یہ جامہ صدچاک اور بخیہ گری

کوئی لٹتا ہے کوئی لوٹتا ہے کوئی جیبیں خالی کر کے جاتا ہے اور کوئی جیبیں بھر کر لے جاتا ہے۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq September 02, 2014
[email protected]

ایک بڑے میلے میں ایک لڑکا اپنی ماں سے بچھڑ گیا۔ ماں تو بے چاری جہاں تہاں بچے کو ڈھونڈ ہی رہی تھی لیکن لڑکا بھی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ہر کسی کو ٹھہرا کر پوچھتا، آپ نے میری ماں کو تو کہیں نہیں دیکھا ہے، پوچھنے والا پوچھتا تمہاری ماں کی پہچان کیا ہے۔

لڑکا فوراً وضاحت کرتے ہوئے کہتا۔۔۔ ارے آپ اتنا بھی نہیں جانتے جس کے ساتھ میں نہیں ہوں گا وہی میری ماں ہو گی۔کچھ ایسی ہی حالت ہماری بھی ہو رہی ہے۔ ہم آپ سے اپنے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں لیکن جس کسی نے رواں دواں ''ہنگامہ ہاؤ ہو'' پر کچھ بھی نہیں لکھا ہے وہی ہم ہیں، دونوں واقعات میں کوئی اور مماثلت ہو نہ ہو کم از کم یہ مماثلت تو ہے کہ وہ لڑکا جو بچھڑ گیا تھا وہ بھی میلے میں اپنی ماں سے بچھڑا ہوا تھا اور ہم بھی اس عظیم الشاں میلے میں اپنے کالم سے بچھڑ گئے تھے جو ان دنوں اقتدار کے مزار عالیہ بمقام اسلام آباد برپا کیا گیا ہے۔

چونکہ اس میلے کا کوئی متفقہ یا سرکاری نام نہیں رکھا گیا ہے، اس لیے ہر کوئی اسے اپنی اپنی مرضی کا نام دے رہا ہے ۔کچھ لوگوں کے مطابق یہ ایک ہارس اینڈ کیٹل شو ہے جس میں دور دور سے ہارس اینڈ کیٹل لائے گئے ہیں۔ کسی کے خیال میں یہ اس ''کپ'' کے لیے منعقد کیا گیا ٹورنامنٹ ہے جو کرسی کی شکل کا بنایا گیا ہے لیکن ہم چونکہ ایسے بہت سارے میلوں میں اپنی ''چادر'' کھو چکے ہیں، اس لیے اسے ''چادر میلہ'' کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

ہمہ کارم ز خود کامی بہ بدنامی کشید آری
نہاں کی ماند آں رازے کہ آں سازند محفلہا

یعنی سارے کام خود غرضی کے لیے بدنامی اور رسوائی پر منحصر ہیں، اس لیے اس میں راز کی بات کیا ہے جو خواہ مخواہ اس کے لیے محفل آراستہ کی جا رہی ہے، شعر کا پورا مفہوم اگر واضح نہیں ہوا ہے تو دو لفظوں میں اس کی تشریح یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور جس حمام میں سب ننگے ہوں اس کے بارے میں یہ کہنا کہ فلاں ننگا ہے کار لاحاصل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں بہت کم لوگ ''ٹیپو سلطان'' ہوتے ہیں جو حمام میں بھی ننگے نہیں ہوتے باقی تو ۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا؟ جب سارے میلے کا مقصد ایک ہی ہو تو اس پر لکھیں بھی تو کیا لکھیں ہاں البتہ اسلام آباد کے رہنے والوں پر ترس بہت آیا۔

شب تاریک وبیم موج و گردابی چنیں حائل
کجا دانند حال ماسک ساران ساحل ہا

یعنی اندھیری رات ہے، موجوں کا ڈر ہے، گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن ہمارا حال وہ لوگ کیا جانیں جو دور ساحل پر آرام سے بیٹھے ہیں، ویسے اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں تو اس میلہ اسپاں و مویشیاں کو ایک موزوں حسب حال اور متفقہ نام دے بھی سکتے ہیں اور وہ نام ہو گا ہاتھیوں کا میلہ ۔۔۔ بلکہ ہاتھیوں کی لڑائی بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس میں ہاتھیوں کا تو کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے البتہ مینڈکوں کے کچلے جانے کی سو فیصد گارنٹی دی جا سکتی ہے یا دبی زبان سے یہ شعر بھی گنگنا سکتے ہیں کہ

من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

ہم وہاں گئے تو نہیں کیوں کہ ہم ہاتھی ہیں نہ مینڈک، اس لیے دور ہی دور رہنے میں سلامتی ہے لیکن وہاں سے جو خبریں آرہی ہیں، وہ کافی حوصلہ افزا ہیں، میلے میں جس بدنصیب کی چادر چوری ہونی ہے وہ تو ہو گی ہی کیوں کہ یہ سارا سلسلہ ہی اس چادر کے لیے چلایا جارہا ہے لیکن سنا ہے بڑے بڑے جمبو قسم کے ہاتھی لائے گئے ہیں جن کے دکھانے کے دانت انتہائی پرانے ہو رہے ہیں کہ سفید سے پیلے پڑ گئے ہیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کچھ زیادہ ہی ''مشوش'' طبیعت کے ہیں، اس لیے ہمیں دکھائے جانے والے دانتوں کے ساتھ کھانے والے دانتوں کی بھی فکر تھی، کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے لیکن واقف کار لوگوں سے پتہ چلا ہے کہ سب کے کھانے والے دانت انتہائی محفوظ ہیں اور ان کو ذرا بھی کوئی خطرہ نہیں، ویسے بھی یہ ایک میلہ اور نمائش ہے، لڑائی جھگڑا تو ہے نہیں جس میں دانتوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو البتہ چادروں کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے ویسے ہم نے کوشش بھی بہت کی اور سوچا بھی بہت بلکہ غور کے حوض میں غوطہ زنی بھی کی کہ اس میلے میں کوئی ایسی نئی بات مل جائے جس پر ہم بھی اپنے ایک دو کالم سوار کر سکیں، لیکن ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا، سب کچھ وہی تھا جو ہمیشہ سے ''میلوں'' میں ہوتا ہے ۔

کوئی لٹتا ہے کوئی لوٹتا ہے کوئی جیبیں خالی کر کے جاتا ہے اور کوئی جیبیں بھر کر لے جاتا ہے، دنیا بھر کے دکان دار، چھابڑی فروش، مداری، نو سر باز اور جیب کترے اپنا اپنا کمال فن دکھاتے ہیں، اب تو وہ پرانے میلے ٹھیلے رہے ہی نہیں لیکن چند سال پہلے تک مختلف مزاروں پر جو میلے لگتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہوتے تھے۔ دکان دار، چھابڑی فروش اور اہل حرفہ و ہنر سال بھر پہلے ہی تیاری میں لگ جاتے تھے۔ حلوائی لوگ اپنی بچی ہوئی مٹھائیاں ایک طرف اسٹاک کرتے تھے۔

مٹی اور لکڑی کے کھلونے والے بھی مال بنا کر جمع رکھتے تھے حتیٰ کہ مداری بھی خاص خاص آئٹم تیار کرتے تھے، سانپ اور جانور وغیرہ ٹرینڈ کیے جاتے تھے۔ جھولوں گھوڑوں کی مرمتیں اور رنگ و روغن کیا جاتا تھا اور عید کا پہلا دن ختم ہوتے ہی مختلف میلے سج جاتے تھے، ہمارے پڑوس میں ایک دوا فروش مداری تھا۔ وہ ہر میلے کے لیے کوئی نہ کوئی خاص دوائی ایجاد کرتا تھا۔ ہم بھی پڑوسی ہونے کے ناتے جا کر تماشا دیکھتے، کبھی کبھی ہاتھ بھی بٹا دیا کرتے تھے، کبھی گڑ کو جلا کر چاندی کے ورقوں والی گولیاں بنائی جاتیں کبھی کوئی خاص قسم کا تیل بنا کر اس کا عجیب و غریب نام رکھا جاتا ہے ۔

جیسے ''انقلاب کا تیل''، آزادی کا معجون، نئی جوانی کی گولیاں، نئے شباب کی پڑیاں، جمہوریت یا پارلیمنٹ کی بالادستی نامی چورن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اس لیے ہم نے اس مرتبہ بمقام اسلام آباد منعقد ہونے والے اس عظیم الشان میلے یا ہارس اینڈ کیٹل شویا سیاسی میگا ایونٹ کا کوئی نوٹس نہیں لیا کیوں کہ ساری باتوں کو جمع کر کے صرف ایک بات بنتی تھی کہ بت سم بہت جھول چکے اور اب مجھے باری دو، کچھ تو ادھر بھی ۔۔۔ آخر بے چاری ''بہری'' کا بھی تو کچھ حصہ ہونا چاہیے۔

صرف پھل جھڑیاں ہی تو دیکھنا تھیں، سو دور ہی سے دیکھتے رہے اور سر دھنتے رہے اور پاکستانی عوام کی قسمت پر رشک کرتے رہے کہ اس ''اکیلی جان'' کو خدا نے کتنے زیادہ اور کتنے بڑے بڑے خادم دے رکھے ہیں۔ خدمت کے نئے نئے پیکیج لانچ کیے جا رہے تھے ۔کوئی ان کی خدمت میں آزادی پیش کررہا تھا ،کوئی انقلاب تھما رہا تھا ،کسی کے پاس نیا پاکستان تھا، عوام آرام سے سو رہے تھے اور خادم ان کے لیے نہ جانے کیا کیا کشٹ بھوگ رہے تھے۔

کار ساز مابفکر کار ماست
لیکن جو بات کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ آخر ''ڈرائیور'' بدلنے سے ''لاری'' کی رفتار پر کیا اثر پڑے گا۔ لاری تو وہی چھکڑا ہے جس کا ہر انجر پنجر ڈھیلا ہے، ہر نٹ بولٹ زنگ دار ہے ہر ہر طرف سے دبا ہوا پچکا ہوا ہے، شکایت یہ ہے کہ یہ لاری رفتار نہیں پکڑ رہی ہے۔ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہماری لاری ابھی تک ڈھنیچوں ڈھنیچوں کر رہی ہے تو ڈرائیور بدلنے سے لاری نئی ہو جائے گی، رفتار بڑھ جائے گی، پرزہ پرزہ بجنا بند ہو جائے گا، اس کا پرانا سال خوردہ انجن تیل کھانا بند کر دے گا۔

یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے

اور اب تو اس میں بخیہ گری کے لیے بھی کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں