اوکلا ہاما سے تلسہ تک
معلوم ہوا کہ یہ ریاست جنوب کی ان چند بڑی ریاستوں میں شمار ہوتی ہے۔۔۔۔
September 02, 2014
اوکلا ہاما پہلی سماعت میں کچھ کچھ یوکو کاما ٹائپ جاپانی سا نام لگتا ہے، اتفاق کی بات ہے کہ 1984 سے لے کر اب تک بارہ مرتبہ امریکا یاترا کا موقع ملا ہے اور ملا جلا کر اس ملک کے پچیس سے زیادہ شہروں کی یاترا ہو چکی ہے لیکن اس طرف آنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا اور شاید اب بھی نہ ہوتا اگر ہمارے اس دورے کے مرکزی میزبان بلال پراچہ اور ان کے احباب بالخصوص ڈاکٹر ثاقب اور ڈاکٹر ثناء اللہ یہاں پاک امریکا تھنکرز فورم کے نام سے ایک تنظیم قائم نہ کرتے۔
شکاگو' پی اوریا' اریانا شیمپیئن، لوئی ول اور جانسن سٹی میں پانچ مشاعرے بھگتا کر ہم لوگ 26 اگست کو اوکلاہاما سٹی پہنچے جہاں سے 29 اگست کو تلسہ اور 30اگست کو اوکلاہاما سٹی میں مشاعرے پڑھنے کے بعد یکم ستمبر کو ہمیں28 گھنٹوں پر مشتمل طویل فلائٹ کے ذریعے واپسی کا سفر کرنا ہے۔ اس شہر میں بھی ہمارے بیشتر میزبان ڈاکٹر حضرات ہیں عزیزی بلال پراچہ کو یہاں آئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا مگر ثاقب شیخ ڈاکٹر ثناء اللہ اور ڈاکٹر احمد اداب جیسے مخلص اور انتہائی ذمے دار قسم کے دوستوں کی مدد سے ان کا یہ پہلا بڑا پروگرام ہر اعتبار سے انتہائی کامیاب رہا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ ریاست جنوب کی ان چند بڑی ریاستوں میں شمار ہوتی ہے جنہوں نے انیسویں صدی کے وسط میں امریکا کی خانہ جنگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور یہ کہ یہ علاقہ اس کاؤ بوائے کلچر کے لیے مشہور ہے جس پر ہالی وڈ میں بے شمار شاندار فلمیں بن چکی ہیں۔
یورپی حملہ آوروں نے مقامی ریڈ انڈین باشندوں کو اسی طرح شمال سے جنوب کی طرف دھکیل دیا جیسے برصغیر میں آریا حملہ آوروں نے شمالی ہند کے کول اور دراوڑ قبائل کو جنوب کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس زمانے میں اوکلاہاما ایک غیر آباد اور لق و دق وسیع خطہ زمین تھا جہاں کی مٹی بھی سرخی مائل تھی یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکا کا پہلا تیل کا کنواں بھی اسی علاقے میں دریافت ہوا تھا جس کا نام متعلقہ زمین کی مالکہ گلین کے نام پر گلین پول رکھا گیا تھا۔
یہاں کے قدیم باشندے اب بھی اپنے قبائلی تشخص پر فخر کرتے ہیں اتنی بڑی ریاست کی کل آبادی ساٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے امریکا کے بڑے شہروں کی نسبت یہاں خاندانی نظام اور مذہبی رویے مضبوط تر ہیں۔ ڈاکٹر احمد اداب نے بتایا کہ یہ لوگ آج بھی شمال کے لوگوں کو حملہ آور تصور کرتے ہیں اور اپنے آپ کو امریکی کے بجائے اپنے قدیم نام سے پکارا جانا پسند کرتے ہیں۔
یہاں ہمارا قیام ایک ہوٹل میں تھا جس کے مالک ایک پاکستانی الیاس چوہدری ہیں، ان کے پاکستانی مینجر عارف اور عرب نژاد معاون سلطان سے خوب ملاقات رہی اور انھوں نے ہمارا خیال اپنے ذاتی مہمانوں کی طرح رکھا۔ ڈاکٹر ثناء اللہ کے ڈنر' ثاقب شیخ کے برنچ اور بلال پراچہ کے استقبالیہ میں بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور ایک بار پھر دنیا سمٹ کر بہت چھوٹی لگنے لگی۔
اوکلاہامہ سٹی ہمارے قیام کی آخری منزل تھا لیکن اس دوران میں ہمیں دو راتوں کے لیے قریبی شہر تلسہ میں بھی جانا تھا جہاں کی پاکستانی کمیونٹی خاصی بڑی ہے وہاں چھ باقاعدہ مسجدیں ہیں اور جس مسجد میں ہم نے جمعہ کی نماز پڑھی اس کے ہال میں ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے جب کہ خواتین کی تعداد اس کے علاوہ تھی جن کے لیے علاحدہ جگہ کا اہتمام تھا ۔
ایک بات کا ذکر کرنا میں بھول گیا کہ اوکلاہاما سٹی میں ڈاکٹر ثنااﷲ کی ساس ہمارے بحرین کے مرحوم دوست افضل نجیب کی سالی یعنی مہرو بھابی کی ہمشیرہ نکلیں جو لاہور کے علاقے وسن پورہ میں میرے بہت عزیز مرحوم دوست رزاق خاں عرف جاکا بابو کی ہمسائی رہ چکی ہیں، واپسی پر ایسا ہی ایک اتفاق ڈاکٹر انوار کے پرانے دوست اور شہردار شیراز کے گھر پر ہوا جن کی بیگم سید محمد جعفر کی رشتے کی پوتی اور اپنے برادرم قاسم جعفری کی بھتیجی نکلیں۔
تلسہ میں ہمارے مرکزی میزبان خالد عطا تھے جو پیشے کے اعتبار سے پٹرولیم انجینئر ہیں وہ مجھے انور مسعود اور حسین پراچہ صاحب کو لینے کے لیے تلسہ سے ڈرائیو کر کے آئے تھے جہاں جمعرات کی شام استقبالیہ اور جمعے کی رات مشاعرہ تھا۔ خالد عطا کا آبائی تعلق تو سرگودھا سے تھا مگر انھوں نے تعلیم کراچی میں مکمل کی تھی یہاں وہ چودہ سال سے مقیم تھے ان کی بیگم تسلیم کوثر بیٹی حرا اور بیٹے منیب نے بھی مہمانداری کی انتہا کر دی ان کے بچوں بالخصوص منیب کی اردو بہت اچھی تھی لیکن صرف بولنے کی حد تک کیونکہ یہاں کی مخصوص مجبوریوں کے تحت وہ اب تک اردو لکھنا اور پڑھنا نہیں سیکھ سکا تھا، وہ ایک انتہائی مہذب اور سمجھ دار بچہ تھا اور شہر کی سڑکوں'ٹریفک کے قوانین اور معلومات عامہ کے حوالے سے ہائی اسکول کا طالب علم ہونے کے باوجود کئی بار اپنے باقاعدہ پڑھے لکھے والد سے بھی زیادہ تیز اور معاملہ فہم ثابت ہوا، پاکستان اوراسلام کے بارے میں بھی اس کی معلومات اور دلچسپی کا عالم دیدنی تھا۔
برادرم ڈاکٹر انوار احمد سے پہلی ملاقات تین برس قبل ''اپنا'' کی کانفرنس منعقدہ سینٹ لوئیس میں ہوئی تھی، بہت اچھے شاعر اور کامیاب ڈاکٹر ہیں، ہم سے ملنے کے لیے وہ اور ان کی بیگم خاص طور پر ریاست مسوری سے ڈرائیو کر کے آئے اور دونوں مشاعروں میں ہمارے ساتھ رہے۔
تلسہ میں ہمارے دیکھنے کی کوئی بہت زیادہ چیزیں نہیں تھیں البتہ ایک میوزیم کا ذکر اتنا سنا کہ اسے دیکھنا واجب ہو گیا یہ اصل میں تھامس گلکریز Thomas Gilcrease نامی ایک شخص کی جمع کردہ اشیاء سے ترتیب دیا گیا ہے اور اس کا نام بھی گل کریز میوزیم ہے، ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے ہم نے اپنے آپ کو صرف اس کے ریڈ انڈین حصے تک ہی محدود رکھا کہ اس تہذیب کو ہم نے صرف کاؤ بوائے فلموں کی حد تک ہی دیکھ رکھا تھا۔
عجیب بات ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے کی قدیم تہذیب کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو ان میں بہت سی باتیں مشترک ملیں گی جنگی ہتھیار ''اوزار'' برتن' کپڑے'جانوروں سے متعلق سامان وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ امریکی معاشرے کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ لوگ Presentation کے اعلیٰ معیار سے ہر چیز کی قیمت میں ویلیو ایڈیشن کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور توجہ طلبی اور خدمات کو اس طرح ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں کہ لوگ چیزوں کو دیکھنے اور خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
تلسہ کا مشاعرہ یونیورسٹی آف تلسہ کے ایک ذیلی ہال میں تھا خیال تھا کہ ڈاکٹر حسین پراچہ کی تقریر مغرب کی نماز سے پہلے ہو گی اور نماز کے بعد مشاعرے کا دور شروع ہو گا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ تلسہ ایک زمانے میں پٹرول کے ذخائر کی وجہ سے پٹرول انڈسٹری کا مرکز رہ چکا ہے اگرچہ اب یہ انڈسٹری اور اس سے متعلق دیگر تنصیبات ریاست ٹیکساس میں منتقل ہو چکی ہیں لیکن اب بھی یہاں انجینئرز کی بہت بڑی تعداد موجود ہے یہاں قدرتی گیس کے بھی وسیع ذخائر ہیں لیکن اس میں شمال اور شمال مشرق کے شہروں جیسی چمک دمک کے بجائے ایک طرح کی سادگی اور دیہاتی پن غالب ہے اور یہاں کی پاکستانی کمیونٹی بھی اس حوالے سے قدرے مختلف ہے ۔
ہفتے کی صبح ہم ڈاکٹر انوار کے ساتھ اوکلاہامہ سٹی کی طرف واپس روانہ ہوئے جہاں اسی شام کو اس دورے کا آخری مشاعرہ تھا جس کا احوال انشاء اللہ آیندہ کالم میں بیان ہو گا اور اس کے ساتھ ہی پاک امریکن تھنکرز فورم کا ترتیب دیا ہوا یہ دورہ اپنے اختتام کو پہنچے گا۔