ظلم ناکام ہوجاتا ہے
اس بات پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہوگا کہ آمنے سامنے کھڑے ہوئے ، فریقین کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہے۔۔۔
زندگی میں ہم بہت سارے ایسے خطرناک مناظر دیکھتے ہیں جن کے نقصانات کے تصور سے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ہماری نظر ان مناظر کے خالقوں پر نہیں جاتی نہ ان فریقوں کی تخلیق پر جاتی ہے جو ان مناظر کا حصہ ہوتے ہیں۔ پچھلے لگ بھگ دو ہفتوں سے اسلام آباد میں ہم ایک ایسا ہی خطرناک منظر دیکھ رہے ہیں ۔
جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وہ کارکن ہیں جو اپنے قائدین کے مطالبات کی حمایت میں یہاں موجود ہیں ۔ ان مظاہرین میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی ہیں بوڑھے لوگ بھی ہیں ان کے ہاتھوں میں بھی ڈنڈے ہیں اور زبان پر زندہ باد مردہ باد کے نعرے ہیں ۔ ان کے سامنے دوسرا فریق سرکاری اہلکار ہیں جن میں پولیس ہے ایف سی ہے رینجرز ہے اور فوج ہے ان کے ہاتھوں میں بھی ڈنڈے ہیں۔
ان کے ہاتھوں میں پہلے آنسو گیس کے گولے اور گنیں تھیں لیکن حکام نے اس خوف سے آنسو گیس اور گنیں واپس لے لیں کہ ان کے استعمال سے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ بڑے پیمانے پر نہ پیش آجائے اور ان کے گلے کا ہار نہ بن جائے حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس سے کتنا بڑا جانی نقصان ہوگا انھیں صرف یہ خوف تھا کہ اگر ایسا ہوا تو ان کی بدنامی ہوگی۔
اس بات پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہوگا کہ آمنے سامنے کھڑے ہوئے ، فریقین کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہے۔ ایک فریق (عوام) اپنے حق کے لیے مرنے مارنے پر ڈٹا ہوا ہے دوسرا فریق قانون کی پاسداری کے لیے عوام کے سامنے صف بند ہے۔ ان دونوں فریقوں میں ایک فرق یہ ہے کہ ایک فریق (عوام) سادے کپڑوں میں ملبوس ہے دوسرا فریق سرکاری وردیوں میں ملبوس ہے۔ اگرچہ فریقین کا تعلق ایک ہی طبقے سے ہے لیکن انھیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے اور دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں۔
جب کوئی گروہ کسی استحصالی نظام کے ذریعے عوام کا خون چوسنے کی تیاری کرتا ہے تو اسے پورا احساس ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن غریب عوام متحد ہوکر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے سو اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے وہ سو طرح کے جتن کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خالقوں کو بھی یہ احساس تھا کہ جلد یا بدیر آج یا کل انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر عوام کی اجتماعی طاقت ان کے سامنے آئی تو وہ اس نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی یہ کوئی فرضی خوف نہ تھا بلکہ ایک حقیقی خطرہ تھا جس سے بچنے کے لیے اس نظام کے خالقوں نے ریاست کے نام سے ایک طاقتور ادارہ قائم کیا۔ اس کو چلانے کے لیے جمہوریت کا ایک خطرناک لیکن خوبصورت نظام تشکیل دیا۔
اس جمہوریت کے چہرے پر قانون انصاف کا ٹیکا لگایا اس کی مانگ میں پولیس رینجرز ایف سی فوج وغیرہ کا سیندور بھرا، آئین اور پارلیمنٹ کو تقدیس کا لباس پہناکر کھڑا کردیا اور یہ خطرناک پروپیگنڈہ بھرپور طریقے سے کروایا کہ ان دو مقدس عناصر کی طرف میلی نظروں سے دیکھنا ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت بھی ہوسکتی ہے۔ مڈل کلاس کے عقل سے اندھے اہل دانش کے ذہنوں میں یہ تصور کوٹ کوٹ کر بٹھادیا کہ آئین اور پارلیمنٹ دو ایسے مقدس دیوتا ہیں جنھیں صرف پوجا جاسکتا ہے ۔
ان کی طرف نظر بد سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ یہ بات کوئی سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ آئین صرف اس وقت مقدس ہوتا ہے جب وہ ملک کی اکثریت یعنی غریب طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے قانون صرف اس وقت قابل احترام ہوتا ہے جب وہ مظلوم کے حق میں استعمال ہو انصاف صرف اس وقت قابل تعظیم ہوتا ہے جب وہ مجبور طبقات کو ظالم سے بچائے پارلیمنٹ صرف اس وقت ایک مقدس ادارہ کہلا سکتا ہے جب اس میں مزدوروں کسانوں غریبوں کے حقیقی نمایندے موجود ہوں ورنہ یہ سارے ریاستی ادارے اس قابل ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھانا ہر غریب کا فرض ہے۔
پچھلے دو ہفتوں سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو میدان سجا ہوا ہے جو جنگ لڑی جا رہی ہے اسے ایک فریق عوام کے حقوق کی جنگ کہہ رہا ہے دوسرا فریق انارکی اور بغاوت کہہ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح کیا جائے کہ کون سا فریق حق پر ہے کون سا فریق ناحق؟ ویسے تو ہم نے ریاست کے کردار کے حوالے سے بتا دیا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اس نظام میں عوام کو دبائے رکھنے کے لیے ایک آہنی شکنجے کا کام کرتے ہیں لیکن اگر اس جنگ پر نظر ڈالی جائے تو اس کی عوام دوستی یا عوام دشمنی سمجھ میں آسکتی ہے۔ ڈی چوک کی جنگ کو حکمران اور ان کے حواری جمہوریت کو بچانے کی جنگ کا نام دے رہے ہیں اور مڈل کلاس اشرافیہ بڑی ذہانت سے حکمران طبقات کی حمایت کر رہی ہے لکھاری اپنا سارا زور قلم اشرافیائی جمہوریت کی حمایت میں صرف کر رہے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے یعنی یہ دیکھنے کے لیے کہ کون سا فریق حق پر ہے کون سا فریق دھاندلی کر رہا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ڈی چوک کے دھرنے والوں کے مطالبات کیا ہیں؟ ڈی چوک کے مظاہرین کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ انتخابی نظام میں تبدیلی لاکر اسے اشرافیائی کے بجائے عوامی بنایا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابی دھاندلیوں کے گڑھ الیکشن کمیشن کی اس طرح تشکیل نو کی جائے کہ دھاندلیوں کا امکان نہ رہے۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ بلاتاخیر بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔
تاکہ مالی اور انتظامی اختیارات نچلی سطح تک آجائیں اور عوام کے مسائل علاقائی سطح پر حل ہوسکیں۔ چوتھا مطالبہ احتساب کا ہے یعنی ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جنھوں نے حکومت میں اور اپوزیشن میں رہ کر عوام کے اربوں روپوں کی لوٹ مار کی ہے۔ پانچواں مطالبہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے اس مطالبے کو ابھی تک 12ویں کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہے۔ چھٹا مطالبہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے کا ہے۔ ایک سب سے بڑا مطالبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا پنجاب کا استعفیٰ ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سوائے میاں برادران کے استعفے کے باقی مطالبات ماننے کے لیے تیار ہے یعنی حکومت باقی مطالبات کو جائز سمجھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی مطالبات اگر جائز اور آئینی اور جمہوری ہیں تو ہماری جمہوری حکومتوں نے اب تک ان جمہوری مطالبات کو پورا کیوں نہیں کیا؟یہ وہ مطالبات ہیں جو ملک کے 20کروڑ عوام کے حقوق پر قدغن بنے ہوئے ہیں اگر یہ مطالبات پہلے ہی پورے کیے جاتے تو جمہوریت میں عوام کی شرکت بامعنی ہوجاتی لیکن بددیانت اور عوام دشمن حکمران طبقہ جان بوجھ کر ان جمہوری مطالبات کو 67 سال سے دبائے بیٹھا رہا آج جب ہزاروں مرد عورتیں ڈی چوک پر20 دن سے بیٹھے ہوئے ہیں تو حکومت یہ مطالبات ماننے پر راضی ہو رہی ہے۔ کیا یہ ہجوم ڈی چوک پر دھرنا نہ دیتا تو حکومت یہ مطالبات پورے کرتی؟ ہرگز نہیں۔ سو یہ دھرنا تماشا نہیں بلکہ ایک جمہوری کامیاب تحریک ہے۔
حکومت نے ان دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی چار لائنیں بنا رکھی ہیں پہلی لائن پولیس کی دوسری رینجرز کی تیسری ایف سی کی چوتھی فوج کی۔ یہ وہ ریاستی مشنری ہے جو حکومت عوام کو مارنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 144، آئین کی شق 245 کرفیو یہ سارے ہتھیار غریب عوام کے خلاف استعمال ہوتے ہیں کسی صنعتکار کسی وڈیرے یا اشرافیہ کے کسی حلقے کے خلاف استعمال نہیں ہوتے ، لاٹھی آنسو گیس گولی چلانے والے بھی غریب طبقات سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور لاٹھی گولی کھانے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں جب سیکیورٹی فورسز کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ ان کو جن لوگوں پر لاٹھی برسانے گولی چلانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ بے گناہ اور معصوم ان ہی کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ گولی چلانے لاٹھیاں برسانے اور آنسو گیس کے گولے عوام پر پھینکنے سے انکار کردیتے ہیں اور عوام کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے ہیں جب ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا ظلم ناکام ہوجاتا ہے اور جمہوریت بے لباس ہوکر عوام کے سامنے آجاتی ہے۔ اور ڈی چوک پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔
جس کے دو فریق ہیں۔ ایک فریق تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وہ کارکن ہیں جو اپنے قائدین کے مطالبات کی حمایت میں یہاں موجود ہیں ۔ ان مظاہرین میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی ہیں بوڑھے لوگ بھی ہیں ان کے ہاتھوں میں بھی ڈنڈے ہیں اور زبان پر زندہ باد مردہ باد کے نعرے ہیں ۔ ان کے سامنے دوسرا فریق سرکاری اہلکار ہیں جن میں پولیس ہے ایف سی ہے رینجرز ہے اور فوج ہے ان کے ہاتھوں میں بھی ڈنڈے ہیں۔
ان کے ہاتھوں میں پہلے آنسو گیس کے گولے اور گنیں تھیں لیکن حکام نے اس خوف سے آنسو گیس اور گنیں واپس لے لیں کہ ان کے استعمال سے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ بڑے پیمانے پر نہ پیش آجائے اور ان کے گلے کا ہار نہ بن جائے حکمرانوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس سے کتنا بڑا جانی نقصان ہوگا انھیں صرف یہ خوف تھا کہ اگر ایسا ہوا تو ان کی بدنامی ہوگی۔
اس بات پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہوگا کہ آمنے سامنے کھڑے ہوئے ، فریقین کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہے۔ ایک فریق (عوام) اپنے حق کے لیے مرنے مارنے پر ڈٹا ہوا ہے دوسرا فریق قانون کی پاسداری کے لیے عوام کے سامنے صف بند ہے۔ ان دونوں فریقوں میں ایک فرق یہ ہے کہ ایک فریق (عوام) سادے کپڑوں میں ملبوس ہے دوسرا فریق سرکاری وردیوں میں ملبوس ہے۔ اگرچہ فریقین کا تعلق ایک ہی طبقے سے ہے لیکن انھیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے اور دونوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں۔
جب کوئی گروہ کسی استحصالی نظام کے ذریعے عوام کا خون چوسنے کی تیاری کرتا ہے تو اسے پورا احساس ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن غریب عوام متحد ہوکر اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے سو اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے وہ سو طرح کے جتن کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خالقوں کو بھی یہ احساس تھا کہ جلد یا بدیر آج یا کل انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر عوام کی اجتماعی طاقت ان کے سامنے آئی تو وہ اس نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی یہ کوئی فرضی خوف نہ تھا بلکہ ایک حقیقی خطرہ تھا جس سے بچنے کے لیے اس نظام کے خالقوں نے ریاست کے نام سے ایک طاقتور ادارہ قائم کیا۔ اس کو چلانے کے لیے جمہوریت کا ایک خطرناک لیکن خوبصورت نظام تشکیل دیا۔
اس جمہوریت کے چہرے پر قانون انصاف کا ٹیکا لگایا اس کی مانگ میں پولیس رینجرز ایف سی فوج وغیرہ کا سیندور بھرا، آئین اور پارلیمنٹ کو تقدیس کا لباس پہناکر کھڑا کردیا اور یہ خطرناک پروپیگنڈہ بھرپور طریقے سے کروایا کہ ان دو مقدس عناصر کی طرف میلی نظروں سے دیکھنا ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت بھی ہوسکتی ہے۔ مڈل کلاس کے عقل سے اندھے اہل دانش کے ذہنوں میں یہ تصور کوٹ کوٹ کر بٹھادیا کہ آئین اور پارلیمنٹ دو ایسے مقدس دیوتا ہیں جنھیں صرف پوجا جاسکتا ہے ۔
ان کی طرف نظر بد سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جائیں گی۔ یہ بات کوئی سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ آئین صرف اس وقت مقدس ہوتا ہے جب وہ ملک کی اکثریت یعنی غریب طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے قانون صرف اس وقت قابل احترام ہوتا ہے جب وہ مظلوم کے حق میں استعمال ہو انصاف صرف اس وقت قابل تعظیم ہوتا ہے جب وہ مجبور طبقات کو ظالم سے بچائے پارلیمنٹ صرف اس وقت ایک مقدس ادارہ کہلا سکتا ہے جب اس میں مزدوروں کسانوں غریبوں کے حقیقی نمایندے موجود ہوں ورنہ یہ سارے ریاستی ادارے اس قابل ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھانا ہر غریب کا فرض ہے۔
پچھلے دو ہفتوں سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر جو میدان سجا ہوا ہے جو جنگ لڑی جا رہی ہے اسے ایک فریق عوام کے حقوق کی جنگ کہہ رہا ہے دوسرا فریق انارکی اور بغاوت کہہ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کس طرح کیا جائے کہ کون سا فریق حق پر ہے کون سا فریق ناحق؟ ویسے تو ہم نے ریاست کے کردار کے حوالے سے بتا دیا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اس نظام میں عوام کو دبائے رکھنے کے لیے ایک آہنی شکنجے کا کام کرتے ہیں لیکن اگر اس جنگ پر نظر ڈالی جائے تو اس کی عوام دوستی یا عوام دشمنی سمجھ میں آسکتی ہے۔ ڈی چوک کی جنگ کو حکمران اور ان کے حواری جمہوریت کو بچانے کی جنگ کا نام دے رہے ہیں اور مڈل کلاس اشرافیہ بڑی ذہانت سے حکمران طبقات کی حمایت کر رہی ہے لکھاری اپنا سارا زور قلم اشرافیائی جمہوریت کی حمایت میں صرف کر رہے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے یعنی یہ دیکھنے کے لیے کہ کون سا فریق حق پر ہے کون سا فریق دھاندلی کر رہا ہے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ڈی چوک کے دھرنے والوں کے مطالبات کیا ہیں؟ ڈی چوک کے مظاہرین کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ انتخابی نظام میں تبدیلی لاکر اسے اشرافیائی کے بجائے عوامی بنایا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابی دھاندلیوں کے گڑھ الیکشن کمیشن کی اس طرح تشکیل نو کی جائے کہ دھاندلیوں کا امکان نہ رہے۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ بلاتاخیر بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔
تاکہ مالی اور انتظامی اختیارات نچلی سطح تک آجائیں اور عوام کے مسائل علاقائی سطح پر حل ہوسکیں۔ چوتھا مطالبہ احتساب کا ہے یعنی ان لوگوں کا احتساب کیا جائے جنھوں نے حکومت میں اور اپوزیشن میں رہ کر عوام کے اربوں روپوں کی لوٹ مار کی ہے۔ پانچواں مطالبہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہے اس مطالبے کو ابھی تک 12ویں کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہے۔ چھٹا مطالبہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے کا ہے۔ ایک سب سے بڑا مطالبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا پنجاب کا استعفیٰ ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سوائے میاں برادران کے استعفے کے باقی مطالبات ماننے کے لیے تیار ہے یعنی حکومت باقی مطالبات کو جائز سمجھتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی مطالبات اگر جائز اور آئینی اور جمہوری ہیں تو ہماری جمہوری حکومتوں نے اب تک ان جمہوری مطالبات کو پورا کیوں نہیں کیا؟یہ وہ مطالبات ہیں جو ملک کے 20کروڑ عوام کے حقوق پر قدغن بنے ہوئے ہیں اگر یہ مطالبات پہلے ہی پورے کیے جاتے تو جمہوریت میں عوام کی شرکت بامعنی ہوجاتی لیکن بددیانت اور عوام دشمن حکمران طبقہ جان بوجھ کر ان جمہوری مطالبات کو 67 سال سے دبائے بیٹھا رہا آج جب ہزاروں مرد عورتیں ڈی چوک پر20 دن سے بیٹھے ہوئے ہیں تو حکومت یہ مطالبات ماننے پر راضی ہو رہی ہے۔ کیا یہ ہجوم ڈی چوک پر دھرنا نہ دیتا تو حکومت یہ مطالبات پورے کرتی؟ ہرگز نہیں۔ سو یہ دھرنا تماشا نہیں بلکہ ایک جمہوری کامیاب تحریک ہے۔
حکومت نے ان دھرنوں کو ناکام بنانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی چار لائنیں بنا رکھی ہیں پہلی لائن پولیس کی دوسری رینجرز کی تیسری ایف سی کی چوتھی فوج کی۔ یہ وہ ریاستی مشنری ہے جو حکومت عوام کو مارنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 144، آئین کی شق 245 کرفیو یہ سارے ہتھیار غریب عوام کے خلاف استعمال ہوتے ہیں کسی صنعتکار کسی وڈیرے یا اشرافیہ کے کسی حلقے کے خلاف استعمال نہیں ہوتے ، لاٹھی آنسو گیس گولی چلانے والے بھی غریب طبقات سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور لاٹھی گولی کھانے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں جب سیکیورٹی فورسز کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ ان کو جن لوگوں پر لاٹھی برسانے گولی چلانے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ بے گناہ اور معصوم ان ہی کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ گولی چلانے لاٹھیاں برسانے اور آنسو گیس کے گولے عوام پر پھینکنے سے انکار کردیتے ہیں اور عوام کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے ہیں جب ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا ظلم ناکام ہوجاتا ہے اور جمہوریت بے لباس ہوکر عوام کے سامنے آجاتی ہے۔ اور ڈی چوک پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔