کی تعلیم کا ایک دن جو ضایع ہوتا ہے وہ پھر نہیں آتا اور کوئی بھی اس ایک دن کی قیمت نہیں لگا سکتا۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو کیا دکھا رہے ہیں اور اپنے اس مستقبل کو کیا بنانا چاہتے ہیں کیا گلو بٹ۔
ہمارے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ پاکستانیوں نے مجھے ووٹ دیے ہیں لیکن یہ ڈیڑھ کروڑ پوچھتے ہیں کہ سرکار آپ نے ہمیں اس اعتماد اور پیار کے بدلے کیا دیا ہے۔ ناقابل برداشت مہنگائی، دہشت ناک بدامنی، خاندان کے نااہل ترین افراد کی وزارت جس پر شاہی خاندان کا طنز کیا جاتا ہے، صرف سال سوا سال میں ملک میں یہ احتجاج خالصتاً نااہل حکومت کا نتیجہ ہے جو حالات کو نارمل بھی نہ رکھ سکی۔ سڑکیں بائی پاس انڈر پاس اور نہ جانے کیا کیا بنایا جاتا رہا لیکن اس زمین کی کسی نے فکر نہ کی جس پر یہ نمائش لگائی گئی ہے۔
عوام نے تنگ آ کر ایسے لوگوں کو بھی لیڈر مان لیا جو لیڈر نہیں تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بے ہنگم شور اور ہنگامہ ملک بھر میں برپا ہو گیا جس نے ملک کی زندگی ہی بے قرار کر دی اور گھر گھر میں بے چینی پھیل گئی۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات جاری ہے جو ظاہر ہے کہ بے مقصد نہیں ہو گی اور اس کا مقصد آپ پر جلد ہی واضح ہوجائے گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم یہ نوبت آنے ہی کیوں دیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو کے پاس منظوری کے لیے فوج کی طرف سے ایک فائل آئی جس میں کسی چھاؤنی میں دیوار بنانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔
پنڈت جی نے اس درخواست کو زیر غور رکھ لیا بعد میں دو تین بار فوج کی طرف سے یاد دہانی کرائی گئی مگر نہرو نے بالآخر اسے مستردکر دیا اس پر ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ جناب یہ کون سی ایسی بڑی بات تھی جو آپ نے مسترد کر دی جواب تھا 'ان فوجیوں کو انکار کرنا ضروری ہے' اس لیے ان کا مزاج درست رہتا ہے لیکن یہ پنڈت نہرو تھے جو خود بھی جمہوری لیڈر تھے' کیا پاکستان میں ایسے جمہوری مزاج لیڈر موجود ہیں' جن کی ادارے عزت کریں؟